شخصیاتمضامین

مولانا محمد سراج الحسن صاحب کے سانحۂ ارتحال پر اظہارِ تعزیت میں کس نے کیا کہا!

جناب سید سعادت اللہ حسینی امیر جماعت اسلامی ہند

تحریک اسلامی اور ملت اسلامیہ کے قد آور رہ نما تھے۔ ان کی دینی و تحریکی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا _ ان کی وفات تحریک و ملّت کا ایک زبردست خسارہ ہے۔ ” ان خیالات کا اظہار امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی نے سابق امیر جماعت  مولانا محمد سراج الحسن صاحب کے سانحۂ ارتحال پر فرمایا مرحوم کی وفات آج سہ پہر کو ہوئی _وہ 88 برس کے تھے۔
مولانا محمد سراج الحسن کی شخصیت نگہ بلند ، سخن دل نواز اور جاں پر سوز کی زندہ تصویر تھی ۔ وہ نوجوانی ہی میں جماعت سے وابستہ ہو گئے تھے _ 1958 سے 26 برس تک وہ حلقہ کرناٹک کے امیر رہے، اس کے بعد انہیں مرکزی سکریٹری کی حیثیت سے مرکز جماعت اسلامی ہند بلا لیا گیا ، 1990 سے 2003 تک انھوں نے کل ہند امیر کی حیثیت سے ذمے داری نبھائی _ اس کے ساتھ ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت ، بابری مسجد رابطہ کمیٹی جیسے اداروں میں بھی سرگرم اور فعال کردار ادا کیا ۔ موثر خطابت ،  تعلقات میں گرم جوشی ، متوازن فکر ، اور سادہ لیکن محنتی مزاج ، ان کی نمایاں خصوصیات تھیں ، جن کے ذریعے انہوں نے تحریک اسلامی کو خوب فائدہ پہنچایا ۔ ان کے دورِ امارت میں ہندوستان کے مسلمان متعدد آزمائشوں سے گزرے۔ 1992 میں شہادتِ بابری مسجد کے بعد خود جماعت اسلامی ہند پر پابندی عائد کی گئی۔ مولانا نے اپنی بصیرت اور متعدل مزاجی کے ذریعہ ان مسائل کو حل کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ مرحوم کو دعوت اسلامی کے کاموں میں خصوصی دل چسپی تھی _ مختلف مذاہب کی نمایاں شخصیات سے ان کے گہرے روابط تھے۔ انھیں ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لیے انھوں نے ‘دھارمک جن مورچہ’ کی تشکیل کی۔
مولانا محمد سراج الحسن سے اپنے ذاتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے امیر جماعت نے فرمایا : میری شخصیت کی تعمیر و تربیت میں مولانا مرحوم کا اہم کردار رہا ہے۔ مجھ جسیے بے شمار نوجوانوں کو مولانا نے تحریک کے لئے تیار کیا ۔امیر جماعت نے مولانا مرحوم کے لیے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے، ان کی سئیات سے درگزر فرمائے، انہیں جنّت الفردوس میں جگہ دے، پس ماندگان کو صبر جمیل سے نوازے  اور تحریک اسلامی کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے _

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

عالمی سطح پر اسلام پسندوں اور خاص طور پر تحریکی حلقوں میں یہ خبر بہت افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ جماعت اسلامی ہند کے سابق امیر مولانا محمد سراج الحسن کا آج (2 اپریل 2020) سہ پہر میں انتقال ہوگیا _ موصوف 88 برس کے تھے _ چند دنوں قبل وہ واش روم میں گر گئے تھے ، جس سے ان کے کولہے کی ہڈی دوبارہ ٹوٹ گئی تھی _ گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر ڈاکٹروں نے آپریشن مناسب نہیں سمجھا _ بالآخر جاں بر نہ ہوسکے اور آج روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی _ مولانا سراج الحسن کی ولادت مارچ 1932 میں جوال گیرا ، ضلع رائچور (کرناٹک) میں ہوئی _ والد کا نام ابو الحسن تھا _ ابتدائی اسکولی تعلیم کے بعد انھوں نے اپنے گھر پر ہی مختلف علوم کا مطالعہ جاری رکھا _

وہ 19 برس کی عمر میں جماعت اسلامی ہند سے متعارف ہوگئے تھے اور اس کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے تھے _ 1957 میں پچیس برس کی عمر میں وہ جماعت کے رکن بن گئے _ اگلے ہی برس انہیں حلقۂ میسور (کرناٹک) کا امیر بنادیا گیا _ اس وقت سے 1984 تک مسلسل 26 برس انھوں نے امیر حلقہ کی ذمے داری نبھائی _ اس کے بعد انھیں جماعت کے مرکزی سکریٹری کی حیثیت سے دہلی بلالیا گیا _ 1989 کے اواخر اور 1990 کے اوائل میں 6 ماہ وہ قائم مقام امیرِ جماعت رہے _ 1990 میں ان کا انتخاب امیر جماعت اسلامی ہند کی حیثیت سے ہوا _ اس منصب پر وہ جماعت کی تین میقاتوں میں 13 برس تک فائز رہے _

مولانا سراج الحسن جماعت اسلامی ہند کی امارت کی ذمے داری نبھانے کے ساتھ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت ، بابری مسجد رابطہ کمیٹی اور دیگر متعدد ملّی اداروں میں بھی سرگرم اور فعال کردار ادا کرتے تھے ۔ ان کے دورِ امارت میں ہندوستانی مسلمانوں کو متعدد آزمائشوں سے گزرنا پڑا ۔ 1992 میں شہادتِ بابری مسجد کے بعد خود جماعت اسلامی ہند پر پابندی عائد کردی گئی ۔ ان مواقع پر مولانا نے اپنی مومنانہ فراست ، خداداد بصیرت اور معتدل مزاجی کے ذریعہ ان مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔

مولانا مرحوم کو اسلام کی دعوت و تبلیغ کے کاموں میں خصوصی دل چسپی تھی _ وہ اللہ کے بندوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے بے چین رہتے تھے _ ملک کی مختلف نمایاں مذہبی شخصیات سے وہ گہرے روابط رکھتے تھے اور ان کے ساتھ مل کر ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا برقرار رکھنے کی کوشش کرتے تھے _ اس کے لیے انھوں نے ‘دھارمک جن مورچہ’ کے نام سے ایک پلیٹ فارم کی تشکیل کی تھی _ ان کی ان خدمات کی وجہ سے انہیں ملک کی تمام دینی و ملّی جماعتوں اور غیر مسلموں کے مختلف حلقوں میں قدر و تحسین کی نظر سے دیکھا جاتا تھا _

مولانا سراج الحسن بے مثال خطیب تھے _ ان کی خطابت سامعین کو اپنا اسیر بنالیتی تھی _ ان کی تقریریں گھن گرج والی ہوتی تھیں _ جب وہ بولنا شروع کرتے تو سامعین گوش بر آواز ہوجاتے تھے _ ان کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ جس سے بھی ملتے ، بہت ٹوٹ کر ملتے تھے _ ہر ملنے والے سے ، چاہے اس سے ان کی پہلی ملاقات ہی ہوئی ہو ، اتنی محبت ، اپنائیت اور گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے کہ وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا تھا _

سابق امیر جماعت مولانا سراج الحسن راقم سطور سے بھی بہت محبت کرتے تھے _ میرا قیام علی گڑھ میں تھا اور میں ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ سے وابستہ اور اس کے ترجمان سہ ماہی تحقیقات اسلامی کا معاون مدیر تھا _ جب بھی ادارہ کے یا کسی اور کام سے مرکز آنا ہوتا ، مجھ پر نگاہ پڑتے ہی وہ آگے بڑھتے اور بڑی تپاک اور محبت سے ملتے ، ادارہ کے وابستگان اور علی گڑھ کے احباب کی خیریت دریافت کرتے ، خصوصاً ادارہ کے اُس وقت کے سکریٹری اور سابق امیر جماعت مولانا سید جلال الدین عمری کا ، جن کا اُن دنوں علی گڑھ میں قیام رہتا تھا ، حال چال دریافت کرتے _ پھر تحقیقات اسلامی میں شائع ہونے والی میری تازہ تحریروں پر اپنے تبصرے سے نوازتے ، ان کی خوب تحسین کرتے اور بعض باتوں پر کمنٹ بھی کرتے _ مجھے بڑی حیرت ہوتی کہ وہ اتنی مصروفیات کے باوجود اتنی گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں اور جزئیات پر بھی ان کی نظر ہوتی ہے _

مولانا مرحوم نے مولانا ابو اللیث ندوی اصلاحی رحمہ اللہ سے جماعت کی امارت کا چارج لیا تھا _ 13 برس کے بعد انھوں نے امارتِ جماعت پروفیسر محمد عبد الحق انصاری رحمہ اللہ کے حوالے کی _ سبک دوشی کے بعد ایک موقع پر ان سے انٹرویو لیا گیا _ انٹرویو لینے والے نے پہلا سوال یہ کیا : ” جماعت کی امارت سے سبک دوش ہونے کے بعد آپ کی مصروفیات کیا ہیں ؟ ” مولانا نے بڑا پیارا جواب دیا : ” ہم جماعت کی امارت سے سبک دوش ہوئے ہیں ، نہ کہ اس نصب العین سے جو زندگی کا نصب العین ہے _ مستقر پر رہتا ہوں تو مطالعہ کرتا ہوں _ اس دوران اسفار کے پروگرام بھی بنتے رہتے ہیں _ زیادہ تر کرناٹک میں مختلف مقامات پر جانا ہوتا ہے _” اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” ایمان لانے والوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے _ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے _ انہوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی _” (الاحزاب :23)

میں گواہی دیتا ہوں کہ مولانا محمد سراج الحسن نے اپنی زندگی کا جو نصب العین اختیار کیا تھا ، زندگی کی آخری سانس تک اس کی پاس داری کرتے رہے _ جب تک زندہ رہے ، اسلام پر قائم رہے اور جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ایمان پر ان کا خاتمہ ہوا _ اے اللہ! تو مولانا سراج الحسن سے راضی ہوجا، ان کی خدمات کو شرفِ قبولیت بخش، ان کی سئیات سے درگزر فرما ، انہیں جنّت الفردوس میں جگہ دے، ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل سے نواز اور تحریک اسلامی کو ان کا نعم البدل عطا فرما _ آمین ، یا ربّ العالمین _

محمدیوسف کنی معاون امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند، کرناٹک

آج 2 اپریل 2020 ہم سب کے مرشد،قائد تحریک حضرت مولانا محمد سراج الحسن صاحب سابق امیرجماعت اسلامی ہند انتقال کر گئے اناللہ و اناالیہ راجعون، اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے جنت میں بلند مقام عطاکرے ،گھروالوں اور لاکھوں کی تعداد میں وابستگان تحریک کو صبرجمیل عنایت فرمائے ۔آمین ۔ان شااللہ کل دوپہر 2.30 بجے مسجد منیر نزد ریلوے اسٹیشن میں نماز جنازہ ادا کی جائے گی ۔رفقاے جماعت سے گزارش ہے کہ دعائے مغفرت فرمائیں۔

محمد فائز الدین، حیدرآباد

  • مولانا محترم جب دوسری بار امیر جماعت منتخب ہونے کے بعد حیدرآباد تشریف لائے تو ایس آئی او کی جانب سے انھیں نامپلی اسٹیشن سے جلوس کی شکل میں لکڑ کوٹ تک لایا گیا۔

حسب` خدشہ انھوں نے اس بات کو نا پسند کیا اور برجستہ تذکیر بھی فرمادی۔ نشست کے اختتام کے بعد سب لوگ صف میں کھڑے ہوگئے کہ شرف`مصافحہ حاصل ہوجائے۔ جب میرے سامنے سے گزرے تو ایک منٹ کے لئے ٹھیر گئےاور پوچھا “کیسے ہو فائز میاں” ؟ اس ایک جملےکی مٹھاس ابھی تک تر و تازہ ہے۔

  • سال 2012 میں ایس آئی او کرناٹک کی ممبرز میٹ واقع باگل کوٹ جاتے وقت رائچور میں کچھ دیر رک کر مولانا سے ملاقات کی خواہش ہوئی۔

گھر پہونچتے ہی بڑی محبت سے استقبال کیا ۔
میں نے پوچھا ” مولانا کیا آپ نے مجھے پہچانا” ؟
تو جواب میں انھوں نے مسکرا کر پوچھا
رشاد میاں کہاں ہیں آج کل اور کیسے ہیں ؟

اس بار پھر سے شفقت بھری ڈانٹ سنی کیونکہ ہم
ڈھیر سارے پھل لے گئے تھے مولانا کے لئے ۔

  • جناب ملک معتصم خان کا جب دوسری مرتبہ صدر تنظیم کی حیثیت سے انتخاب ہوا تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا تاریخی ہال ملک بھائی کی سسکیوں سے گونج اٹھا۔

مولانا محترم اس اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ انھوں نے معاملہ کی نزاکت کو محسوس کرتےہوئے فوری اجلاس کو معطل کردیا۔اور ملک بھائی کو ان کے چند قریبی ساتھیوں کے ساتھ اپنی کار میں لے کر چلے گئےاور کافی دیر بعد واپس تشریف لائے۔ اس دوران ملک بھائی کافی حد تک پر سکون ہو چکے تھے ۔

  • ٹاملناڈ کے ایک شہر کرشنا گری میں صدر تنظیم کے انتخاب کے لئے اجلاس ہوا تو دہلی کے ایک ZAC ممبر نے ایک صاحب کا نام پروپوز کیا اور گفتگو شروع کی کہ میرے پاس اپنے موقف کی دلیل کے طور پر 20 دلائل موجود ہیں، مولانا نے تین دلائل سننے کے بعد انھیں روک دیا اور جامع اور مختصر گفتگو کے آداب سکھائے۔
  • 1999 میں ففرو الی اللہ کانفرنس بنگلور میں منعقد ہوئی۔ میری ڈیوٹی مہمانوں اور مقررین کے انتظامات پر تھی۔ بھاری تعداد میں لوگ مولانا محترم سے ملنے کے لئے آرہے تھے جنھیں کنٹرول کرنے میں والنٹئرز کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ میں نے مولانا سے خواہش کی کہ اس طرح تو دھکم پیل اور بحث و مباحثہ کا ایک سلسلہ شروع ہوگا لہذا آپ کانفرنس کے تینوں دن ٹینٹ کے باہر کچھ دیر کرسی پر بیٹھ جائیں۔ مولانا نے اس تجویز کو قبول کیا اور فورا” ایک لمبی قطار تشکیل پاگئی لیکن دس منٹ کے اندر کئی سو لوگوں نے مصافحہ کر لیا ۔
  • وجے واڑہ میں جماعت کی ریاستی کانفرنس کے لئے شنکر آچاریہ سوامی سرسوتی مدعو تھے۔ میں نے انھیں حیدرآباد ائر پورٹ سے ریسیو کیا اور وجے واڑہ لے گیا۔ راستے بھر مولانا محترم کا ذکر کرتے رہےاور جب ان کی تقریر کا وقت آیاتو ایک ایسی بات کہہ دی کہ پورا مجمع جذبات میں آگیا۔

شنکرآچاریہ نے کہا کہ

اگر ایشور نے مجھ سے میری آخری خواہش معلوم کی تو میں کہوں گا کہ سورگ میں مجھے
مولانا سراج الحسن کے قریب جگہ عطا فرما۔

اللہ تعالی غریق` رحمت کرے ۔

محمد عاصم الدین اختر، امیر مقامی رائچور

مولانا محمد سراج الحسن صاحب کی رحلت ہم سب کے لیے انتہائی رنج و غم کا باعث ہے جس کا الفاظ میں بیان ممکن نہیں.

آج 2 اپریل 2020 کی شام بعد عصر مولانا محترم نے داعی اجل کو لبیک کہا. انا للہ وانا الیہ راجعونانشاء اللہ نماز جنازہ و تدفین کا اہتمام بتاریخ 3 اپریل 2020 بروز جمعہ ٹھیک 2:30 بجے دوپہر بمقام بڈی بابا قبرستان، متصل مسجد منیر میں ہوگا.

موجودہ لاک ڈاؤن کے پیش نظر گزارش ہے کہ نماز جنازہ و تدفین میں شرکت کی ہرگز کوشش نہ کریں. بس دعا فرمائیں اور جیسے بھی ممکن ہو، ‘حالات کا لحاظ رکھتے ہوئے محدود تعداد میں اپنے مقام پر غائبانہ نماز جنازہ کا نظم کریں.اللہ رب العزت مولانا محمد سراج الحسن صاحب کی بال بال مغفرت فرمائے، ان کے تمام حسنات قبول فرمائے اور جنت الفردوس عطا فرمائے.

اللھم اغفر لہ وارحمہ واعف عنہ واسکنہ وادخلہ فی الجنہ
آمین یا رب العالمین

فراست ملاّ، ہبلی

اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر۔

دنیا میں ایسی شخصیات بہت ہوتی ہیں جن سے لوگ متاثر ہوں، جن کا لکھا چھپتا ہو، جن کا کہا ریکارڈ کیا جاتا ہو، اور لوگ انکے لکھے سے اور انکے کَہے سے متاثر ہوتے ہوں۔ دنیا میں ایسی شخصیات بھی بہت ہوتی ہیں جو کسی ذمہ داری پر فائز ہوں، اور لوگ انکی خدمات سے متاثر ہوتے ہوں۔لیکن دنیا میں ایسی شخصیات شاید کم ہوتی ہیں، جنکی تربیت سے ایک نسل انکی عاشق اور اگلی نسل، اُنکے تربیت یافتگان کی عاشق ہوتی ہے۔

مولانا سراج الحسن صاحب وہ شخصیت تھے جنکی تربیت کی تحریک اسلامی ہند کی کھیپ کی کھیپ مقروض ہے۔ میں نے مولانا سے بس چند ہی مرتبہ ملاقات کی ہے۔ لیکن میرے امّی اور ابا اگر کسی ہستی سے سب زیادہ متاثر ہیں تو وہ مولانا سراج الحسن ہیں۔ میرے والد کہتے ہیں کہ، مربی کا کوئی اور چہرا مولانا کے علاؤہ ذہن میں آنا مشکل ہے۔

فرد کی ہمہ جہت تربیت کا عنوان مولانا سراج الحسن ہیں۔

ہمارے اجتماعات میں اکثر دری یا چٹائی بچھائی جاتی ہے اور وہ اکثر کنارے پر تہ (fold) ہو جاتی ہے، اس پر کون توجہ دیتا ہے۔۔
میرے والد کہتے ہیں کہ “مولانا ہمارا ہاتھ تھامے اس تہ شدہ کنارے کو ٹھیک کرتے اور کہتے اسے اس طرح بِچھاتے ہیں، کیونکہ ‘احسان’ اِسی کا نام ہے۔”
ابا ہمیشہ کہتے ہیں کہ، “چٹائی اٹھاتے ہوئے یہ خیال رہے کہ جو حصہ فرش سے لگا ہو وہ تہ کرتے ہوئے اندر کی جانب ہو، تاکہ فرش کی دھول کپڑوں پر نہ لگ جائے۔ مولانا ہی نے ہمیں یہ بات سکھا ئی ہے۔”

اجتماعات کی بھیڑ میں، تقاریر کی گونج میں، رپورٹوں کے پلندے میں اور سوشل میڈیا کے میسیجز میں کون اب چٹائی اٹھانا سکھائے گا؟.

تقریر ایسی جاندار کہ اگلا مقرر رخصت لینا چاہے۔ گفتگو اتنی پر مغز کہ اختتام پر لوگ دل پر ہاتھ رکھ کر دھڑکن کا اندازہ کر کے اٹھیں۔۔ شخصیت کا جلال ایسا کہ پہلی نظر میں دل گرفتار ہوجائے۔۔
چہرے پر اتنی محبت کہ، دیکھنے والے قرب حاصل کیے بغیر لوٹنے کا خیال بھی نہ کرے۔۔
سادگی ایسی کہ جوار کی روٹی تقاضہ کر کے کھاتے اور میزبان کی آنکھیں پرنم کردیں۔۔

میں جب اسکول میں تھا تو ایک اجتماع میں کسی تقریر کا عنوان تھا ‘مرجع خلائق’، میں نے کسی بزرگ سے سوال کیا تھا اسکا کیا مطلب ہے؟؟ انہوں نے جواب دیا تھا، “مولانا سراج الحسن”۔

اُس وقت مجھے لگا تھا کہ شاید بزرگ کو جواب نہیں آتا ہے۔ آج لگتا ہے کہ ہر شخص مجھ سے وہ سوال کرے اور سب کو میں یہی جواب دوں، “مولانا سراج الحسن”.

إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ‎.. اللہ مولانا کو بہترین درجات سے نوازے۔۔

صلاح الدین جاگیردار

تمنا حسرت بن کر رہ گئی

مولانا سراج الحسن صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ یہ خبر جیسا ہی کانوں میں پڑی آنکھ سے آنسُو ٹپک پڑے۔ میری تمنا تھی کے میں ایک بار ضرور مولانا سے ملاقات کروں گا۔ میں نے کوشش بھی کی۔ لیکن ہر بار ناکام رہا۔ مولانا کا غائبانہ تعارف سن کرہی میں مولانا سے متاثر ہوگیا تھا۔ اور دل میں ایک تڑپ سی جگی کی ہندوستان کی بڑی بڑی ہستیوں میں شمار ہونے والے اسلام کے اس بیٹے سے ملاقات کروں ۔ ایس۔ آئی۔ او کرناٹک کے کیڈر کنونشن میں مولانا کا آنا ہوا تھا۔ میں نے جب ٹھان لیا تھا کہ آج تو ملاقات کرکے ہی رہوں گا۔

میں نے بہت بھاگ دوڑ کی پر مولانا کی طبیعت کے چلتے ملاقات نہ ہو پائی۔ مولانا نے دین کی خاطر جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ بڑی جاندار شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کی آواز میں بلا کا رعب تھا ۔ جہاں تک میں جانتا ہوں مولانا نے قلمی میدان میں کام نہیں کیا۔ مولانا مودودی سے جب مولانا سراج الحسن صاحب کی پاکستان میں ملاقات ہوئی تو مولانا مودودی نے کہا۔ سراج صاحب آپ ہمارے سے جنت میں دو قدم آگے ہونگے۔ کیونکہ ہم مسلمانوں میں دین کا کام کر رہے ہیں اور آپ ایسے لوگوں میں کام کر رہے ہیں جہاں کی اکثریت خدا سے نابلد ہے۔

بہرحال میرے دل کی تمنا حسرت بن کر رہ گئی۔ خدائے پاک سے دعا ہے کہ مرحوم کی کروٹ کروٹ مغفرت فرمائے۔اہل خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ اور جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام عطا فرمائے۔
آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!