ضلع بیدر سے

سیکولرسٹیزنس فورم، بیدر نے کیا این پی آر کا مکمل بائیکاٹ کرنے کا اعلان

متحدہ طور پر کالے قوانین کے خلاف لڑنے کی عوام سے کی اپیل

این آرسی کو مسترد کرنے اور سی اے اے کو واپس لینے کا بھی کیامطالبہ، صدر جمہوریہ اور چیف منسٹر کرناٹک کے نا م پیش کیا میمورنڈم

بیدر: 12/مارچ (اے این یو) سیکولر سٹیزنس فورم کمیٹی ضلع بیدر کی جانب سے شہر بیدرکے امبیڈکر سرکل سے دفتر ڈپٹی کمشنر تک ڈانڈی مارچ نکالا گیا، جس میں خواتین بھی شامل تھیں، جس کی قیادت سیکولر سٹیزن فورم کے ذمہ داران کر رہے تھے۔ یہ مارچ، امبیڈکر سرکل سے دفتر ڈپٹی کمشنر تک پہنچا۔ جہاں پر ڈپٹی کمشنر کے توسط سے صدر جمہوریہ ہند اور چیف منسٹر کرناٹک کے نام ایک میمورنڈم پیش کیا گیا۔

اس موقع پر کار گزار صدر سری کانت سوامی نے ڈپٹی کمشنر آفس کے روبرو احتجاج میں شامل احتجاجیوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیکولر سٹیزنس فورم، ضلع بیدر این پی آر کے مکمل طور پر بائیکاٹ کا اعلان کرتا ہے۔ این آرسی کو رجیکٹ کرنے اور سی اے اے کو واپس لینے کا مطالبہ کرتا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 12/مارچ 1930 کو مہاتما گاندھی جی نے انگریزوں کے خلاف نمک ستیہ گرہ کے نام سے ڈانڈی مارچ کا آغاز کیا تھا۔ اسی کو بطور تمثیل ہم ان کالے قوانین کے خلاف اپنا احتجاج درج کرا رہے ہیں۔ سرکار کسی کی بھی ہو اُس وقت گاندھی جی نے انگریزوں کے خلاف، ان کے اتیہ چار اور ظلم کے خلاف ایک لڑائی لڑی تھی جبکہ آج ملک میں یہاں کی حکومت کے ذریعہ لائے گئے کالے قوانین اور ظلم کے خلاف لڑنے کی ضرورت اور نوبت آئی ہے اور جمہوریت کو ملک میں لاحق خطرے کے پیش نظر حکومت نے عوام کو بری طرح سے پریشان کر رکھاہے۔ جس کا ہم سب کو مل کرمقابلہ کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کالے قوانین کے ذریعہ ملک بھر میں ہونے والے اثرات بڑے ہی سنگین ہوں گے۔ اسی کے پیش نظر حکومت کا یہ اقدام ملک کی جمہوریت کے لیے بھی کسی خطرے کم نہیں ہے۔ ان قوانین سے ہمارے ملک کے دستور میں بلا تفریق مذہب ہر شہری کو دیئے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور دستورکے دیگر دفعات کی مخالفت میں یہ قوانین کا شمار ہوتا ہے۔ ملک کے حکمران تانا شاہی کا جو مزاج اور رویہ اپنائے ہوئے ہیں وہ بڑا خطرناک ہے۔ یہ ملک تاناشاہی سے نہیں،جمہوریت سے چلتا ہے۔ سری کانت سوامی نے اپنے خطاب میں یہ بات بھی بڑے واضح طور پر بتائی کہ سی اے اے این پی اور این آر سی کو صرف مسلم مخالف کہہ کر ملک کے دیگر افرادبچ نہیں سکتے، اس سے مسلمان سمیت ملک کے ہرشہری غریب،ہندو،دلت،عیسائی تمام کا مسئلہ ہے۔ اس پر تمام کی مخالفت ناگزیر ہے۔ تمام اس خطرے سے دوچار ہونے والے ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر مرکزی حکومت کے حکمرانوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اور ان کے جھوٹ نے ملک کی شان کو اور ان عہدوں کو ٹھیس پہنچائی ہے جس پر وہ آج براجمان ہیں ملک کے وزیراعظم اور وزیرداخلہ جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ اپنے متضاد بیانات کے ذریعے وہ ساری دنیا کے سامنے جھوٹ بولا جا رہا ہے۔

اس موقع پر سید منصور قادری نے بتایا کہ 12 دسمبر 2019 کو اس شہریت ترمیمی قانون بننے کے بعد سے آج تک مسلسل ملک کے ہر گوشے میں لاکھوں عوام سڑکوں پر اتر چکے ہیں، مرکزی حکومت کے اس اقدام کی ہر طبقے کی جانب سے مذمت کی جارہی ہے اور اس کے خلاف بڑے بڑے دھرنے اور احتجاجی مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان سب کے باوجود حکومت ان سنی کرتے ہوئے اپنی من مانی اور تاناشاہی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ جبکہ ہمارے ملک میں جمہوریت ہے، جس میں عوام کے جذبات و احساسات کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن یہاں کے حکمرانوں نے اس پر کوئی دھیان نہیں دے رہے ہیں۔ حکومت کوئی بھی ہو، ملک کے عوام کے مفاد میں اگر فیصلے ہوتے ہیں تو یہاں کی عوام اس کا احترام بھی کرتی ہے، لیکن جب عوام مخالف پالیسیز کے ذریعے حکومت تاناشاہی تھوپ رہی ہے تو اس کے لیے اس کے خلاف ایک جھوٹ ہوکر کر آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ ملک کسی ایک فرد کی من مانی کے لیے کسی کی جاگیر نہیں ہے وہ چاہے اس میں قوانین لاکر ملک کے جمہوری نظام کو نقصان پہنچائے، اس کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ میں سپریم کورٹ کا رویہ بھی تشویشناک ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب کوئی دو فریق کسی بات کو لے کر ایک دوسرے کے خلاف ہوتے ہیں تو ایسے حالات میں ہماری عدالتیں دونوں فریق کی بات سننے سے پہلے اس معاملے پر اسٹے لگایا کرتی ہیں۔ جبکہ سپریم کورٹ میں یہ معاملہ پہنچ چکا ہے، لیکن اس معاملہ پر فوری طور پر اسٹے لگاکر معاملے کی فوری سنوائی کے بجائے آئے دن تاریخ پر تاریخ بڑھائی جا رہی ہے۔ جس سے حکومت کو سپریم کورٹ کے ذریعے ٹائم مل رہا ہے۔انہوں نے اس موقع پر این پی آر کے متعلق جو سروے کرنے کے لئے حکومتی نمائندے گھر گھر آتے ہیں ان سے این پی آر کے متعلق کسی بھی سوال کا جواب نہ دیں، اور آپ کے گھر آئے اس سروے کے ذمہ دار کو بتائیں کہ اس کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے؟ اس کا برملااور واضح اظہار کریں۔

اس موقع پر خواتین کی جانب سے بھی احتجاج میں شامل مظاہرین کو مخاطب کیا گیا۔ امرت راؤچمکوڑے نائب صدر سیکولر سیٹزنس فورم کمیٹی نے میمورنڈم کو پڑھ کر سنایا۔ علاوہ ازیں ایک ماڈل کے طور پر گاندھی جی ایک چھوٹے سے معصوم کو گاندھی جی کے روپ میں اس ڈانڈی مارچ کی قیادت کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ گاندھی جی کے کپڑوں میں ملبوس یہ ننھا بچہ تمام احتجاجی مظاہرین اور دیگر افراد کے توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اسی معصوم کے ہاتھوں ڈپٹی کمشنر بیدر کے نمائندے کو صدر جمہوریہ ہند اور چیف منسٹر کرناٹک کے نام سے میمورنڈم پیش کیا گیا۔

ڈپٹی کمشنر کے توسط سے پیش کیے گئے میمورنڈم پر دسیوں افراد کے دستخط موجود ہیں، جن میں کار گزار صدر سری کانت سوامی، بابوراؤ ہنا صدر اور امرت راؤچمکوڑے، مبشر سندھے نائب صدور، منصور احمد قادری، مانک خانہ پورے، سیکریٹریز، محمداسدالدین، سید سرفراز ہاشمی، شیخ انصار، فیاض الدین، حامد قادری، شعیب الدین سریش سندھے، کور کمیٹی ممبرس کے علاوہ عبدالمنان سیٹھ، شاہ ضیاء الاسلام، ڈاکٹر مقصود چندہ، امجد علی، انجینئر سید ذاکر حسین، ایس آر قادری، محمد عطاء اللہ صدیقی، ونئے کمار سماجی کارکن، ڈاکٹر نجیب فہمی، مجتبیٰ خان، محمدآصف الدین، عرفان احمداور زبیر حسینی ودیگر کی دستخط شامل ہیں۔

میمورنڈم میں بتایا گیا ہے کہ مرکزی حکومت این پی آر، این آر سی اور سی اے ایکی مخالفت میں ملک کے کونے کونے میں لاکھوں لوگ تقریبا 3 ماہ سے احتجاج کررہے ہیں اوراسکے مخالف ہیں۔ پہلے ہی آسام میں این آر سی کی وجہ سے تقریبا 19 لاکھ افراد کو لسٹ سے باہر کیا گیاہے۔ اگر یہ قوانین ملک بھر میں نافذ کیے گئے تو اس کی زدمیں کروڑوں ہندو، مسلمان، دلت اور آدیواسی سب کے سب بے گھر ہوجائیں گے۔ این پی آر کی وجہ سے پسماندہ طبقات کی خواتین، دلت برادری، خانہ بدوش، آدیواسی، کچی آبادی، جھونپڑی مزدور، دیوداسی وغیرہ پر اسکا خطرناک اثر پڑے گا۔ لہذا اس پر روک لگائی جائے۔

اس موقع پر مسلم خواتین بھی موجود رہیں، شہر کے امبیڈکرسرکل اور دفتر ڈپٹی کمشنر کے روبرو منظم طور پر این پی آر کی مخالفت میں مختلف قسم کے نعروں کے ذریعے ان قوانین سے اظہار بیزاری اورعوام مخالف قوانین قرار دیتے ہوئیاسکی مخالفت میں آواز بلند کی گئی۔ اس موقع پراسلم?قادری، جناب محمد رفیق احمد گادگی سابق ناظم علاقہ جماعت اسلامی ہند گلبرگہ، محمد آصف الدین، محمد مجتبی خان، محمد صلاح الدین فرحان سیکریٹری ایس آئی او بیدر، سید جمیل احمد ہاشمی، مولوی ظفراللہ خان، محمد شعیب الدین، محمد شعیب، عامرعرفان و دیگر موجود تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!