سماجیمذہبیمضامین

خاموش حمایت: بند کردو یہ تماشے، اسلام کے نام پر اپنی مذہبی اور فرقہ وارانہ پروڈکٹ کی نمائش

میں جیسے ہی مسجد کے سامنے گاڑی سے اترا تو ایک خاتون تیزی سے میری جانب بڑھیں جیسے وہ میری ہی منتظر تھیں لبا س سے تو وہ ایک اچھے خاندان کی معلوم ہوتی تھیں۔
علامہ صاحب ! آپ سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں۔
گفتگو اور لہجہ سے خاتون پڑھی لکھی معلوم ہو رہی تھیں میں سمجھ گیا کہ طلاق یا پھر وراثت کا کوئی مسئلہ معلوم کرنے آئی ہوں گی۔
جی فرمائیے! میں نے حسبِ معمول نہایت شائستگی سے کہا
علامہ صاحب ! میرے بیٹے کو وڈیرے کے بیٹے نے سب کے سامنے قتل کیا جب وہ اپنی بہن کی شادی سے واپس آرہا تھا مقدمہ چلا ،میڈیا نے بھی اپنے طور پر اپنے مقاصد کے تحت میری آواز کو بلند کی مگر قاتل کا مضبوط سیاسی بیک گراؤنڈ ،اس کی دولت اس کے گناہ کا کفارہ قرار پائی ۔
نظامِ انصاف کے کچھوے، اور بااثر وڈیرے نے مجھ سے صرف اتنا کہا کہ تم دو نوجوان بیٹیوں کی ماں ہو ابھی صرف بڑحاپے کا سہارا گیا ہے ایسا نہ ہو عزت بھی محفوظ نہ رہے اس ہولناک دھمکی نے مجھے سر تاپا لرزا کر رکھ دیا آج میں مجبور ہو کراپنے اجداد کے وطن کو خیر باد کہہ رہی ہوں۔

مسئلہ یہ پوچھنا چاہتی ہو ں کیا اللہ و نبی ﷺ نے ان حالات میں وارثانِ انبیاء کے سپرد کوئی ذمہ داری دی ہے یا نہیں !!!

کیا نبی کریم ﷺ کی تعلیمات یہ نہیں آئرش کا ایک تاجر جو نبی کریم ﷺ پر ایمان بھی نہیں رکھتا تھا اس کے پیسے جب ابو جہل نے دبا لیے اور اس نے آپ ﷺ سے فریاد کی کہ آپ میرا حق دلوادیجیے تو آپ ﷺ نے اسے منع نہیں کیا اور اس تاجر کو لے کر ابو جہل کے پاس گئے اور کہا فوراً اس کے پیسے دو اور ابو جہل نے فوراً لا کر دے دئیے ۔۔۔۔آپ ﷺ کے غزوات میں آپ کے پیارے لہو لہان ہوگئے تاکہ مظلوموں کی داد رسی ہو اور ظالموں سے نجات ملے ۔۔۔۔مگر منبر و محراب تو خاموش ہیں تلوار تو کجا ان کے تولب بھی سِلے ہوئے ہیں۔
جی بتائیے علامہ صاحب !
کیا مائیں اپنے لختِ جگر کو ایسے ہی کھوتی رہیں گی اور منبر سے بس صبر کی صدا بلند ہوتی رہے گی؟
اس ظلم پر صبر کا تو مجھے اجر مل ہی جائے گا پر آپ کی خاموشی پر بھی کوئی عذاب نازل ہو گا یانہیں ؟۔۔۔۔
منبر و محراب کی اس بے حرمتی پر کوئی سزا آپ کے لیے بھی ہے یا نہیں ؟

محترمہ ! یہ سارے کام ریاست کے ہیں میں اس سلسلے میں کر بھی کیا سکتاہوں ۔۔۔۔
جی جی ! بالکل آپ بھلا کر بھی کیا سکتے ہیں آپ تو صرف چوہدریوں کے محلات میں فاتحہ خوانی کرنے جا سکتے ہیں ۔۔۔۔یا کسی بڑے نامور سیاست دان کے ساتھ ان کی محرمات کے ساتھ ناشتہ کر سکتے ہیں ۔۔۔۔یا کسی فلمی ہیرو یا کسی کرکٹر کواپنے فرقے کی تبلیغ کرسکتے ہیں ۔۔۔۔

بند کر دو یہ تماشے، اسلام کے نام پر اپنی مذہبی اور فرقہ وارانہ پروڈکٹ کی نمائش ۔۔۔۔۔

اسلام تو مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے آج جب ساری دنیا میں عالم اسلام مظلوم بن چکا ہے تب بھی تمہارے سینے میں کوئی حرارت پیدا نہیں ہوتی
۔۔۔۔کشمیر میں لٹتی ہوئی عزتیں ۔۔۔۔برما میں کٹتا مسلمان ۔۔۔۔شام میں ذبح ہوتے مسلمان بچے ۔۔۔۔فلسطین کے مسلمانوں پر تنگ ہوتی زمین ۔۔۔۔اور عراق و افغانستان میں سسکتی ہوئی زبانوں سے ادا ہوتی لاالہ الا اللہ کی صدائیں تم سے پوچھتی ہیں علامہ صاحب ! کیا منبر سے کبھی مظلوم کی حمایت میں کوئی صدا بلند ہوگی ؟

کیا میلاد کی مجالس میں سیرت کے اس گوشے پر بھی نگاہ ڈالی گئی کہ مظلوم کی حمایت بھی سیرت کا اہم ترین گوشہ ہے ؟
کیا سنتوں کی پیروی کرتے ہوئے کبھی حمایتِ مظلوم کی سنت پر بھی عمل کیا ہے؟
کیا چوک چوک عصر کے بعد نکلے ہوئے تبلیغی گشتی ٹولوں نے کبھی مظلوم کی حمایت کا بھی درس دیا ؟
کیا قرآن نے کوئی حکم دیا ہے مظلوموں کی حمایت کے لیے ؟۔۔۔۔۔۔۔

اتنے خا موش کیوں ہو علامہ صاحب !
محترمہ! ہم تو اپنا کام کرتے ہیں لوگوں کو بتاتے ہیں جتنا ہم سے ہو سکے

بہت خوب ! علامہ صاحب ! جس لب ولہجہ میں آپ نے مجھے مطمئن کرنے کی کوشش کی یہ نہ تو نبی کریم ﷺ کی سنت ہے اور نہ صحابہ کرام کی البتہ عبدا للہ ابن ابی اسی لب و لہجہ میں جواب دیتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ منافقانہ لب و لہجہ ہے علامہ صاحب ایک مومن کی آواز نہیں یہودی قبلیے قینقاع کے ایک یہودی نے جب ایک مسلمان عورت کے ساتھ شرارت کی تھی تو مسلم نو جوان نے جوعملی جواب دیا تھا کبھی غزوہ قینقاع کی تاریخ پڑھیے گا۔
سنیے علامہ صاحب ! میں نے آپ کی شان میں شاید گستاخی کر دی ۔۔۔۔
میں آپ سے اتنا ہی کہوں گی’’ملا کی دوڑ مسجد تک ‘‘ کی غیر اسلامی فکر سے خود کو آزا کرائیے ۔۔۔۔

وارثانِ انبیاء کو یاد رکھنا چاہیے ان کا کردار صرف محراب و منبر تک محدود نہیں ہے ۔۔۔۔اسوہ رسول ﷺ پکار پکار کر کہہ رہا ہے عہد حاضر کا بدرو احد بھی وارثانِ انبیاء کا میدان ہے۔۔۔۔منصبِ سیاست بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے ۔۔۔۔ریاست کی باگ دوڑ بھی آپ ہی نے سنبھالنی ہے کیونکہ اسلام، کلیسا کی طرح پادریوں کا کوئی مذہب نہیں بلکہ ضابطہ حیات ہے۔
اور ضابطہ حیات کا نفاذ ظالموں کی بیٹھک میں بیٹھ کر نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔دربار میں بادشاہ سلامت کے حضور ہاں میں ہاں ملانے سے نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔ مزاروں پر بیٹھے عظیم گدی نشین گدی گدی گدی ۔۔۔۔۔۔۔۔ معذرت

امت مسلمہ ان نااہل گدی نشینوں میں جکڑی ہوئی اور آپ ہرعرس پر تقریر پر تقریر کرتے رہے عقیدت کے کمزور جالے کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی سعی کرتے رہے کیوں کہ آپ کا لفافہ بھی تگڑے سے تگڑا ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔
معذرت علامہ صاحب ! آپ نے خواجہ صاحب کی چھٹی تو خوب دھوم دھام سے مچائی پر کبھی شہاب الدین غوری کی دعا لب پر نہ لائے ۔۔۔۔آپ گیارہویں تو مناتے رہے کبھی صلاح الدین ایوبی کے کارنامے نہیں سُنائے ۔۔۔۔۔معذرت صد معذرت آپ نے نبی کریم ﷺ کی ولادت کی خوشی میں گھر سے لے کر بستی تک ہر شئے کو روشنیوں سے سجا دیا پر انسانیت کو اندھیرے میں رکھنے والے ابو جہل کے خلاف لڑنے والی سنت کو زندہ نہیں کیا۔

علامہ صاحب ! میں اب یہ وطن چھوڑ کر جا رہی ہوں یاد رکھیے گا!

اگر آپ نے اپنی ذمہ داری کو اسوۂ رسول ﷺ کے مطابق ادا نہیں کیا اور خاموش حمایت جاری رکھی تو الحاد کے اندھیرے اُمتِ مسلمہ کو نگل جائیں گے، لوگوں کو اپنی آخری جائےپناہ الحاد میں نظر آئے گی اٹھیے اور اپنی ذمہ داری ادا کیجیے۔
اور آخری بات ! یہ مت سوچنا کہ بیٹا صرف میرا مرا ہے، بھیڑئیے کی خصلت میں ہی درندگی ہے اور بھیڑیوں کو جنگل تک محدود نہیں کیا اور اگر اس درندگی کے خلاف آواز بلند نہ کی تو یاد رکھنا یہ درندگی بہت دور نہیں تمہاری دہلیز سے۔۔۔۔

اور پھر وہ رو پڑی سسک سسک کر اور اپنے پلو سے اپنے آنسوؤں کو صاف کرتی تیزی سے واپس پتہ نہیں کہاں چلی گئی .۔.۔.۔.۔.

تحریر: نامعلوم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!