ریاستوں سےمہاراشٹرا

میراروڈ میں جشنِ جمہوریہ اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرہ‎

ممبئی: 27/جنوری ساجد محمود شیخ میراروڈ کی اطلاع کے مطابق ممبئی سے جُڑے مضافاتی علاقے میراروڈ میں  کو ہم بھارتیہ لوگ کے نام سے مختلف تنظیموں نے جشنِ جمہوریہ کے ساتھ ساتھ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرہ کا انعقاد کیا ۔ پروگرام میں دستور کی تمہید پڑھ کر سنائی گئی اور قومی ترانہ گایا گیا ۔ ہم بھارتیہ لوگ دراصل مختلف تنظیموں کا ایک وفاق ہے جو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے متحد ہوۓ ہیں ۔ میراروڈ میں نمایاں کردار جماعتِ اسلامی، طلبہ تنظیم ایس آئی او ،طالبات کی تنظیم جی آ ئی او ،حلقۂ خواتین جماعتِ اسلامی،اور دینی ملی اور برادرانِ وطن کی جماعتیں شامل ہیں ۔ پروگرام کا آغاز قومی ترانہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا سے ہوا۔

جلسہ کی نظامت کرتے ہوئے ایڈووکیٹ ثناء دیشمکھ نے کہا کہ آج ہی کے دن ۱۹۵۰ میں ہمارے ملک کے دستور کا نفاذ ہوا تھا اور آج ہم اُس دستور کی حفاظت کے لئے جمع ہوئے ہیں ۔ انہوں نے جلسہ میں موجود مظاہرین کا استقبال کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا    منزل ملے گی بھٹکنے سے ہی سہی    گمراہ تو وہ ہیں جو گھر سے نکلے ہی نہیں اس کے بعد جی آ ئی او کی طالبات نے ترانہ “ہم زندہ تھے ، ہم زندہ ہیں ،ہم زندہ رہیں گے ” پڑھ کر ماحول کو گرما دیا۔ آخر میں طالبات نے یہ شعر بھی پڑھا
جب گلستاں کو خون کی ضرورت پڑی تو
سب سے پہلے گردن ہماری کٹی  
پھر بھی کہتے ہیں یہ اہلِ چمن
یہ چمن ہمارا ہے تمہارا نہیں 

اس کے بعد ایک ڈرامہ پیش کیا گیا۔ اس کے ڈرامے کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا کہ اہلِ وطن مذہب کے نام پر آپس میں لڑتے رہے اور حکمران اس کا فائدہ اٹھاتے رہے۔ اتحاد کا پیغام دینے والے اس ڈرامے کے بعد دلتوں کے نمائندے اور بہوجن ونچت اگھاڑی کے صدر اشوینی کامبلے نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ  ۱۹۵۰ کا ہندوستان الگ تھا اور آج کا ہندوستان الگ ہے ۔  ۱۹۵۰  کے ہندوستان میں ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے انڈیا کو سیکولر دستور دیا تھا ۔ سب شہری اس وقت دستور کو مانتے تھے اور آپس میں بھائی چارہ سے رہتے تھے ۔ اشوینی میڈم نے کہا کہ اگر گھر کا سربراہ کو ڈٹینشن کیمپ میں بھیج دیا گیا تو گھر کون چلاۓ گا ۔ انہوں نے کہا کہ جن اراکین پارلیمان نے شہریت ترمیمی قانون پاس کرتے وقت بل کی حمایت کی تھی اُن کے پاس شہریت کے دستاویزات ہیں یا نہیں یہ کون دیکھے گا۔

ایڈووکیٹ دلیپ جین نے وزیراعظم کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے ۔اس کا این آر سی سے تعلق نہیں ہے مگر وزیر داخلہ سی اے اے کو این آر سی سے جوڑ رہے ہیں ۔ آپ عوام کو بتاتے کیوں نہیں صحیح بات کیا ہے ۔ ظہیر رضوی نے فیض احمد فیض کی نظم ہم دیکھیں گے مترنم آواز میں سنائی ۔ کانگریس کی رکن بلدیہ کارپوریٹر محترمہ سارہ اکرم نے کہا حکومت عوام کے درمیان مذہبی بنیادوں پر تفرقہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے مگر ہم متحد ہو کر حکومت کو منہ توڑ جواب دیں گے ۔ ہم سے ہماری شہریت کا ثبوت مانگنے والوں اس ملک کی مٹی سے پوچھو یہاں ہمارے باپ دادا کا خون جذب ہے ۔ ممبئی کی مشہور ڈیمڈ یونیورسٹی ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے پی ایچ ڈی کے طالبِ علم فواد احمد نے کہا وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے شہریت ترمیمی قانون کا نفاذ کرکے سب کو متحد کردیا ہے ۔ ۱۹۳۳ میں آر ایس ایس کے لوگ انگریزوں کے تلوے چاٹنے میں لگے تھے تو اُس وقت ہمارے آباء و اجداد انگریزوں سے مقابلہ کر رہے تھے ۔ مکمل آزادی کا نعرہ سب پہلے مولانا حسرت موہانی نے دیا تھا ۔

انہوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں خواتین اور طلبہ کے رول کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آزادی کی لڑائی میں جو کردار مہاتما گاندھی،پنڈت نہرو اور مولانا آزاد اور دیگر مجاہدینِ آزادی نے ادا کیا تھا وہی کردار آج خواتین نبھا رہی ہیں ۔ انہوں نے پُر جوش انداز میں آزادی کے نعرے لگائے اور حاضرین نے بااّوازِ بلند ان کا ساتھ دیا ۔ ایڈووکیٹ شہود انور نے آج یومِ جمہوریہ کے دن ہم دستور کے تحفظ کے لئے جمع ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سرکار جو کہہ رہی ہے اور کر رہی اس میں بہت فرق ہے ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسٹوڈنٹس یونین کے لیڈر میران حیدر نے کہا کہ جامعہ میں ہم پر وحشیانہ طریقے سے لاٹھی چارج کیا گیا ۔ تین سو طلبہ زخمی ہوئے ہیں اور کئی کے سر پھٹ گئے تھے ۔ مگر ہمارے حوصلہ کو توڑ نہیں سکے ۔ انہوں نے اس مصرع پر بات ختم کی خون پھر خون ٹپکے گا تو جم جائے گا ۔آخر میں دستور کی تمہید پڑھ کر سنایا گیا اور شرکاء نے اس کو دہرایا ۔ راشٹریہ گیت گایا گیا ۔

پروگرام میں بی جے پی کو چھوڑ کر سبھی سیاسی جماعتوں کے مقامی قائدین،مختلف این جی اوز کے زمہ داران ،بڑی تعداد میں ڈاکٹر حضرات،وکلاء،سوشل موجود تھے ۔ شرکاء میں سبھی مذاہب کے لوگ تھے۔ اسٹیج پر سکھ برادری اور عیسائی مذہب کے مذہبی رہنما موجود تھے ۔ جلسہ کی صدارت مقامی رابطہ کار ڈاکٹر نے کی۔ جلسہ میں ہزاروں کی تعداد میں مردوخواتین موجود تھیں ۔ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!