آواز: عوام سےایڈیٹر کے نام

عدالتوں سے اُمید…

مرزا انور بیگ

مکرمی!

صبح سنوائی سے پہلے ہی رات گیارہ بجے ہائی کورٹ کے جج کا اگر تبادلہ کردیا جاتا ہے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عدالتیں کس قدر قید کر لی گئی ہیں پھر آپ کس امید پر انصاف مانگ رہے ہیں؟ جہاں حق پسندوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں رہ گئی ہے اس کی مثالیں ماضی میں بھی موجود ہیں جب جج لویا کا قتل صرف اس لئے کردیا گیا کہ وہ امت شاہ کے کیس میں فیصلہ سنانے والے تھے۔ اسی طرح انصاف کی اعلیٰ مقدس کرسی ان لوگوں کو عطا کی گئی جو ہر غلط کام میں حکومت کی غلامی کرتے رہے۔

کیا کسی غلام سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اپنے مالک و آقا کے خلاف فیصلہ سناۓ؟ بابری مسجد کے فیصلے نے اس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش باقی نہیں رکھی۔ شہری ترمیمی قانون کے خلاف جو مقدمات حکومت کے خلاف درج کیے گئے ہیں کیا آپ اب یہ امید لگا سکتے ہیں کہ آپ کے حق میں سپریم کورٹ فیصلہ سناۓ گا؟ اگر کوئی ایسا سوچتا ہے تو میں یہ سمجھتا ہوں وہ احمقوں کی جنت میں آرام فرما ہے۔

اب عدالتیں حکومتی معاملات میں صرف رکھیل کا فرض انجام دے رہی ہیں اس سے زیادہ نہ ان کی حیثیت رہ گئی ہے نہ وقار رہ گیا ہے۔ اس لئے اب ہمیں یہ امید تو ہرگز نہیں لگانا چاہیے کہ عدالتیں ہمارے لئے کچھ کرسکیں گی۔ اگر کوئی باضمیر جج انصاف کے لئے سعی بھی کرے گا تو رات کے اندھیرے میں اسے اپنا سامان باندھنے کا حکم دے دیا جائے گا۔

ویسے بھی یہ حکومت زیادہ تر کام رات کے اندھیرے میں ہی کرنے پر یقین رکھتی ہے چاہے وہ نوٹ بندی ہو، سی بی آئی سربراہ کا تبادلہ ہو، مہاراشٹر سے صدر راج کا خاتمہ ہو یا فڑنویس اور اجیت پوار کی حلف برداری ہو سارے راز و نیاز کے کار خیر رات کے اندھیرے میں ہی انجام پاۓ ہیں۔

بہرحال ہم اب عدالتوں کے وقار کے گن گانا بند کریں اور اس وظیفہ کو بھی بند کریں کہ ہمیں عدالت پر پورا بھروسہ ہے پورا بھروسہ ہے اس سحر سے باہر آئیں اور عدالتوں کو آزاد کرانے کی بھی ساتھ ساتھ کوشش کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!