رسول اللہﷺ کی عظمت
ابوفہد
رسول اللہﷺ کی عظمت اور عبقریت سب سے بڑھ کر اس بات سےثابت ہوتی ہے کہ آپﷺ نے دین ودنیا کو جمع کیا۔ آپ ﷺ نے اللہ کی عبادت کی اور اس طرح انہماک،دلجمعی اور تسلسل کے ساتھ کی کہ اتنے انہماک اور تسلسل و دلجمعی کے ساتھ کوئی دوسرا نہیں کرسکتاتھا ۔نہ کل کرسکتا تھا اور نہ آج یاآئندہ کل کرسکتا ہے۔
آپﷺ نے تجارت کی اور کامیاب تجارت کی۔ آپ ﷺ نے جنگیں لڑیںاور کامیاب حکمت عملی کے ساتھ لڑیں ، آپﷺ نے گھرگرہستی سنبھالی اور کامیاب طریقےپر سنبھالی۔ بیویوں کے حقوق بھی پوری طرح ادا کئے اور بچوں کے حقوق بھی پوری طرح ادا فرمائے۔چھوٹے سے چھوٹا جو کام ہوسکتاہے وہ بھی کیااور بڑے سے بڑا جوکام ہوسکتا ہے وہ بھی انجام دیا۔آپﷺ پر راحت وآرام کا وقت بھی گزرا اورآپﷺ سخت سے سخت ترین وقت سے بھی گزرے۔مگر نہ کبھی آپﷺ کے پائے ثبات میں لغزش آئی اور نہ کبھی آپ ﷺوقتِ راحت پاکر خودآرا وخودبیں ہوئے۔گھر کے آنگن سے لے کر میدان جنگ تک آپﷺ خوشی وغم ہر دوطرح کے حالات سے گزرے۔ آپ ﷺ کو شکست بھی ہوئی اور فتح بھی نصیب ہوئی مگر ہر دو طرح کے حالات میں آپ ﷺ کے اندر جس چیز کا اضافہ ہوا وہ رجوع الی اللہ تھا اور عبدیت وشکرگزاری کی کیفیت تھی۔
آپﷺ نے محال سمجھی جانے والے اعمال کو جمع کیا۔آپ ﷺ نے بنفس نفیس جنگوں کی قیادت کی ، یہاں تک کہ ماہ رمضان میں بھی جنگیں لڑیں اور جیتیں اور پھر اور اللہ کے لیے راتوں کے اکثر حصے جاگ کربھی گزارے۔حالانکہ رسول اللہ ﷺ پرصرف چھے نمازیں فرض تھیں، پانچ فرض نمازوں کے علاوہ آپﷺ پر تہجد بھی فرض تھی، مگرآپﷺ نے فرائض کے علاوہ اور بھی کئی نمازوں کی پابندی کی، جیسے اشراق کی نماز اور خاص مواقع سے پڑھے جانے والے نوافل،جیسے تحیۃ الوضو اور تحیۃ المسجدوغیرہ کی بھی حتی المقدور پابندی فرمائی۔ پھر اعتکاف اس سب کے علاوہ ہے جس کی آپ ﷺنےتاحیات پابندی فرمائی۔آپﷺ نے اپنی ۶۳ سالہ زندگی کو اس طرح مرتب ، مربوط اور سرگرمی کے ساتھ گزاراکہ اس سے بڑھ کر زندگی کو مرتب کرنا ممکن نہیں، ۶۳ سالہ زندگی میں ،مختصر سےمختصر وقت بھی ایسا نہیں بتایا جاسکتا، جس کے بارے میں کہا جائے کہ وہ عبث گیا۔
آپﷺ کی کیفیتِ عبادت کی برابری تو دنیا کا کوئی بھی مسلمان بڑے سے بڑازاہد اور عبادت گزار بھی نہیں کرسکتا ، تاہم آپﷺ کی عبادت کی کمیت کی برابری کرنے والے بھی تھک ہار کر بیٹھ جاتے تھے اورآج کی دنیا میں توایسے اہل ایمان عنقاء ہیں۔بیشک اصحاب رسولﷺ اور پھر ان کے بعد تابعین اور تبع تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بہت سارے لوگ تھے جنہوں نے کمیت ِعبادت کے معاملے میں رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم چومنے کی مبارک کوشش کی اور کامرانی ان کا مقدر ہوئی۔
مگر آج کی حالت بہت دگر گوں ہے، آج تو پانچ وقت کی نمازکی پابندی کرنے والوں کو بھی بہت زیادہ مذہبی سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ انہیں دنیاداری سے کیا مطلب۔آج ضرورت اسی بات کی ہے کہ رسول اللہﷺ کے ان مبارک نقوش پرچلا جائے جو دین ودنیا کے جامع ہیں۔