آوٴ آداب سیکھیں۔۔۔!
سید عرفان اللہ، بنگلور
یہ تو حق ہے کہ ہر کوئی اپنی بات اور خود کو سب سے بہتر مانتا ہے اور مانے بھی کیوں نا؟ یہ تو ہر ایک کا فطری حق ہے کے وہ خود کو بہتر مانے اور اس کی باتیں ملت و ملک کے لئے سود مند ثابت ہو ںتو اس سے اچھی اور بات ہو بھی کیا سکتی ہے؟ مگر یہ خیال کرنا کے میری ہی بات سب سے افضل اور ہمیشہ میں ہی صحیح ہوں یہ غلط ہے۔یہ اس لئے بھی غلط ہے کیوں کہ ہر انسان یا یوں کہیں ہر جاندار کا اپنا زاویہ فکر ہوتا ہے جس موڑ یا زاویہ سے میں کسی چیز کو دیکھتا ہوں ضروری نہیں کہ ہر کوئی اس کو اسی زاویہ سے دیکھے یا سمجھے۔ میرا یہ مضمون بھی میں لکھ رہا ہوں یہ میرا اپنا زاویے اور میرا اپنی فکر کا نتیجہ ہے ضروری نہیں کے ہر پڑھنے والے کو یہ صحیح لگے ہوسکتا ہے میری بات سے کچھ ناراض ہوں کچھ تنقید بھی کریں یا پھر کئی سارے خوش ہوکر میری پذیرائی کریں۔
انسان جب بھی کوئی کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ یقینا اچھا ہی کرنے کا سوچتا ہے وہ دوسروں کے لئے صحیح ہوگا یا اس کے فعل سے ملت و ملک کو نقصان ہوگا یہ اس کی فکر نہیں ہوتی اور یہ عام انسانی فطرت ہے۔ اس سے وہ شاید اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے مگر اس کے بعد ۔ مگر جب کوئی انسان کچھ کرنے سے پہلے کام کی نوعیت اور پھر اس کے اثرات پر غور و فکر کرے اور کام شروع کرنے سے پہلے تمام پہلوئوں پر اچھی طرح تحقیق کرلے تو وہ انسان کامیاب بھی ہوگا اور اس پرقوم و ملت کے لوگ اعتماد بھی کرنے لگیں گے۔ ہاں اگر وہ کسی غلطی کی وجہ سے ناکام بھی ہوجائے تو وہ ہار نہیں مانتا اور پھر نئی کوشش میں لگ جاتا ہے مگر اس بار وہ تنہا نہیں ہوتا ہے اس بار اس کے ساتھ کئی لوگ جڑ گئے ہوتے ہیں۔ یعنی اس کی جیت ہو ہی جاتی ہے چاہے فعل کے کامیاب ہونے سے یا پھر اس کی تائید میں لوگوں کے جڑ جانے سے مگر اس بار وہ تنہا نہیں رہتا یہ تو طے ہے۔
میں سمجھتا ہوں جب سے حضرتِ انسان نے اس سر زمین پر اپنے قدم جمانا شروع کیا تب سے ہی وہ نئی کھوج میں لگا ہوا ہے۔ اور ہر بار نیا پرانے پر بھاری ہی پڑتا ہے کہیں کہیں ہوتا ہے کہ پرانا نئے پر بھاری پڑا ہو لیکن اکثر نیا ہی کامیابی کی منزل کو چھوتا ہے۔ اب دیکھیں آج سے کچھ سو سال پہلے موٹر گاڑیوں کا تصور نہ تھا آج سے کچھ سال پہلے موبائیل کوئی بلا ہوگی کسی کو خبر بھی نہیں تھی۔ لوگوں کو دور دراز سفر پر جانے سے پہلے کئی کئی دنوں تک سامانِ سفر کی تیاری کرنی ہوتی تھی۔ مگر آج کا دور جیسے جیسے پل پل میں بدل رہا ہے۔
اگر میں فون کی ہی بات کروں ، تو اس کی ایجاد 1876 میں الیگزینڈر گراہم بیل نے کی اور شاید اس نے سوچا بھی نہ ہوگا آگے جاکر کچھ تاروں پر بات کرنے والے ایک دوسرے کو فون پر دیکھیں گے بھی اور ایک دوسرے کو اپنی تصویریں بھیجیں گے بھی۔ اس نے تو صرف آواز کو ایک تار سے دوسری تار تک پہنچانے کا سوچا تھا مگر نئی کھوج اور نئی ایجادات نے فون کی شکل ہی بد ل کر رکھ دی ہے اور اگر ہم آج کے بچوں کو بتائیں کہ ہم کبھی اپنوں سے بات کرنے کے لئے کئی کئی دنوں تک ٹرنک کال کے ذریعہ انتظار کرتے تھے اور وہ بھی کچھ سکینڈ یا ایک منٹ کے لئے ہی بات کر پاتے تھے تو وہ ہنستے ہیں اور مذاق تصور کرتے ہیں۔ اور وہ کریں بھی کیوں نہ جب کے وہ خود کسی کو بھی دادی، نانی یا پھوپی ، خالہ کسی کو بھی پل بھر میں فون ملاتے ہیں پھر چاہے وہ اپنے شہر میں ہوں یا وطن میں یا پھر بیرون ملک میں دنیا کے کسی بھی کونے میں وہ پل بھر میں کال لگالیتے ہیں اور کئی کئی گھنٹوں بات کرتے ہیں۔ تو پھر وہ کیوں ہماری بات مانیں گے۔ وہ ہماری بات اس لئے نہیں مانیں گے کیوں کہ ہم نے پرانی چیزوں کی قدر باقی نہیں رکھی ۔ ہم نے نئے کے چکر میں پرانے کو کوڑا کرکٹ بنا دیا۔ اب یہاں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ’’ تو پھر کیا کیا جائے؟ پرانی چیزوں کوگھروں میں جمع کیا جائے؟‘‘
جی نہیں مگر کچھ ایسا نظم رکھا جائے کے ہم بچوں کو آج استعمال میں آنے والی چیزوں کا ماضی بھی اس طرح بتائیں یا دکھائیں کے وہ ان کو محسوس کریںاور ان کو احساس ہو کے وہ کتنی آسان دنیا میں جی رہے ہیں۔ آج بھی انسان روٹی کے لئے ترس رہا ہے۔ آج بھی کتنے جسموں پر کپڑے نہیں ہیں آج بھی کتنے ہیں جو سڑکوں پر زندگی گذار رہے ہیں ۔ کیا ہمارے بچوں کو اس کا علم ہے اس کا احساس ہے ۔ کیا کبھی ہم نے بچوں کو اس طرف راغب کروایا ہے۔ کہنے کو تو ہم کہہ دیتے ہیں ’’ تم کو کیا پتا ہم نے اپنے بچپن میں کن کن تکالیف کا سامنا کیا ہے‘‘ مگر سوچیں کیا وہ تکالیف وقتی تھیں یا پھر فطری ۔ ہم بچوں کو بڑوں کا ادب ، فقراء سے ہمدردی، غیروں سے محبت اور غیر مذاہب کے ماننے والوں سے دوستی کیوں نہیں سکھاتے ۔ پتا ہے کچھ لوگ ہوں گے جو ان باتوں پر عمل بھی کرتے ہوں گے ۔ مگر کیا بھی سچ نہیں کہ وہ لوگ صرف سالن میں نمک کے برابر ہوں گے۔ اور ان کی بھی اب تعداد بہت کم ہوتی جا رہی ہے۔
میں نے شروع میں ہی صاف کر دیا کہ یہ میرا اپنا زویہ فکر ہے۔ میں ایسا سوچتا ہوں مجھے نہیں پتا کتنے مجھ سے متفق ہوں گے اور کتنے مجھ سے معترض مگر حقیقت تو یہی کہہ رہی ہے کے ہمارا معاشرہ بالکل بگڑ چکا ہے۔ ہمارے بچے جی بالکل بنا کسی مذہب و ملت ہمارے بچے ہمارے ملک کے بچے صرف بگڑے نہیں ہیں بلکہ وہ کسی کو خاطر میں بھی نہیں لاتے۔ بس جو ان کے سمجھ میں آیا وہ صحیح ۔ جو وہ کرنا چاہتے ہیں وہ صحیح۔ ہم بھی ہمارے بچپن میں شاید ایسے ہی رہے ہوں مگر اللہ کا شکر کے ہمارے والدین نے ہماری ایسی تربیت کی کہ آج ہم با اخلاق لوگوں میں شمار کئے جاتے ہیں مگر کیا ہم اپنی وہ ذمہ داری جو ہمارے والدین نے نبھائی وہ نبھارہے ہیں یا پھر ہمارے دور کے اساتذہ نے جو ہمیں سکھایا وہ ہم اپنے بچوں کو پہنچا رہے ہیں۔ میرے نزدیک تو بالکل نہیں ۔
اب اگر میں کوئی بات کہوں تو شاید فتنہ بھی ہو جائے۔ مسجدوں میں بچوں کے آنے سے کون کون خوش ہوتا ہے۔ بچوں کی صفیں کہاں بنتی ہیں۔ بچوں کے ساتھ کیسے سلوک کیا جاتا ہے۔ بس اس ایک بات پر غور و فکر کریں آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ہم کہاں ہیں۔ اگر بچے مسجدوں میں آتے ہیں تو یہ ہمارا فرض بھی ہے اور سنتِ رسولؐ بھی کے ہم ان کو صرف کتابی مسجد کے آداب نہ سکھائیں بلکہ صحیح مانوں میں عمل کر کے بھی بتائیں۔ جمعہ کے خطبہ کے وقت ہم بڑے ہی جب مصروفِ گفتگو رہیں گے تو بچے کیا سکھیں گے؟ اگر ہم ہی مسجد میں ہنسی مذاق کریں گے تو پھر بچوں سے کیا امید؟ صحیح ہے نا! اب دیکھو بنگلور کی کئی مساجد میں یہ سلسلہ شروع ہوا ہے کہ جو بچے پورا مہینہ پانچ وقت کی نماز کے لئے مسجد آتے ہیں انہیں تحفہ میں سائیکل دی جا رہی ہے۔ اس سے ہو یہ رہا ہے کہ اب بچے بلا ناغہ پانچ وقت کے نمازی تو بن ہی رہے ہیں مگر جب وہ اسکول میں جاتے ہیں تو اپنے دوستوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتے ہیں۔ اور اس سے یہ ہو رہا ہے کے اب تقریباً ہر مسجد میں یہ آواز اٹھنے بھی لگی ہے کے کیوں نہ ہم اپنے محلہ کی مسجد میں بھی اس طرح کا کوئی نظام شروع کریں۔ مطلب کام وہی صرف زاویہ بدل دیا گیا اور دیکھو ماشا اللہ کیا سے کیا ہوگیا۔
اگر اسی طرح ہم بچوں کو سائیکل چلانے کے آداب بتادیں۔ تو آج سائیکل ہے کل وہ موٹر بائیک یا کار بھی چلائیں گے تب ان شا اللہ یہی آداب ان کو وہاں بھی ضرور کام آئیں گے۔ آج ہماری قوم کے بچے بنا ہلمٹ گاڑی چلانا گویا اپنی شان سمجھتے ہیں۔ ایک ہی موٹر بائیک پر تین تین لوگ ایسے جاتے ہیں جیسے عام بات ہو۔ بنا ڈریوئنگ لائیسنس اور گاڑی کے کاغذات تو وہ اس طرح بات کرتے ہیں جیسے یہ ان کا پیدائشی حق ہو۔ سنگنل ٹوڑنا اور پولیس سے بدتمیزی سے بات کرنا یہ تو ان کا عینی حق سمجھتے ہیں۔ اگر ہم شروع ہی سے بچوں کو گاڑی وغیرہ چلانے کے آداب سکھا دیں اور قوانین و ضوابط پر عمل کرنے کی تعلیم دیں تو ان شا اللہ یاد رکھیں ہمارے قوم کے بچے کسی سے بالکل بھی کم نہ ہوں گے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ بچپنے سے ہی وہ سنگل ٹوڑنا، تین لوگوں کی سواری چلانا، بدتمیزی سے پیش آناوغیرہ کی عادت پڑ جائے تو پھر وہ بڑے ہونے کے بعد غلط کہاں ہوں گے۔
اگر ہم یہ کام بچپنے سے کریں تو پھر کوئی مشکل بھی نہیں اور بڑے ہونے پر وہ خود عمل بھی کریں گے اور دوسروں کو بھی خود ترغیب بھی دیں گے۔ اگر ہمیں ایک اچھا ماحول بنانا ہے تو پہلے خود سے شروع کرنا ہوگا۔ میں خود کو چھوڑ کر اگر دنیا کو سدھارنے نکلا تو یقین جانیئے مجھ سے بڑا احمق کوئی نہ ہوگا۔ آئیے ہم اپنے بچوں کو اپنا ماضی ان کو اس طرح بتائیں کہ وہ اپنا مستقبل روشن کرلیں۔ اور ساتھ ساتھ وہ ایک اچھے شہری بنیں اور پھر وہ ہمارا اور ہمارے ملک و ملت کا نام روشن کرے۔