غلط نکلے سب اندازے ہمارے…
شاہانہ خانم، حیدرآباد
غلط نکلے سب اندازے ہمارے
کہ دن آئیں نہیں اچھے ہمارے
اگر ہم پر یقین آتا نہیں تو
کہی لگالو انگوٹھے ہمارے
جس پیار وبھروسے سے ہندوستان کی عوام نے بی جے پی کی جھوٹے وعدوں کوسچ مان کر اپنا قیمتی ووٹ دے کر ان ظلموں کو اقتدار میں لایا آج وہی ظالم حکومت نے انہیں صرف ایک شناختی کاغذ کے روپ میں اندھیروں میں ڈھکیل دیا۔نفرت تعصب اورانتہا پسندی ہمیشہ فساد برپا کرتی ہے۔ بی جے پی کی حکومت کی کاموں کی جو فہرست ہے اس فہرست میں ہندوستان کو جس سازش میں گھیرا ہوا ہے اس فہرست میں چندکاموں کی تکمیل ہوچکی ہے۔ جس کے نام یہ ہیں۔رام مندر کام ڈان، آرٹیکل370کو ہٹانے کا کام ڈان،جموں کشمیر اور لداق کو کیندرپردیش بنانے کا فیصلہ ڈان،اور شہریت ترمیم قانون کو بھی ڈان،اور تو اور انہوں نے اسلامی شریعت کو بھی اپنے مطابق بنانے کی کوشش کی جس کی مثال تین طلاق جو عورتوں کی ہمدردی کے لئے بنایا گیا۔
ان سارے کاموں کی سازشیں کرنے والی بہت بڑی طاقت ہے جو بی جے پی کی حکومت کے ذریعہ یہ سارے ہٹکنڈے اپنائے جارہے ہیں۔اور یہ سارے ہٹکنڈوں کے سیمپل سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ارادے خطرناک ہیں۔ مودی شاہ کے اس خرید فروخت کے دور میں اب راجا کو بھی بکتے ہوئے دیکھا ہے۔ اگر کوئی شخص طاقتور اور رحیم دل نہ ہوتو وہ ظلم وستم کی ساری حدود پارکرجاتا ہے۔اور وہ تاشاہ کے کام اور فیصلوں سے ساری انسانیت شرمسار ہوجاتی ہے۔ہمارے ہندوستا ن میں ایسے ہی تاشاہی والے فرمان جاری ہورہے ہیں۔جو دستور ہندوستان کی آن بان شان تھی،دستور ہند ملک کا زیور تھا،امن ورواداری ہندوستان کا سرمایہ تھا۔انگریزوں نے صرف ملک کی دولت کو لوٹ کر لے گئے۔ مگر ہمارے ملک کے حکمران توہمارے ملک کا دستور ہند،آئین کاسرمائے کو لوٹ رہے ہیں۔ اس ملک کے قانون کی حفاظت جس خاکی وردی پر ہوتی ہے وہ ان تاشاہوں کے غلام بنے بیٹھے ہیں ان کے اشاروں پرکٹھ پتلی کی طرح ناچ رہے ہیں۔
اس کی تازہ مثال ہمیں جامعہ کے لائبریری میں بیٹھے ان معصوم بچوں پر پولیس اورسی آر پی ایف کی بربرتا سے پیٹتے نظرآرہے ہیں۔ اور وہ سفید جھوٹ بھی بولتے ہیں کہ وہ تو لائبریری میں داخل ہی نہیں ہوئے۔یہ ظلم جو تناور کی شکل میں ہم پر آمنڈپڑا ہے اس کا بیچ آر ایس ایس نے کئی سالوں پہلے بو دیا تھا۔اس کی جڑیں زمین میں مضبوط ہوگئی ہیں۔اور اب یہ فصل کو کاٹ رہے ہیں۔ اس کے کئی پہلو ہمارے سامنے ہیں اخلاق کی لیچینگ سے لے کر پہلو خان،جنید،تبرزانصاری تک یہ قوم چپ رہی سوتی رہی ظلم سہتی رہی،کشمیر سے آرٹیکل ہٹنے پر یہ قوم چپ رہی،ٹیرپل طلاق اور بابری مسجد کے فیصلے کو بھی یہ قوم نے کڑی دوا سمجھ کر پی لیا۔اور اب ہندو راشٹربنانے کے لئے جو کالا قانون آیا ہے تو اب یہ قوم جاگ گئی۔ سیاہ قانون کے خلاف سٹرکوں پر احتجاج ہورہا ہے۔
پچھلے دنوں جب ٹرمپ یہاں آئے تو نمستے ٹرمپ کے نام سے ان کا استقبال کیا گیا۔ غریبی کو چھپانے کیلئے مودی جی نے جودیواریں اٹھائیں یہ توآپ سب جانتے ہیں۔جب ٹرمپ یہاں آیا تو دوسری طرف دہلی میں سونچی سمجھی سازش کے ذریعہ یہاں فسادات ہوئے اور ان فسادات کرنے والوں کو مذہب کے نام سے دیکھا گیا تو تب ایسے بھی لوگ ہیں ان اس مذہبی راج نیتی کو بٹنے اور باٹنے سے انکار کردیا ہے۔اتنا ّخطرناک کھیل جو دہلی میں کھیلا گیا ان کھنڈروں میں سے کچھ کہانیاں ایسی بھی ہیں جو اس مذہبی دیوار کو توڑدیتی ہیں۔بھروسے کی دیوار ابھی قائم ہے۔ہمارے سیکھ بھائی سیندرسنگھ سیدھو اور زیا الدین کی کے بارے میں ٹیوب میں آپ نے دیکھا ہی ہوگا پریم کانت بھگیل کو بھی نہیں بھلایا جاسکتا ہے جو اپنے پڑوسی کو بچانے کیلئے آگ میں کود پڑے۔ وہ یہ نہیں دیکھے کہ ان کا پڑوسی مسلم ہے۔
ایک ویڈیو میں کومل اس فساد میں سب سے آگے تھے جو دکانیں جلانے اور مارپیٹ میں آگے تھے۔ جب اس شخص کی پہچان ہوئی اور وہ پکڑا گیا تو وہاں کے رہنے والوں نے خود اس کے ساتھ بدلہ نہیں لیا حالانکہ لوگوں نے اس پر حملہ کرنے کی کوشش کی پر سلمان صدیقی نے اپنی جان پر کھیل کر اس شخص کو بچالیاقانون کوہاتھ میں لینے کے بجائے اس شخص کو پولیس کے حوالے کردیئے۔دہلی میں نفرت نے کتنے ہی گھراجاڑکررکھ دیئے۔ عورتوں کے سہاگ،بچوں کو یتیم،والدین کی گود سونی کردی گئی۔ دہلی کا امن برباد ہوگیا۔
جن کی دکانیں جلی ان کے اپنے مرگئے جو ہسپتال میں پڑے ہوئے ہیں زندگی اور موت سے گذررہے ہیں۔جب ہنسا اور بھڑکاؤ بھاشن دیئے جارہے ہیں تب کسی نے اس کو نہیں روکا۔دہلی کے چناؤ میں نفرت کی کھیتی کی گئی۔جامعہ،جے این یو،شاہین باغ غنڈے آئے گولی چلائے اور پولیس صرف تماشائی بنی دیکھتی رہی۔دہلی میں 3دنوں تک فسادات ہوئے پولیس اس کو قابو میں کیا۔جب سوال اٹھادہلی فسادات میں پولیس نے بھی پتھراؤ کیا تو اس جواب دیا گیا کہ پولیس اپنے بچاؤ میں میں پتھراؤ کررہی ہے۔جواب دہی میں گھیری ہوئی پولیس کو امیت کا پورا ساتھ ہے جیسے کمپل مشرہ کو پوری بی جے پی کا۔
یہ حکومتیں زیادہ تر اپنے کام اندھیروں میں انجام دیتی ہے۔ چائے وہ نوٹ بندی ہو،سی بی آئی سربراہ کا تبادلہ ہو، مہاراشٹرا سے صدرراج کا خاتمہ ہویا اجیت پوار کی حلف برداری ہو سارے کام رات کے اندھیرے میں کارگرد ہوتے ہیں۔ عدالتوں کا کوئی وقار نہیں عدالتوں کے دروازے بک چکے ہیں۔ تو انصاف کہاں ملے گا۔ انسان کی سب سے بڑی ذلت یہ ہے کہ وہ باطل کو طاقتور دیکھ کر اس کی غلامی کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ غلامی کی عادت ہوتی ہے توکرکوئی اپنی طاقت اوراوقات بھول جاتا ہے۔ اگر زہر کہی خریدنا ہوتو وہ دکانوں میں نہیں ملے گا۔ بلکہ بی جے پی کے سارے نیتاؤں کی زبان پر ملے گا۔
آج موجودہ دور میں جو سب سے اہم سبق ہمیں سیکھنا ہے وہ ہے انسانیت کا،بھائی چارہے کا جس طرح گاندھی جی نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو بائیکاٹ کیا ایسی طرح ہمیں بھی Jioکا بھی بائیکاٹ کرنا ہوگا۔ کیونکہ jioاس دورکی ایسٹ انڈیا کمپنی ہے اور مودی حکومت انگریزوں کی پالیسی۔