سماجیسیاسیمضامین

ماحول میں ‘ہم آہنگی’ پیدا کرنا، وقت کی اہم ضرورت ہے

محمد قاسم ٹانڈؔوی

ملک کی ترقی اور سالمیت کو بریک تو اسی دن لگا دیا گیا تھا جس دن آہنسا کے سب سے بڑے پُجاری اور دنیا کو امن و شانتی اور سچائی کا درس دینے والے باپو مہاتما گاندھی کو آج ہی کے دن (30/جنوری/1948) کی شام کو اندھا دھند گولیوں سے بھون کر ان کے جسم کو چھلنی اور ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا تھا، اور یہ وہ وقت تھا جب کہ ملک کو آزاد ہوئے ابھی صرف ساڑھے سات ماہ کا قلیل عرصہ گزرا تھا، ملک کا آئین و دستور ابھی زیرِ تشکیل تھا، مگر طاغوتی طاقتوں، سَرپھری طبیعتوں اور شاطِر دماغوں نے اسی وقت اپنے خونی پنجہ سے ملک کے عوام کو لہو لہان کرنا شروع کر دیا تھا اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارا یہ وطنِ عزیز ہندوستان آج تاریخ کے جس نازک ترین دور سے گزر رہا ہے وہ کسی فردِ بشر سے مخفی نہیں۔

آج ہرسِمت اور ہر گوشہ میں جس طرح سے حکومت میں شامل چند لوگوں کی زیرِحِمایت نقاب پوش بلوائ اور امن و امان کے دشمن ملک کی سالمیت اور جمہوریت پر حملہ آور ہیں یہ سب آزاد تاریخ کے اسی پہلے قتل کی ذہنیت یافتہ پیداوار ہیں جس نے دن کے اجالے میں سرِشام باپو کو موت کے گھاٹ اتار کر اپنی اصلی ذہنیت سے دنیا کو روشناس کرایا تھا۔دنیا کی چنندہ اور بےمثال مملکتوں میں سے ایک ارضِ وطن ہندوستان آج ناگفتہ حالات کے جس دوراہے پر کھڑا ہے اس کی وجہ یہ ہرگز نہیں کہ یہاں ہندؤں کو مسلمانوں پر سیاسی برتی حاصل ہے یا مسلمانوں کے یہاں ہندؤں کے تئیں کسی طرح کی مذہبی نفرت و عداوت پائی جاتی ہے؛ نہیں ہرگز نہیں، بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہےکہ جس وقت ہمارے اس پیارے ملک کو آزادی نصیب ہوئ تھی اس وقت ملک میں دو غیر سیاسی تنظیمیں سرگرم تھیں۔

پہلی جمعیۃ علماء ہند جس کا قیام آزادی سے تقریباً 28/سال قبل وجود میں آیا تھا اور دوسری آر ایس ایس (راشٹریہ سوئم سیوک) جو قیامِ جمیعۃ کے چھ سال بعد (1925) کو وجود میں آئی تھی، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دونوں کا زمانۂ قیام تقریباً ایک ہی ہے لیکن سرگرمیاں دونوں کی جدا جدا رہی ہیں۔ وہ اس لئے کہ ان میں سے اول الذِّکر جماعت کا تعلق تو روزِ اوّل سے تعمیری، رِفاہی، اِصلاحی اور بقائے باہمی کو فروغ دینا رہا ہے جبکہ ثانئ الذِّکر جماعت کا تعلق ہمیشہ سے تخریبی، فسادی، تشدد پسندی، پُرامن و پُرسکون معاشرہ میں فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے یا مختلف ذہن کے حامل لوگ اور اِداروں سے وابستہ افراد جو اس ملک میں امن و امان کو بنائے رکھنے کی فِکر و جستجو اور آپسی میل جول کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اسی آر ایس ایس (سَنگھ) سے وابستہ لوگوں کی ٹولی نے ہمیشہ اس صالح فکر اور کوششوں کی نہ صرف مخالفت میں نعرے لگائے بلکہ ملک کے مرکزی اِقتدار کو ہڑپنے اور اس کو اپنے زیرِ بازو لانے کےلئے وقفہ وقفہ سے اَرباب اِقتدار کو قتل کرانا یا بغیر کسی معقول وجہ بتائے رہبرانِ قوم وملک کو پابندِ سلاسِل کرا کر اپنے ذاتی مفادات و سیاسی اغراض و مقاصد کو حاصل کرنا اس کا سب سے محبوب مشغلہ رہا ہے۔

مذکورہ جماعت کو اپنے ان ناپاک مقاصِد کے حصول کےلئے چاہے بابائے قوم مہاتما گاندھی (گاندھی جی) کا قتل کرنا پڑا ہو یا پے در پے ملک کے دو وزراء اعظم اِندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کو اقتدار سے بےدخل کرنے اور اپنے سیاسی اقتدار کے راستے کو ہموار کرنے کے لئے قتل کرانے میں شامل ہی کیوں نہ ہونا پڑا ہو، یہ تمام دِل دوز و اندوہناک حادثات تاریخ کے صفحات پر رقم ہیں کہ اس بھگوا رنگ اور فِرقہ پرست ٹولے کے نزدیک قتل و غارت گری اور خونریزی کوئ اہمیت نہیں رکھتیں، بلکہ اس کے علاوہ اور بھی بےشمار مثالیں ہیں جو پیش کی جاسکتی ہیں مگر وہ سب یہاں مضمون کے طویل ہونے کا سبب ہوں گی اس لئے ان سے احتراز بہتر ہے لیکن ان تمام فِرقہ واریت پر مبنی حادثات اور ملک مخالف سرگرمیوں میں شامل واقعات سے اندازہ ہوگا کہ کس طرح یہ بھگوا گروہ جو دراصل خود ہی ملک کے سب سے بڑے دشمن اور خطرناک عناصِر ٹولے کی رفاقت و ہمنوائی میں پیش پیش رہتا ہے، جن کا مکروفریب اور دجل فریبی کو ملک اپنی آزادی کے بعد سے برداشت کر رہا ہے۔

وہی ٹولہ آج بھی ملک کے آئین و دستور سے چھیڑ چھاڑ کرکے اس کی جمہوریت اور سیکولرازم سے کِھلواڑ کر رہا ہے۔آج جب ہم ملک کے طول و عرض پر نگاہیں دوڑاتے ہیں اور پھر حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو انتہائی رنج و غم اور دلی افسوس کے ساتھ تحریر کرنا پڑتا ہے کہ کس طرح سے ملک کے حالات کو بڑے پیمانے پر مذہب کے رنگ میں رنگ کر اس بھگوا گروہ کی طرف سے حالات کو بد سے بدتر اور ناقابلِ اطمینان بنا دئے گئے ہیں، ملک کی تمام قدیم روایات کو آگ لگا کر گنگا جمنی تہذیب اور برسوں پرانے کلچر و ثقافت، تہذیب و تمدن اور باہمی اخوّت و محبت کا جنازہ نکالا جا رہا ہے، اور تو اور ملک پر ایک خاص فرقے اور طبقے کی اجارہ داری قائم کرنے اور دیگر اقلیتوں کو دیش نکالا اور ان سب کو بےوطن کرنے کےلئے ایک طرف مسلسل لیڈران کی بدزبانی اور زہر افشانی سے حالات کو مخدوش کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب وہیں موجودہ مرکزی حکومت آئین مخالف بِلوں کو منظوری دے کر عوام کو تشویش میں مبتلا کر رہی ہے۔

گویا ایک طرف حکومت ہے جو منظم سازشوں کے تحت ملک کے امن و امان پارہ پارہ کرنا چاہتی ہے اور دوسری طرف سنگھ سے وابستہ لوگوں کا ٹولہ ہے جس کے ذریعے نفرت و عداوت اور تشدد کے واقعات میں اِضافہ کرایا جا رہا ہے ایسے  پُرفِتن دور اور نازک حالات میں ہمارے چند جیِّد علماء کرام، اثر و رسوخ کے حامل اشخاص اور میدانِ سیاست و صحافت کے ماہرین کو پھر سے ایک مرتبہ متحد و متحرک اور فعّال ہونے کی ضرورت ہے کہ وہ میدانِ عمل میں آئیں اور بیک آواز ہوکر برادران وطن اور بلا تفریقِ مذہب و ملت اس روز بروز بڑھتی فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کو لگام دینے کی خاطر ملک کی برسوں پرانی گنگا جمنا تہذیب، قومی یکجہتی اور بھائی چار گی کو قائم رکھنے کی جو بھی تحریک چلائی جا سکتی ہو چلائیں اور اس کے لئے ایسی مستحکم بنیاد رکھیں جو کسی کے ہلانے سے ہِل نہ سکے اور گرانے سے گِر نہ سکے بلکہ ‘قومی یکجہتی’ اور ‘فرقہ وارانہ ہم آہنگی’ کے عنوان سے ابھی چند سالوں پہلے جس طرح ملک گیر پیمانے پر ‘جمعیۃ علماء ہند’ کے بینر تلے اجلاسِ عام اور جگہ جگہ کانفرنسوں کا اِنعقاد کئے جانے کی شروعات کی گئی تھی۔

آج کی موجودہ مخدوش صورتحال میں ان کانفرنسوں کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے اس لیے ان کو آج نئے سِرے سے بہترین انداز پر شروع کرنا اور پہلے سے زیادہ منظم طریقے سے اس کی پہل کرنا، وقت کی اہم ضرورت، ملک و ملت کی حفاظت اور برادرانِ وطن کو اس کی اہمیت اور ضرورت سے واقف کرنا بےحد ضروری امر ہو جاتا ہے۔ تاکہ ہمارا یہ ملک ویسے ہی باآسانی ترقیات کی منازل طے کرتا رہے جیسا کہ گاندھی و آزاد اور کلام و اشفاق و بسمِل کے دور میں کرتا رہا اور ہم یوں ہی ایک دوسرے کے رنج و غم اور خوشی غمی میں شریک ہوتے رہیں جیسے آزادی کے ابتدائی دور میں ہوا کرتے تھے، تبھی ہمارا یہ ملک عالمی سطح پر ترقی کے ساتھ برابری کرےگا اور اسی وقت یہاں کے عوام خوشحالی اور امن و امان والی زندگی گزر بسر کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!