نظام پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو!
مرزا انور بیگ
شاہی نظام کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ طاقت کے بل پر قائم ہوتی ہے اور طاقت کے ذریعے ہی قائم رہتی ہے۔ جب تک اس کی طاقت قائم رہتی ہے اس وقت تک وہ خاندان حکمرانی کرتا ہے۔ اگر بادشاہ کی گرفت کمزور ہو جائے تو محلاتی سازشیں جنم لیتی ہیں اور کسی کو معزول کسی کو تخت نشین کا کھیل شروع ہوجاتا ہے۔
اگر ایسا نہ ہو تو خاندانی بادشاہت سینکڑوں سال تک بھی قائم رہتی ہے۔ عام طور پر ملک کا قانون بھی بادشاہ کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے۔ بادشاہ مطلق العنان ہوتا ہے جب تک وہ طاقتور فوجوں کا مالک ہوتا ہے اس وقت تک اس کی مرضی کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔ وہ پوری طرح سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے رعایا اس کی باجگذار ہوتی ہے۔ وہ رعایا کا خادم نہیں بلکہ مالک ہوتا ہے۔ ملک کی تمام دولت اور خزانہ بھی بلا شرکت غیرے بادشاہ کا ہوتا ہے۔ بادشاہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتا۔ بادشاہ کے اوپر کوئی عہدہ نہیں ہوتا۔ عدالتیں بھی بادشاہ کے زیر اثر ہوتی ہیں۔
اس کے برعکس جمہوری نظام میں کوئی بادشاہ نہیں ہوتا بلکہ عوام اپنے درمیان سے کسی کو چن کر ایوان حکومت تک بھیجتی ہے تاکہ وہ شخص ملک کا نظام ایک مقررہ وقت تک چلا کر ملک کی بھی اور عوام کی بھی خدمت کرے۔ عوام کے مفاد میں کام کرے۔ اس کام کے لئے وہ تنخواہ حاصل کرتا ہے۔ نہ وہ ملکی خزانے کا مالک ہوتا ہے نہ ملکی پیداوار کا۔ وہ صرف ایک منتظم کار کے طور پر منتخب ہوتا ہے ساری دولت اور خزانہ عوام کی امانت ہوتا ہے۔ وہ راۓ مشورہ کا پابند ہوتا ہے اور اسی کے ذریعے ہی قانون بنانے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ اس کی کوئی رائے ذاتی نہیں ہوسکتی اور وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔
لیکن یہ جمہوریت صرف ایک تماشا ہے خاص طور سے ہمارے وطن عزیز میں۔ کم از کم جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میں نے منتخب لیڈران کو خود سر ہی پایا ہے۔ انتخاب سے پہلے وہ جس طرح در در ناک رگڑ کر ووٹوں کی بھیک مانگتے تھے جیتنے کے بعد ان کے مزاج کسی شہنشاہ سے کم نہیں رہ جاتے۔ وہ جو خود کو قوم کی خدمت کے لئے وعدہ کرتے تھے کرسی پاتے ہی قوم سے غلاموں جیسا برتاؤ کرنے لگتے ہیں اور ان میں اور کسی بادشاہ میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ وہ بھی حکومت کے مال و دولت کو اپنا ذاتی مال سمجھتے ہیں اور جس طرح ان کا دل چاہتا ہے اسے استعمال کرتے ہیں۔ پوری حکومتی مشینری کو صرف اور صرف اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
ان کے نزدیک عوام کے مفاد سے زیادہ اپنی کرسی کا مفاد ہوتا ہے۔اس کے لئے چھل بل سبھی سے کام لیا جاتا ہے۔ انھیں صرف اتنا ہی خوف ہوتا ہے کہ پانچ سال بعد کہیں عوام انھیں رد نہ کردیں ورنہ پانچ سال تک تو وہ خود کو کبھی جوابدہ محسوس ہی نہیں کرتے جیسا کہ جمہوری تماشا کی شرط ہے۔ یہ مکمل تماشا صرف الیکشن کے دوران ہی لوگوں کو سمجھایا جاتا ہے ورنہ کرسی ملتے ہی سارے اصول پیروں تلے روند ڈالے جاتے ہیں اور پھر عوام کے ساتھ بادشاہ اور رعایا جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ طرز عمل اور مزاج کا بدلاؤ ممبر آف پارلیمنٹ، اسمبلی سے لے کر معمولی کاربوریٹر تک میں دیکھنے ملتا ہے۔ دراصل یہ بدلاؤ اس سوچ کا نتیجہ ہے کہ اب سیاست خدمت نہیں بلکہ کاروبار بن چکی ہے۔ اس میں جتنا سرمایہ کاری کی جاۓ اس سے لاتعداد گنا کمایا جاۓ۔ پھر اس سوچ نے مال و دولت کے لئے حرام حلال کی تمیز کو بھی ختم کر دیا الیکشن لڑنے کے لئے ہر طرح سے دولت حاصل کی جاتی ہے۔ اقتدار کے لئے سماج کے ناپسندیدہ عناصر کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ مختصر یہ کہ کسی بھی طریقے سے ایک بار کرسی حاصل ہوجائے۔
یہ سارا نتیجہ خدا سے بے خوفی کی وجہ سے ہے اور اسی بے خوفی نے چاہے وہ بادشاہ ہو یا عوامی نمائندہ سبھی کو خدائی دعویدار بنا رکھا ہے۔ اگر سیاست سے حقیقی دین داری کو الگ کر دیا جائے تو وہ اسی طرح کی چنگیزی بن جاتی ہے جس کا آج ہم نظارہ ہی نہیں جس سے ہم جوجھ رہے ہیں۔ اور جو ایسی حکومت کے مخالفین ہیں یعنی اپوزیشن ان کی مخالفت اس لئے نہیں ہے کہ وہ اس نظام کے خلاف ہیں بلکہ مخالفت اس لئے ہے کہ وہ حکومت میں حکمرانی پر فائز نہیں ہیں۔ حالانکہ ان کا رویہ موجودہ حکمرانوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں رہے گا جب وہ کرسی اقتدار پر قابض ہوں گے۔