جس نے اپنے رب سے رشتہ مضبوط کر لیا۔۔۔۔
✍️ وزیر احمد مصباحی، بانکا
ابھی سفر میں ہوں۔سامنے کی سیٹ پر نوجوان اور پچوں کے ما بین ایک دو معمعر لوگ بھی وراجمان ہیں ۔۔۔۔۔ٹرین کی پٹری پر کبھی تیز بھاگتی ریل گاڑی کی گرجدار آوازیں پردہ سماعت سے ٹکراتی ہیں تو کبھی تیز ہارن ۔۔۔۔کبھی مختلف اشیاے خورد و نوش فروخت کرنے والوں کی لڑکھڑاتی،ڈگمگاتی اور چیختی چلاتی آواز سے سامنا ہو رہا ہے تو کبھی ۔۔۔۔۔۔۔۔سفر کی معیت میں دوڑتے و لہلہاتے کھیت کھلیانوں کے پرکشش مناظر آنکھوں میں سرور بھرنے کے ساتھ قلب و جاں کو بھی شاداں و فرحاں کیے جا رہے ہیں۔۔۔۔گاہے بگاہے کھڑکی سے داخل ہونے والے ہوا کے تیز جھونکے اپنی کھنکی کا بھی احساس تازہ کر جاتے ہیں۔۔۔۔۔جی ہاں ! ان سب کے بیچ دن بھر کا تھکا ماندہ مسافر بھی منزل کی طرف لوٹ رہا ہے۔۔۔
کچھ ہم سفر تو فرصت کی اس گھڑی میں اپنے موبائل فون سے اس طرح چمٹے ہیں کہ جیسے فکر و غم نے تو ان کے یہاں دماغ کی پونجی پرکبھی ڈاکہ ہی نہیں ڈالا۔۔۔سچ میں۔۔۔اب تو کچھ سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے سر ۔۔۔۔اپنے دماغ میں جمع وائیرس سے دوسروں کے ناک پر دم کیے ہوئے ہیں۔۔۔۔کوئی مودی ۔۔۔کوئی یوگی ۔۔۔۔تو کوئی امت شاہ اور مودی پر حمایت و مخالفت کی مشترکہ وار کر رہے ہیں۔۔۔جی ۔۔۔ہاں ۔۔۔ابھی تو ۔۔۔اور بھی عجیب و غریب باتوں کا اسی بوگی میں ایک مایا جال سا پھیلا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پر ان ساری چیزوں کی جھرمٹ میں ایک ایسا معمر بھی ہے جو اپنی بیساکھی کے سہارے ریل گاڑی پر بیٹھا ہے ۔۔۔۔۔
خدا جانے منزل مقصود کہاں ہے اس کی؟۔۔۔۔سفید دھوتی ۔۔۔اور پھٹے پرانے کرتہ میں جیسے یوں لگ رہا ہےکہ یہ کوئی سات آٹھ کی دہائی لانگھ چکا ہے۔۔۔۔اس میں تو اس غریب مسافر کے مسلسل ہاتھ پیر کے کاپنے نے محکم یقین پیدا کر دیا ۔۔۔۔جی ۔۔۔۔منہ سے دانت کی خوبصورت لڑی کی عدم موجودگی کا درست اندازہ اس وقت ہوا جب نص نص کے ابھار سے پر ہاتھ کے ذریعہ اس نے ایک سفید بوتل کے سہارے اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کی ہے۔۔۔
ایک گھونٹ حلق سے اتارنے میں اس شیخ فانی کو تقریباًً تین چار منٹ کا وقت لگا ۔۔۔۔مسلسل ہاتھ کی کپکپی و لاغری شاید منہ تک بوٹل پہنچنے میں روڑے ڈالنے کا کام کر رہی ہے۔۔۔۔۔بالکل خاموش بیٹھا یہ ضعیف شخص بس ہر آنے جانے والے مسافروں کو نہارتا اور ۔۔۔۔۔کسی کے طرف سے ہونے والے چھوٹے سے غیر اخلاقی عمل پر ہلکی و خفیف سی مسکان بھر دیتا ہے۔۔۔۔۔بیساکھی اپنے بازو میں اس طرح چمٹے ہوئے ہے کہ جیسے کوئی عاشق برسوں بعد اپنے معشوقہ سے ملنے پر باہنوں تلے دبوچ لیتا ہے کہ۔۔۔۔۔اب تجکھو دنیا کی ۔۔۔۔ہاں !دنیا کی کوئی طاقت الگ نہیں کر سکتی۔۔۔۔۔۔۔یقینا ان سارے تصورات ،خیالات اور حالات سے ابھی میں محو گفتگو ہی تھا کہ ۔۔۔آنکھ بند ڈبہ غائب کی طرح۔۔۔۔یہ معمر مسافر کہیں ۔۔۔۔۔۔اپنی بیساکھی کے سہارے اتر سا گیا۔۔
جی ہاں!!!اب تک وہ جا چکا ہے۔۔۔۔۔اب تک بوگی بھی تقریباً تقریباً کھالی ہو چکی ہے۔۔۔پر اس نے اپنے پیچھے۔۔۔۔جاتے جاتے ۔۔۔۔یہ درس اور کپکپاتے ہاتھوں،زبانوں اور پیروں سہارے یہ پیغام بھی دے گیا ہے کہ ۔۔۔اے غافل انسان!!!! کر جوانی میں عبادت۔۔۔۔کیوں کہ بڑھاپے میں بات ہی کہاں بنتی ہے۔۔۔؟؟؟۔۔۔۔اپنے پروردگار حقیقی کو شب دیجور میں یاد کر۔۔۔سنسان ویرانے میں جب تمہیں تنہائیوں کی یاد ستائیں تو ۔۔۔رب کی رحمت سے امید باندھ!!! ہاتھ کی کپکپی اور پیر کی لڑکھڑاہٹ ضرور تمہاری عبادت میں خشوع و خضوع پر حملہ کرے گی۔۔۔۔
گرمیوں کی تپش اور موسم سرما کی کڑک ٹھنڈک رگوں میں دوڑتے لہو کو جمانے کی کوشش کرے گی ۔۔۔۔جو کرنا ہے ابھی کر لے۔۔۔پیارے!!! تندرستی ہزار نعمت ہے۔۔۔۔میری عمر تک رسائی پانے سے قبل قبل ۔۔۔۔۔اس اللہ کریم کی بھرپور بڑائی بیان کر۔۔۔۔جو خالق ارض و سماں ہے۔۔۔یہ دنیا کی سرسبز و شادابیاں۔۔۔اسی رب کریم کی کرم فرمائیاں ہیں ۔۔۔۔۔جو اپنے بندوں کے شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔۔۔۔دل و عقل پہ لگام کسنے کی کوشش کرو ! دنیاں کی رنگینیوں میں گم ہو جانا کوئی دانش مندی نہیں ہے۔۔۔۔روشن عقل اور فلاح و ظفر سے سرخرو ہونے والا تو وہی ہے جس نے اپنی زندگی کے ہر نشیب و فراز میں ۔۔۔۔۔اپنے رب سے رشتہ مضبوط کر لیا۔۔۔۔۔