سوال اُٹھانا واجب ہے، جب۔۔۔
تحریر: تابش سحر
قیادت کے منصب پر صلاحیت مند اور تجربہ کار افراد جلوہ افروز ہوں تو ان کی مثبت کارکردگی قوم و ملّت کو سربلندی عطا کرتی ہے، ترقی کے دروازے کھولتی ہے، باعزت طریقے سے زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہے، یہ قیادت’ امّت کو ہر قسم کی آزمائش، آفت و مصیبت سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے لیکن جب قیادت نااہل ہوں تو پھر قوم و ملّت کے جوانوں کو خود آگے بڑھ کر مینا تھام لینا چاہیے۔
اس قسم کی قیادت کو اپنی دکانداری چلانے کے لیے وقتاً فوقتاً مصلحت، حکمت، خوف اور تقدس کا سہارا لینا پڑتا ہے، ان کے ہر غلط فیصلے کی بنیاد مصلحت پر ہوتی ہے، نااہلی کو حکمت سے تعبیر کیا جاتا ہے، سچ بولنے والوں کو وعیدیں سنائی جاتی ہیں، معتقدین کو تقدّس کے رنگ میں کچھ اس طرح رنگ دیا جاتا ہے کہ “ہمارے آقا جو کہہ دیں برحق ہے۔” حق پر حکمت و مصلحت کی اتنی پرتیں چڑھائی جاتی ہیں کہ وہ ہر نظر سے مخفی ہوجاتا ہے۔
بزدل و نااہل قیادت کو سب سے زیادہ پریشانی سوال کرنے والوں سے ہوتی ہے، وہ ایسے قلمکار، مضمون نگار، اور انشاء پرداز سے گھبراتے ہیں جو حقیقتوں کو الفاظ کی خلعت عطا کردیں، ان کاغذ کے شیروں کو قلم کی نوک’ خنجر اور روشنائی’ زہر نظر آتی ہے۔ وہ حقیقت پسند نوجوانوں کی حوصلہ شکنی’ اپنا فرضِ منصبی تصوّر کرتے ہیں، کبھی انہیں جدّت پسند لبرل، کبھی گستاخ تو کبھی ناتجربہ کار کہہ کر اپنا دامن جھاڑ لیتے ہیں۔ ملمع سازی سے حقیقتیں نہیں بدلتی، مکّاری کا پردہ خطاؤں کو ہمیشہ’ آڑ فراہم نہیں کرتا، چرب زبانی کے ذریعہ زہرِ ہلاہل کو لاکھ “قند” کہا جائے، زہر’ زہر ہی رہتا ہے۔
ادب و تہذیب کے دائرے میں رہ کر سوال اٹھانا اور احتساب کرنا ملّت کے ہر ایک فرد کی ذمّہ داری ہے، ملّت کے افراد صرف تقدّس اور بزرگیت کا بوجھ ڈھونے کے لیے نہیں ہے بلکہ نااہل قیادت کو کنارے کرنا بھی ملّت ہی کی ذمّہ داری ہے۔ غلط پالیسی، نقصان دہ فیصلے اور بچکانہ منصوبہ بندی پر تنقید نہ کی گئی تو یہ اپنے قیادت کے تئیں’ ملّت کی سب سے بڑی ناانصافی، بددیانتی اور بےایمانی ہوگی، اسی لیے سوال اٹھانا واجب ہے تاکہ ہم خطرات سے محفوظ رہیں۔
عزّت ماٰب حضرت قائد صاحب کی تعلیمی لیاقت اور مقامِ بزرگیت اپنی جگہ لیکن عالی جناب کی بے بصیرت سیاست قوم کی کشتی بیچ سمندر میں غرقاب کردے گی، قوم و ملّت کی شان و عظمت پر حرف آئے گا، باعثِ افتخار تمام چیزیں فروخت کردی جائے گی اور ہم اندھے اعتقاد کے مارے، شخصیت کے پجاری، “ہمارے آقا زندہ باد” کے نعرے لگاتے رہیں گے۔
عہدِ فاروقیؓ میں ایک عام بوڑھی خاتون’ جلیل القدر امیر المؤمنین خلیفۃ المسلمینؓ کے فیصلے پر اعتراض کرتی اور سوال اٹھاتی اور خلیفہ اسے تحسین کی نگاہ سے دیکھتا ہے، معتقدین یہ نہیں کہتے کہ خلیفہ کا مقام، مرتبہ، علم، سیاست، ذہانت اور دانشمندی کا تم سے کیا موازنہ؟ اور ایک آج کا زمانہ ہے کہ اختلاف پر انسان’ مرتد، کافر، لبرل اور فاسق ہوجاتا ہے، یہ قانون برہمنوں سے لیا گیا ہے کہ قیادت پر ایک خاص طبقے کی اجارہ داری ہوگی اور پر کسی کو اعتراض کا حق حاصل نہ ہوگا۔
نوٹ: – مراسلہ کا پس منظر مولانا۔۔۔۔۔۔ صاحب کا حالیہ بیان ہے اور عالی جاہ سے دست بستہ عرض ہے کہ آپ تہذیب اور آداب کا درس تو دے سکتے ہیں لیکن سوال اٹھانے والوں، لکھنے والوں اور اعتراض کرنے والوں کو سکوت کا حکم نہیں دے سکتے۔