سوشیل میڈیا سےفیس بک سے آواز

یہ ارطغرل کیا ہے؟؟؟

زید مشکور

جہاں تک میرا ماننا ہے، کہ ارطغرل نا تو کوئی سحر ہے اور نا ہی کوئی جادو ، یہ صرف ایک ڈرامہ ہے اور محض ایک عام ڈرامہ نہیں، بلکہ اسلامی تاریخ کی وہ عظیم داستاں ہے، جسے قصہ پارینہ سمجھ کر بھلا دیا گیا ، یہ ایک جانباز کی کہانی ہے جو ہر مشکلات سے لڑ کر حق کے لئے جم جانے کا حوصلہ عطا کرتی ہے ،یہ وہ آئینہ ہے جس میں ہماری عظمت رفتہ کی صاف جھلکیاں نظر آتی ہیں . یہ امت کا وہ خواب ہے جو آج سے آٹھ سو برس پہلے دیکھا گیا۔
ویسے میں لٹریچر کا طالب علم ہونے کے ناطے ناول و ڈرامے وغیرہ تو پڑھتا رہا ہوں، مگر ڈرامے اور سیزن دیکھنے کا ذرا بھی عادی نہیں رہا ، کیونکہ ایک گھنٹے میں ہی بوریت اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے، کہ اس کے بعد تسلسل ممکن ہی نہیں، مگر پھر بھی میں نے ارطغرل کی کئی قسطیں بلکہ دیگر مصروفیات کے ساتھ کئی سیزن بھی دیکھے ۔

دراصل یہ ایک ترکی ڈرامہ ہے جو ترک قائی قبیلے کے سردار ارطغرل کی زندگی پر بنایا گیا ہے۔ تیرہویں صدی عیسوی میں جب مسلم دنیا انتشار کا شکار تھی، اسی دور میں ایک خانہ بدوش قائی قبیلے کے سردار سلیمان شاہ کے بیٹے ارطغرل نے صلیبیوں کی سازشوں اور منگولوں کے حملوں کے خلاف،نہ صرف ترک قبیلوں کو ایک لڑی میں پرو دیا بلکہ ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھی جو آگے چل کر عظیم عثمانی سلطنت کے نام پر سات سو سال تک دنیا کے نقشے پر قائم رہی۔

ارطغرل اس ڈرامے کا مرکزی کردار ہے جو عزم ، حوصلے اور استقلال کی علامت ہے ، اور سلطنت اسلامیہ کے قیام کے لئے نا ختم ہونے والی جدوجہد کی اپنی آپ مثال ہے، جس کی ایمانی حمیت سے لبریز یہ کلمات میرے دل کے نہاں خانوں میں آج بھی رقص کرتے ہیں، کہ ” منزل مارتے برق رفتار شہسواوں کی قسم، کوسوں دوڑتے سموں سے اڑتی چنگاریوں کی قسم ، اپنی ناموس کی خاطر ، اسلاف کے نام کی خاطر کسی جنگ میں اگر میں پیٹھ دکھانے کا سوچوں بھی، تو خدا مجھے سی نو آموز کی شمشیر سے نیست و بابود کردے ،مجھے سینہ ارض پر کہیں پناہ نا ملے ، تاریخ کے ورق سے میرا نام و نشان مٹ جائے، اپنے عظیم آباء و اجداد کے نام سب سے ، میرے قبیلے کے نام سے مجھے تا ابد کوئی نا پہچانے، رب ذوالجلال مجھے ہر معرکہ میں فتح نصیب فرما "

جب بھی ڈرامے میں ارطغرل کسی پریشانی کا شکار نظر آتا ہے ، تو ابنِ عربی کا کردار سامنے آتا ہے ، اور پھر قرآن و حدیث کے نور سے پریشانی کی تاریکیوں کو چھانٹتا ہے ، جو اس بات کی شہادت دیتا ہے ، کہ اسلامی حکومت کے قیام میں صوفیاء کا اہم کردار رہا ہے، حق پسند سلطانوں کا وقت کے صوفیاء سے خاص لگاؤ رہا ہے۔

جہاں تک اس ڈرامے میں پیش کردہ عشق و محبت کی جھلک ہے، جسے لوگوں نے اپنے اپنے حساب سے شرعی رومانس یا حلال رومانس کا نام دیا ہے، تو یاد رکھئے انسان کا خمیر ہی انس و محبت سے ہے، یہی وہ خوبصورت احساس ہے جسے تخلیق کار نے روز ازل سے اس کی فطرت میں شامل کر رکھا ہے، اور اس بنیاد پر بھی اسے اشرف المخلوقات بنایا ہے ” ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں ” کیونکہ اگر انسانی زندگی سے انس ہی نکال دیا جائے ، تو وہ محض سنگ و خشت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔

خیر یہ اپنے اپنے زاویہ نگاہ کی بات ہے، ورنہ پورا ڈرامہ قدیم اسلامی ترک کلچر پر مبنی ہے ، جو بہت خوب صورت ہے ، خاص طور سے ترک خواتین کا حوصلہ مند معاشرتی کردار بہت جاندار اور قدرتی ہے، جو آج کے دور میں عورتوں کی آزادی اور فیمنزم کا شافی علاج ہے۔
اگر ڈرامہ’’گیم آف تھرون‘‘ مغربی کلچر اور نظریے کا نمائندہ ہے تو ’’ڈیریلس ارتغرل‘‘ آج کے دور میں اسلامک کلچر اور نظریے کا نمائندہ ہے۔ جہاں گیم آف تھرون میں مغربی تہذیب کے اوصاف بدکاری، فحاشی، عریانیت، محرم رشتوں کی تباہی اور اقتدار کے لیے بدترین جدوجہد دکھائی گئی ہے ، وہیں ارتغرل میں اسلامی تہذیب کے اوصاف بڑوں کی عزت، انصاف ، اخلاقیات، اتحاد، محبت اور سب سے بڑھ کر اللہ کی رضا کے لیے ہر قسم کی قربانی دینا بہت اچھے انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔

ویسے کہنے کو دنیا میں کوئی بھی چیز عیب سے پاک نہیں ہے ، اور نا ہی غلطیوں سے خالی ہے ، تو ممکن ہو اور لوگوں کے ذہن پر سب سے پہلے اس کے نقص ہی ابھر کر آئیں ، سو انسانی زندگی کی اعلی فراست و عمدہ ذہنیت اور فرسودہ عقلیت و گھٹیا ذہنیت سے مجھے بھی کوئی انکار نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!