حالاتِ حاضرہمضامین

وارث پٹھان کا غیر ذمہ دارانہ بیان

محمد خالد داروگر، سانتاکروز، ممبئی

پورے ملک میں سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کے خلاف مسلمان برادران وطن کو ساتھ لیکر پر امن احتجاج کررہے ہیں اور ملک کے مختلف علاقوں میں دہلی کے شاہین باغ کی طرز پر سیکڑوں باغ اس کالے قانون کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے وجود میں آئےہیں. ان باغوں کی قیادت مسلم خواتین کررہی ہیں اور جہاں پر ملک کی مشہور و معروف ممتاز مسلم اور برادران کی شخصیات خطاب کرکے مثبت انداز میں حکومت کے خلاف اپنا احتجاج درج کرا رہی ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ میں عدالتی مذاکرات کار سنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن بھی خواتین مظاہرین سے اتنے متاثر ہوئے کہ ان کی آنکھیں بھر آئیں اور شاہین باغ میں جو کوئی بھی آتا ہے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا ہے اور وہ اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا ہے کہ اس نے شاہین باغ میں خطاب کیا اور اب حال تو یہ ہے کہ ملک شاہین باغوں کے چرچے ملک و بیرون ملک ہر خاص و عام کی زبان پر موضوع بحث بنے ہوئے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کو بدنام کرنے کے باوجود یہ پر امن احتجاج کے مینار بنے ہوئے ہیں۔

دوسری طرف ہمارے اپنے ایسے نادان دوست جو اپنی سیاسی روٹی سیکھنے کی کوشش میں ایسے متنازع بیانات دیکر شہریت ترمیمی قانون، این پی آر اور این آر سی خلاف جاری پر امن احتجاج کو سبوتاژ کرنے اور اسے ہندو بنام مسلم رنگ دینے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کے لیے وہ حکومت کا کام آسان کر رہے ہیں اور حکومت بھی یہ چاہتی ہے کہ شہریت ترمیمی قانون ہندو مسلم رنگ اختیار کرلے تو اس کا کام آسان ہو جائے گا۔

مجلس اتحاد السملمین (ایم ائی ایم) کے مدن پورہ سے سابق رکن اسمبلی ایڈووکیٹ وارث پھٹان نے کرناٹک کے شہر گلبرگہ میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف منعقدہ ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے مبینہ طور پر کہا کہ”بھلے ہی مسلمان 15/کروڑ ہیں لیکن وہ 100/کروڑ پر بھاری ہیں۔”اور یہ کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا، ابھی تو شیرنیاں میدان میں اتری ہیں اور جب پوری قوم نکلے گی تو کیا ہوگا۔” اور یہ بھی کہا تھا کہ”ہم آزادی مانگ کر نہیں چھین کر لیں گے۔”سوشل میڈیا میں ہندوتوا وادیوں کے گروپس میں وارث پھٹان کا یہ متنازع بیان ویڈیو کلپس کی صورت میں بڑے پیمانے پر وائرل ہورہا ہے اور کچھ سوشل ایکٹیویٹیس وارث پھٹان کی مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کی تصویریں سوشل میڈیا پر شیئر کررہے ہیں جس کی وجہ سے یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ وہ بی جے پی کے اشارے پر یہ کام انجام دے رہے ہیں اور ماضی میں یہ الزام ایم آئی ایم پر لگتا رہا ہے کہ وہ بی جے پی کا کام آسان کرتی رہی ہے۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ ایم ائی ایم کے قائد اسد الدین اویسی نے وارث پھٹان کے مبینہ غیر ذمہ دارانہ بیان کا ابھی تک کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔ ایڈووکیٹ وارث پھٹان مہاراشٹر کی سابقہ اسمبلی میں ممبئی کی مدن پورہ اسمبلی حلقہ سے ایم آئی ایم کے ٹکٹ پر ایم ایل اے چنے گئے تھے اور اسمبلی میں ان کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں رہی تھی۔ پانچ سالوں میں اپنے علاقے میں ان کا کوئی نمایاں کام ابھر کر سامنے نہیں آیا اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنی سیٹ بھی نہیں بچا سکے تھے اور شیو سینا کے امیدوار کے سامنے بری طرح ہار گئے تھے۔ صرف بول بچن سے بہت زیادہ دنوں تک خاص کر ممبئی کے عوام کو بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ مختلف چینلوں کے ڈیبیٹ کے پروگراموں میں ان کا لہجہ بہت ہی جارحانہ ہوتا ہے جو جذباتی قسم کے مسلمانوں کو بہت زیادہ پسند آتا ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو اس کے نقصانات غیر معمولی ہوتے ہیں جس کا ہمیں اندازہ نہیں ہے۔

مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات کے دوران ہماری کئی لوگوں سے جن میں مسلمان اور برادران وطن دونوں شامل ہیں ملاقات رہی ہے ایسا ہی ایک موقعے پر الیکشن کے موضوع پر ایک برادران وطن سے بات ہورہی تھی تو اس نے ہمیں بتایا کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے لوگ محلہ اور سوسائٹی کی سطح پر چھوٹے چھوٹے پروگرام لیتے ہیں اور وہاں پر عمدہ کھانے کا بھی انتظام کیا جاتا ہے اور اس پروگرام میں مسلمانوں کے ایسے لیڈران کے تقریروں کے شورٹ ویڈیو کلپس دیکھائے جاتے جو اکثر ہندؤں کے خلاف اناپ شناپ اور اول پھول بکتے رہتے ہیں اور اس نے خاص طور اکبر الدین اویسی کا نام لیا اور برملا کہا کہ اس طرح کے ویڈیو کلپس دیکھا کر ہندؤں کو ڈرایا جاتا ہے۔

دراصل ہم مسلمانوں نے ہندوستان میں اپنی اصل حیثیت کو پہچانا ہی نہیں ہے۔ ہماری حیثیت یہاں پر داعی کی ہے اور برادران وطن کی حیثیت مدعو قوم کی ہے اور ہمیں ان کے درمیان فریضہ دعوت دین کا کام انجام دینا ہے۔ اکبر الدین اویسی، وارث پھٹان اور اس قبیل کے دوسرے لوگ فریضہ دعوت دین کے کام میں بڑی رکاوٹ بنتے ہیں کیونکہ برادران وطن سے ملاقات کے دوران وہ انہی کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بھی تو مسلمان ہی ہیں۔ مسلمانوں نے اس ملک میں کم و بیش آٹھ سو سال تک حکومت کی لیکن اس عرصے میں دعوت دین کا کام بلکل نہیں کے برابر ہوا۔ مسلم حکمرانوں کا سارا زور زمین کی توسیع پر ہی مرکوز رہا اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آر ایس ایس نے آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد آج ہندؤں کی اکثریت میں ہمارے خلاف زہر بھرنے میں کامیاب ہوگئی ہے اور اس نے میں ہمارے اپنے وجود پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور ہمیں اپنے وجود کے لئے لڑائی لڑنا پڑ رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!