مضبوط قیادت سے جوجھتی مِلّت کا حال
محمد قاسم ٹانڈؔوی، رامپور یوپی
کوئی زیادہ عرصے پرانی بات نہیں ہے بلکہ ماضی قریب سے اسے تعبیر کر دیاجائے تو بہت حد تک اصل مقصد تک رسائ ممکن ہو جاتی ہے۔ چونکہ ہم نے اپنی اِنھیں آنکھوں سے دیکھا ہے جن سے ہم آج دیکھ رہے ہیں بلکہ مسلسل مشاہدہ بھی کر رہے ہیں کہ جیسے جیسے حکومت کے خِلاف ہونے والے احتجاج و مظاہرہ کی قِندیلیں دن بدن ملک گیر اور اعلیٰ پیمانے پر بلند تر ہوتی جا رہی ہیں، اور احتجاج و مظاہرہ کی ان رواں دواں لہروں نے پورے ملک میں صدائے حق و انصاف کی فضا قائم کرکے عوام و خواص کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی ہے ویسے ویسے رہبران کی طرف سے عام لوگوں کے ذہن میں پنپنے والے شکوک و شبہات پختہ اور موجودہ حالات میں عدمِ قیادت کا مسئلہ یقینی ہوتا جا رہا ہے۔ ملک میں اس وقت جو موجودہ حالات ہیں ایسے میں قائِدین اور رہبرانِ ملک و ملت کو قدم قدم پر عوام کا ساتھ دینے کےلئے میدانِ عمل میں آ کر کھل کر تحریک کی باگ ڈور سنبھالنی چاہئے تھی اور اب بھی میدان میں آنا چاہئے تاکہ قیادت کی طرف سے مظاہرین کی طبیعت ہمیشہ کےلئے دِلبرداشتہ ہونے سے محفوظ رہے۔
یہ سچ ہے کہ عوام نے قیادت کا انتظار کیا اور کوئ بھی مورچہ سنبھال نے سے پہلے عوام اسی امید میں رہے کہ شاید کسی دینی ملی تنظیم، جماعت اور اِدارے سے حکومت کے خِلاف کوئ آواز بلند ہو اور وہ ان کی آواز میں آواز ملانے اور کاندھے سے کاندھا ملانے کےلئے سرگرمِ عمل ہوں، لیکن اس اہم اور نازک موقع پر جبکہ مستقبل ہر ایک کو تاریک اور اپنا وجود ہر ایک کو پُرخطَر نظر آ رہا ہے، جس کے وبال و عِتاب سے کوئ ادارہ کوئ تنظیم کوئ جماعت یا اقلیتی طبقات سے منسلک فرد محفوظ نہیں ہے ایسے پُرخطَر حالات میں عوام کو ان کی طرف سے سوائے خاموشی اور مایوسی کے کچھ ہاتھ نہ آیا، بِالآخِر اِنتظار دیکھ دیکھ جامعہ ملیہ اے ایم یو اور دیگر تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم اسٹوڈنٹس ہمت کرتے ہیں اور بِلا اِمتیازِ مذہب و ملت اور بِلا تفریقِ مسلک و منہج حکومت کے پیش کردہ سِیاہ بِلوں کے خِلاف اپنی اپنی تعلیم گاہوں سے نکل کر سڑکوں پر آتے ہیں، جو تاحال ڈٹے ہوئے ہیں۔
اِنتہائی افسوس اور دِلی کرب کے ساتھ حوالۂ قِرطاس و قلم کرنا پڑ رہا ہے کہ ایسا شاید آزاد ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہوتا نظر آ رہا ہے، جب قیادت و سیادت اور رہنمائی کا دَم بھرنے والوں کا سُکوت و جُمود برقرار رہا ہو اور ان کی شمولیت کے اِنتظار اِنتظار ہی میں عوام کا جمِّ غفیر روڈوں، سڑکوں اور میدانوں میں نکل کر بیک آواز دیوارِ چین کی طرح حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے موقف پر اَٹل و ثابِت ہیں اور ان سب کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ “حکومت متنازعہ بِلوں کی واپسی کو یقینی بنائے”۔ اور حقوق و دستور کی اس لڑائی میں جس طرح بڑی تعداد میں خواتین نے شمولیت درج کرائی ہے وہ بھی بےمثال و بےنظیر ہے۔
ملک کے طول و عرض میں واقع نہ جانے کتنے باغات اور میدانوں کو صرف اسی ایک مدعیٰ کے پیش آ جانے سے شِناخت حاصل ہوئ ہے جہاں دخترانِ مِلّت اور قوم کی نِڈر مائیں بہنیں اپنے شِیر خوار بچوں کو اپنی چھاتی سے لگائے تمام طرح کے آلام و مصائب برداشت کر رہی ہیں اور حکومت کو اپنے قدم واپس لینے والی لڑائی لڑ رہی ہیں، بلکہ اگر حصولِ آزادی میں کسی نے ‘رانی لکھچمی بائی’ کو اپنے معصوم بچہ کو کمر سے باندھے حقیقت میں نہ دیکھا ہو تو وہ آج کے احتجاجی مراکز جا کر اس بات کا مشاہدہ کر سکتا ہے کہ:”ملک کی نِڈر اور بےخوف شاہینوں نے کیسے اپنے لعل و جگر کو سینوں سے چمٹا کر میدانوں کو سرگرم کر رکھا ہے”؟ سلام ہے ایسے بلند جذبات اور اعلیٰ خیالات سے سرشار ان تمام ماؤں بہنوں کو جو حق و انصاف کی اس لڑائی میں مردوں کے سہیم و شریک ہوئیں اور سادہ لوح عوام کو اس وہم و خیال سے مُستقلًا آزادی دِلا دی کہ اپنے جائِز مطالبات کو منوانے اور آئین و دستور کے تحفظ کیلئے “قیادت و سیادت کے بغیر نہ صرف میدان میں اترا جا سکتا ہے بلکہ حکمراں جماعت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کی راتوں کی نیند حرام اور ان کے دِن کا آرام و سکون غارت کرنے کے بعد قول و فعل سے پَسپا، اقتدار کی منزِل سے دور اور ان کو ناپاک عزائِم و اَہداف سے رجوع کرایا جا سکتا ہے؟
دیکھ لیجئے ! مظاہرین کی طرف سے کی جانے والی مسلسل محنت اور مستقِل مِزاجی کس طرح آہستہ آہستہ رنگ لا رہی ہے، ایک وقت تھا جب ہمارے یہی حکمراں طاقت و اقتدار کے نشہ میں مغرور و مدہوش تھے، خاص کر وزیرداخلہ جس خُدائی لہجہ میں بول رہے تھے کہ “جسے احتجاج و مظاہرہ کرنا ہے کرے، ہم ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں” اس خُدائی لہجے اور تغلقی گفتگو سے اندازہ ہوتا تھا کہ انہیں نہ تو احتجاج و مظاہرہ میں شریک لوگوں کے جائِز مُطالبات سے کوئ لینا دینا ہے اور نہ ہی اسے ملک گِیر پیمانے پر ہونے والی ہڑتالوں اور بار بار بند کی اپیلوں کے عِوض ہونے والے نقصانات یا سرکاری خزانہ پر اثر انداز ہونے والی معاشی کمزوری کی کوئ فکر ہے؟اسے تو بس اگر فِکر ہے تو اس بات کی کہ جو ایجینڈا اسے بھگوا تنظیم ‘آر ایس ایس” کے آقاؤں کی طرف سے لاگو کرنے کا ملا ہے اسے لاگو کر دینا ہے چاہے جس حال میں بھی ہو؟ مگر ان کا یہ نامناسب و نامعقول روِیّہ ناکام ہوتا نظر آ رہا ہے۔
اس لئے کہ ہمارا یہ ملک ہندوستان صدیوں سے باہمی رواداری اور اُخوّت و محبت کا گہوارہ رہا ہے، یہاں پر آزادی سے پہلے بھی ہر طبقے برادری سے تعلق رکھنے والے افراد باوجودیکہ الگ علاقوں، علیحدہ برادریوں اور مختلف مسلک و منہج سے وابستہ لوگ ہوتے تھے مگر پھر بھی ایک دوسرے کے رنج و غم اور مشکلات میں شامل ہو کر ایک دوسرے کے معاوِن و مددگار ہوا کرتے تھے اور یہ خوبی آزادی کے بعد بھی بہت دنوں تک لوگوں کے ذہنوں میں جگہ بنائے رہی، مگر بھلا ہو ان اہلِ سِیاست کا جنہوں نے اپنی سیاست کی دوکان کو چمکانے اور موقع محل سے فائدہ اٹھا کر اپنی سِیاسی روٹیاں سینکنے کی خاطر ہندو مسلمان کو آپس میں لڑانے یا ایک برادری کو دوسری برادری یا ایک طبقے کی دوسرے طبقے پر فوقیت جتانے میں کہیں تو مذہبی زہر اور کہیں مسلکی اور نظریاتی زہر اُگل کر ایک دوسرے کو دشمن بنا دیا اور ملک کو ایسے مقام پر پہنچا کر دَم لیا جہاں سے آج واپسی بھی مشکل و معدوم نظر آ رہی ہے۔
یہ سب نتیجہ ہے مِلّی قیادت کے مفقود و گمنام ہو جانے کا، ورنہ جب تک ہماری مِلّی قیادت فرائض و منصبی کی ادائیگی میں ہوش مند و باخبر رہی، اور وہ پیش آمدہ ملکی حالات کے وقت اپنے طور پر متحرِّک و فعّال اور سرگرم کِردار نبھاتی رہی، ایوانِ پارلیمینٹ سے لےکر مساجد کے ممبر و محراب اور محلے کے گلی بازاروں میں حکومت کے خِلاف آوازیں اٹھاتی رہی، برابر ہمارے مسائِل حل ہوتے رہے اور ہماری آوازیں بغور سنی جاتی رہیں۔ حکمراں، وزراء اور عدالتوں میں بیٹھے انصاف پسند اور جمہوری اقدار و روایات کے امین و پاسدار تمام پیش آمدہ معاملات میں باہمی رواداری، یکسانیت اور غیر جانِبداری کی روِش اختیار کئے اقلیت و اکثریت کے مابین پُل کا کام کرتے رہے۔
اس کی اہم ترین وجہ یہ تھی کہ “اس وقت حقیقی قیادت ایک طرف تو بےلوث و بےخوف اور ذاتی اغراض و مقاصد سے یکسر خالی ہوکر قلم کا جادو بکھیر رہی تھی اور عوام کے نزدیک معتبر و مقبول اخبار و جرائد میں اپنی بےباکانہ تحریریں قلمبند کرکے حکومت کی موشِگافِیوں اور ان کے چھپے مقاصِد کو طشت از بام کرنے میں مہارتِ تامہ اور یدِ طولیٰ رکھتی تھی، تو دوسری جانب ملک کے ایوان و پارلیمنٹ سے لےکر محلے کی مساجد اور دینی مدارس و مکاتب تک فکرانگیز مواد اور جوشیلی تقاریر سے امت کے اندر در آنے والے جمود اور وھن (کمزوری) کو کافور کرنے کی مناسب تدبیریں اور راہیں تلاشی جاتی تھیں۔
یہ مساجد و مدارس اور ان کے بوریہ نشیں خُدّام تعلیماتِ دینِ کے فروغ میں اہم کردار ادا کرنے والے اور خدمتِ خلق کے واسطے بہترین مراکز ہوا کرتے تھے، یہاں سے ہمیشہ ایسے روشن چہرے اور باکمال حضرات نمودار ہوتے جو مستقبِل میں پیش آنے والے دِقت طلب مسائِل اور پریشان کُن حالات میں امت کی پریشانی کو دور کرنے میں خداداد اِستعداد کا بھرپور استعمال کیا کرتے تھے، لیکن جب سے قیادت و سیادت کو دین سے جدا اور علماء کرام و ائِمّہ مساجد کے داخلہ کو سرگرم سیاست میں حصہ لینے کو معیوب تصور کیا گیا ہے، تبھی سے قوم اجتماعی طور پر کامیاب قیادت و سیادت اور کسی بہتر راہنما کی موجودگی سے جوجھ رہی ہے اور اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ حکومت کے پیش کردہ متنازعہ بِلوں کی واپسی اور ان کی مخالفت میں بلند کی جانے والی جگہ جگہ آوازوں کو تقریباً دو ماہ کا طویل عرصہ ہو گیا، اس سے پہلے کشمیر جہاں کے لوگ چھ ماہ تک ایک طرح سے نظر بندی اور حراست کی زندگی گزار رہے تھے، طلاقِ ثلاثہ پر قانون سازی اور بابری مسجد ملکیت پر ہونے والے غیر منصفانہ عمل اور ان پر ہماری طرف سے مکمل طور پر خاموشی اختیار کرنا اسی عدمِ شمولیت کا واضح ثبوت ہے۔
وقت رہتے اگر اب بھی احتجاج و مظاہرہ کی باگ ڈور علماء کرام اور اثر و رسوخ کے حامِل اشخاص نے نہ سنبھالی اور دو ماہ سے میدانوں میں ڈٹی خواتین کی ہموار کردہ زمین کو آگے بڑھ کر نہ تھاما تو وہ دن دور نہیں جب ہمیں اپنے مذہبی تشخُّصات کی بقا اور قومی ملکی سلامتی حاصل کرنے کیلئے در در کی ٹھوکریں کھانے اور تیرے میرے سرد و گرم طعنے سننے کی نوبت سے دوچار نہ ہونا پڑےگا، ملکی حالات اور سرکردہ لیڈران کے الفاظ و بیان سے بہت کچھ عیاں ہو رہا جن کے منظر پس منظر اور سابِق و لاحِق کی فضول بحثوں میں الجھے بغیر فوری طور پر مناسب اِقدام کرنے اور ملت فروش مردہ ضمیر لوگوں کی لایعنی باتوں سے اعراض کرتے ہوئے مؤثِّر لائِحہ عمل مرتَّب کرنے کی ضرورت ہے، اسی میں قوم و ملک کی بقا ہے اور اسی میں ہمارا مذہبی سرمایہ اور مِلی اداروں اور جماعتوں کا تشخص محفوظ و مامون ہوگا۔