حالاتِ حاضرہسماجیمضامین

اکرام مسلم: تبلیغی جماعت اور حالاتِ حاضرہ

مرزا انور بیگ

تبلیغی جماعت کے غیر تحریر دستور میں چھ 6 باتیں بیان کی جاتی ہیں جن میں سے ایک اکرام مسلم بھی ہے۔ دستور کی اس شق کی تصریح اس طرح ہے کہ بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت۔
اگر ہم اکرام مسلم کی بات قرآن وحدیث کی روشنی میں کریں تو مسلمان کی جان مال اور عزت کی حفاظت بھی فرض ہے۔ حجۃ الوداع کے خطبہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
قرآن کی متعدد آیات اس پر گواہ ہیں۔ سورۃ الحجرات میں صاف کہا گیا کہ کوئی مرد کسی مرد کی کھلی نہ اڑاۓ ہو سکتا ہے وہ اس سے بہتر ہو اور کوئی عورت کسی عورت کی کھلی نہ اڑاۓ ہو سکتا ہے وہ اس سے بہتر ہو۔
کوئی کسی کو برے نام سے نہ پکارے۔
بدگمانی نہ کرے۔ کسی کی راز کی باتیں جاننے کے لئے ٹوہ میں نہ رہے اور کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔
نکاح کے خطبہ میں پڑھی جانے والی آیات بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ رحم کے رشتوں کی حفاظت کی جائے۔

مسلمانوں کی شان قرآن میں یہ بیان ہوئی ہے کہ
رحماء بینھم کے اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔
حدیث میں فرمایا گیا کہ جو اپنے لئے پسند کرو وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرو۔ نیز فرمایا گیا کہ مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہے۔ اکرام مسلم کی اتنی ساری آیات اور احادیث کی موجودگی میں صرف بڑوں کی عزت ( جو شاید یہ مفہوم رکھتی ہو کہ جن کو عرف عام میں تبلیغی جماعت کے لوگ بڑے کہتے ہیں یعنی تبلیغی جماعت میں وقت لگا کر جو عالم بنے) اور چھوٹوں پر شفقت تک ہی محدود کردیا گیا۔ خیر اگر اس پر بھی عمل پیرا ہوجاتی تو غنیمت تھا مگر یہ شق صرف گفتار سے آگے کردار تک نہیں پہنچ سکی۔

آزادی کے بعد سے اب تک ہندوستان میں لاکھوں فساد ہوئے جو سارے کے سارے یک طرفہ ہی تھے۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ اس وقت تبلیغی جماعت کا ابتدائی زمانہ تھا۔ پھر ایک زمانہ آیا جب عالمی اجتماع ہونے لگا جو غالباً پہلی مرتبہ گودھرا گجرات میں ہوا تھا اس میں کئی لاکھ افراد نے شرکت کی۔ پھر تو یہ رواج چل نکلا کہ عالمی اجتماع ہو یا ملکی ہر ایک میں تعداد بڑھنے لگی اور ساری کامیابی اسی تعداد کو اب سمجھا جانے لگا۔ جس جماعت کے معمولی اجتماعات میں لاکھوں کی تعداد میں افراد شریک ہوتے ہوں اور ہر ایک کی زبان پر چھ 6 باتیں ازبر ہوں وہ اتنی بات بھی کسی سطح پر نہ کہہ سکے کہ اکرام مسلم میں مسلمانوں کی جان مال املاک سبھی شامل ہیں اور ان پر ہونے والے حملے بند ہونے چاہئیں۔؟

افسوس کا مقام تو یہ بھی ہے اور بہت زیادہ افسوس کا ہے کہ پورے ملک میں ہر انصاف پسند شہری کالے قانون کے خلاف میدان میں ہے اور تبلیغی جماعت کے امیر اور ذمہ داران اجتماع کر رہے ہیں اور ان میں ان حالات کا تذکرہ تک نہیں۔ ناک کے نیچے دہلی جل رہی تھی اور ٹونک راجستھان میں اجتماع چل رہا تھا اور دہلی کے مظلوموں کے لئے یک لفظی مذمت بھی نہیں کی گئی؟ کیا یہ صرف آسا رام ، رام رحیم کے پروچن اور بھکتوں کو اپنا درشن کرانے کی غرض سے منعقد ہوتے ہیں؟

لوگ اعتراض اٹھا سکتے ہیں کہ کیا ان احتجاج میں تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد نہیں شریک ہوتے ہیں؟ اعتراض تو ہوسکتا ہے مگر بیجا ہوگا۔ فرد اور جماعت میں فرق ہے۔

اگر اتنی بڑی جماعت کا امیر جس کے مرید ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں وہ لب کشائی کردے تو ہندوستان کیا دنیا کے دیگر ممالک بھی ہل سکتے ہیں اور اکرام مسلم کا راگ الاپنے کے بجائے اس پر امیر تبلیغی جماعت کو عملاً کرکے دکھانا چاہیے ورنہ بقول قرآن ان پر یہ بات صادق آتی ہے کہ “اے ایمان والو تم وہ بات کہتے کیوں ہو جس خود عمل نہیں کرتے۔”
آگے کی آیات میں ایسے لوگوں کے بارے میں یہی کہا گیا کہ ان کی مثال ایسی ہے جیسے گدھے پر کتابیں لاد دی گئی ہیں۔
اکرام مسلم پر ہم سب پھر سے غور کرلیں کہ یہ صرف آپ، جناب، سے اور بیٹے، پیارے، کہہ دینے کا نام نہیں ہے نہ کسی بوڑھے کو ہاتھ پکڑ کر سیڑھی چڑھانے اور بچے کو گود میں لے کر ٹافی کھلا دینے کا نام ہے۔ یہ مسلمانوں کے خلاف ہر محاذ پر ہونے والے ظلم و ناانصافی کے سامنے سینہ سپر ہونے کا نام ہے۔

نوٹ: آواز نیوز پورٹل میں شائع ہونے والے مضامین اور مراسلے، مضمون نگار/ مراسلہ نگار کی اپنی ذاتی رائے ہوتی ہے۔ ادارہ آواز نیوز کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!