جامعہ کی عزیمت، علی گڑھ کی ہمت کو سلام!
سلمیٰ نسرین
اُداسیوں کے گرداب میں ڈولتا ہوا دل، اُمید بہاراں، صبحِ نو کا ہے منتظر
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء پھر سے ظلم کے سامنے سینۂ سپر ہیں۔ آج علی گڑھ میں جو کچھ پولیس نے مظاہرہ کرنے والی خواتین کے ساتھ کیا یہ اپنی ذات میں خود تاریخ کا ایک کالا دن ہے۔ عورتوں پر کوئی لاٹھیاں چلاتا ہے کیا؟ علی گڑھ سے آنے والی تصاویر اور خبریں تشویشناک ہیں۔۔ٹئیر گیس کے گولوں کی برسات اور فایرنگ کی آوازیں۔۔انٹرنیٹ آف ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو لوگوں کو زیرِ حراست لیا گیا ہے۔ زخمی خواتین،لہولہان مظاہرین۔
جس شہر میں اے ایم یو ہو اور اس جگہ اس طرح کا ظلم ہو رہا ہو تو وہاں اے ایم یو کے غیرت مند و جانباز کیسے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ سکتے ہیں۔۔۔سارے طلباء و طالبات اس وقت صداۓ احتجاج بلند کرتے یونیورسٹی سے باہرنکل چکے ہیں۔۔۔سڑک پر جمع ہیں اور ان کے نعروں کی گونج سے علیگڑھ کی زمین پر لرزہ طاری ہے۔۔ گو کہ رات کا وقت ہے لیکن لڑکیاں بھی شانہ بشانہ اپنی آواز احتجاج درج کرانے کے لیے شامل ہیں۔
13دسمبر کے دن وہ نگاہوں کو خیرہ کر دینے والے مناظر کون بھول سکتا ہے جب یہ سرفروش مجاہد ہزاروں کی تعداد میں میں پولیس کے بیریکیڈس کو توڑتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ وہ مارچ بھی علی گڑھ کی تاریخ کا اہم حصہ بن چکاہے۔ ابھی بھی چنگی گیٹ والی جس سڑک کو بلاک کردیا ہے وہاں سٹوڈنٹس کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ جس قوم کو ایسے بہادر میسر ہو اس قوم پر کونسا خطرہ منڈلا سکتا ہے۔ کوئی طوفان ان کی مزاحمت کی تاب نہیں لا سکتا۔ کوئی بھنور انہیں انہیں اپنے گرداب میں نہیں پھنسا سکتا۔
نہیں معلوم ان نوجوانوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے کیونکہ چاروں طرف سے یوپی کی "بہادر”پولیس سے گھرے ہوئے ہیں۔۔۔ لیکن ان کی بے خوفی کا یہ عالم ہے کہ نہ باوردی پولس کے حصار کو خاطر میں لارہے ہیں نہ ہی ان کے مسلح فورسز کو۔۔ لگتا ہے کہ 15 دسمبر کے واقعے کے بعد سے یہ لوگ مزید مضبوط ہوگئے ہیں۔ سر سید کے جیالے کبھی ہمت نہیں ہارتے۔ یہ وہی طلباء ہیں جنہوں نے سوئی ہوئی امت کو جھنجھوڑ کر جگایا ہے۔۔۔
ان ہی کے ذریعے برپا کیے گئے انقلاب کی چنگاری پورے ملک میں سلگ رہی ہے۔ جب تاریکی اپنے عروج پر ہوتی ہے اسی گہرے اندھیرے کے بعد پو پھٹتی ہے۔ ۔۔۔صبح بہاراں عنقریب آنے کو ہے۔۔اور اس صبح بہاراں کو لانے میں علی گڑھ و جامعہ کا کردار ناقابل فراموش ہے۔