ادبی دنیانثر

نور فاطمہ کی کتاب “آبگینے” اِن کی کل شخصیت کا آئینہ ہے

تبصرہ نگار: سید عرفان اللہ، بنگلورو

عورت نام ہے الفت(بیوی)، رحمت(بیٹی)، عزت(بہن) او ر جنت(ماں) کا ۔ شاید اسی لئے اقبالؔ نے کہا تھا۔
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

محترمہ نور فاطمہ انصاری کی کتاب” آبگینے” بھی مذکورہ شعر کے سلسلہ کی ایک خوبصورت کڑی ہے، نورفاطمہ ایک بہادر، جذباتی، بے لوث،سوچ سمجھ کر بولنے والی، سلجھی ہوئی مگر خود میں الجھ کر رہنے والی ایک معصوم طبیعت شخصیت کا نام ہے۔نور فاطمہ ویسے پیشے سے معلمہ ہیں آپ کی اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی بہت اچھی ہے۔ جی ہاں میں نے بہت کم معلمات کوصحیح اردو میں بات کرتے اور لکھتے سنا اور دیکھا ہے۔ ویسے ہم سبھی سرکاری اردو مدارس کی معلمہ سے خوب واقف ہیں اور مجھے تو کرناٹک اردو اکادمی کے ”اردو اساتذہ کی کارگاہ“ کے دوران کافی مسابقہ بھی پڑاہے۔ نور فاطمہ معلمہ کے علاوہ شاعرہ بھی ہیں اور ایک اچھی مضمون نگار بھی ۔

محترمہ نے کرناٹک اردو اکادمی اوربزمِ امیدِ فرداکے کئی مشاعروں میں شرکت بھی کی اور کرناٹک اردو اکادمی کے تاریخ ساز ”جشنِ اردو“ میں خواتین کے مشاعرے میں بھی حصہ لیا تھا۔ اور آپ کے کلام کی خوب پذیرائی بھی ہوئی تھی۔ نورفا طمہ انصاری نے اپنے کلام کے ذریعہ اپنی ہم عصر شاعرات کو بھی وہ مضامین چننے پر مجبور کیا ہے جو ابھی تک اردو شاعری میں ممنوع نہ سہی لیکن شاعری دنیا سے باہر سمجھے جاتے تھے۔ اس میں دورائے نہیں کہ اپنے فن کے ذریعہ نورفا طمہ نے خوب کمال پیدا کیا ہے، آپ نثر ہو یا شاعری۔ دونوں ہی اصناف میں آپ ملکہ رکھتی ہیں۔

”آبگینے“ جب میرے ہاتھ آئی تو میں نے اسے بھی ایک اور عام کتاب تصور کیا تھا۔ مگر جب اسے پڑھنے کے لئے کھولا تو ”آبگینے“ کے تعلق سے پہلے صفحہ پر حدیث شریف سے استفادہ کیا تو معلوم ہواکہ محترمہ صرف علمی نہیں بلکہ دینی معلومات بھی خوب رکھتی ہیں اور آپ کے مطالعہ میں قرآن اور حدیث بھی ہیں جو آپ کو ایک مکمل مسلم معلمہ بنانے میں خوب رول ادا کر رہے ہیں۔ کتاب کھولنے سے پہلے مجھے پورا یقین تھا کے آپ یہ کتاب اپنی والدہ کے نام ہی منسوب کی ہوں گی۔اور ایسا ہی ہوا، کیوں کہ آپ کو اپنی والدہ ماجدہ سے بہت زیادہ محبت ہے آپ جب بھی ادبی محفلوں میں ملتیں ہیں تو اپنی والدہ کا ذکرِ خیر اور ان کے تعلق سے اکثر بات کرتی ہیں۔ میرے ہاتھ جب بھی کوئی کتاب آتی ہے تو اس میں صرف تین یا چار اظہارِ خیال پڑھنے کو ملتے ہیں مگر محترمہ کی ”آبگینے“ میں مجھے تقریباً 10 تاثرات پڑھنے کو ملے اور تمام نے ہی محترمہ کی شخصیات کو بہت ہی خوب انداز میں بیان فرمایا ہے اور کئی ادیبوں نے آپ کے فن سے متعلق بہت کچھ لکھ دیا ہے اور اس طفلِ مکتب کے لئے کچھ نہیں چھوڑا ہے۔

حال ہی میں میرے عزیز جناب مبین احمد زخم نے بھی آپ پر ایک بہت عمدہ اور طویل مضمون لکھا تھا اور میرے رفیق جناب واجد اختر صدیقی نے بھی ”نورِ سحر کی سحر انگیزی“ خوب لکھی ہے۔اور میرے نزدیک کسی بھی شاگرد کے لئے سب سے بڑی اور اچھی بات یہ ہوتی ہے کہ آپ کے استاد آپ کے تعلق سے یوں کہیں کے ”متین احساس اور سنجیدہ فکر کی شخصیت“ میں سمجھتا ہوں اس کے بعد کچھ کہنے اور لکھنے کی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔

کتاب میں آگے بڑھنے پر محترمہ کے مضامین کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور پہلے مضمون ”وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ“ سے آغاز ہوتاہے۔ اور رفتہ رفتہ کئی مضامین ایسے ہیں جس میں کئی ایک کو بار بار پڑھنے کا من کرتا ہے۔ میں نے پہلے بھی کہا محترمہ صرف ایک معلمہ ہی نہیں بلکہ ایسی ادبی شخصیت ہے جو نثر اور شاعری دونوں اصناف پر اچھی پکڑ رکھتی ہیں اور آپ میں یہ کمال آئے بھی کیوں نہیں آخر جناب محب کوثر صاحب کی شاگردہ جو ہیں۔

محب کوثر صاحب کا ذکر جب بھی آتا ہے تورائچور کے استاد شاعرجناب شیدہ رومانی کا یہ قطعہ مجھے بے ساختہ انکی اردو خدمت کے لئے یاد آتا ہے۔
فکر و احساس کی خوشبو کے لئے زندہ ہوں
دل میں جلتے ہوئے جگنو کے لئے زندہ ہوں
جانے کس کس کے لئے جیتے ہیں لوگ یہاں
میں جو زندہ ہوں تو اردو کے لئے زندہ ہوں
ویسے تو میں ”آبگینے“ کے تعلق سے لکھ رہا ہوں مگر شاگردہ کے استاد کا جب جب ذکر آئے گا تو میں سمجھتا ہوں اس قطعہ کو یاد بھی کیا جائے گا۔ اس لئے کے آپ نے جو اردو ادب اور زبان کی جو خدمات کی تھیں وہ کسی سے چھپی نہیں ہے۔

کل ملا کر محترمہ کی 3کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔جو بڑی جرات کا کام ہے۔ محترمہ کی زبانی کہنا چاہوں گا۔
قدرت نے عطا کیا ہے مرد و زن کو یہ کمال
مرد کو قویٰ بنایا تو بنایا زن کو حسیں جمال
ایک ہے اعلیٰ ظرف تو دو جا بلند ترین
ایک ذاتِ خود جواب تو دو جابنے سوال
آخر میں صرف اتنا ہی کہ ”آبگینے“ نور فاطمہ کی کل شخصیت کا آئینہ ہے۔ اس کے ذریعہ آپ نے اپنے احساسات اورمسائل ِ نسواں اور کافی حد تک خود ہی ان کے حل کا ذکر کر دیا ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ آپ کے مضامین میں مجھے میچؤریٹی Maturity کافی ملتی ہے۔ اللہ سے دعا ہے اللہ کرے زورِ قلم بہت خوب زیادہ ”آمین“

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!