سماجیسیاسیمضامین

پھر بھی اُمید کے گلشن کو سجانا ہوگا۔۔۔

تحریر: عاصم طاہر اعظمی


26/ جنوری آزاد ہندوستان کی تاریخ کاایک یادگاردن ہے آئین یا دستورِ ہند کے نفاذ کی سالگرہ پورا ملک ہر برس 26؍ جنوری کو نہایت تزک واہتمام کے ساتھ مناتاہے یومِ جمہوریہ دراصل دستور پر مکمل دیانتداری کے ساتھ عمل درآمد اور آئین کی برقراری و بالادستی کے عزم و عہد کا دن ہے گزشتہ 7 عشروں کے دوران آئین ہند پر مکمل دیانتداری و غیرجانبداری کے ساتھ عمل تو نہیں ہوالیکن سیکولر آئین پر کبھی آنچ نہیں آئی ، مگر آج پورا ملک یومِ جمہوریہ اس وقت منارہاہے جب آئین و دستور کو شدید خطرات لاحق ہیں ملک ایک ایسے وقت میں آئین کے نفاذ کا جشن منارہاہے کہ جب آئین شکنی عروج پر ہے ، یہاں تک کہ آئین میں تبدیلی بلاخوف تردد علی الاعلان کی جارہی ہیں.

سنگھ پریوار سیکولرہندوستان کو ’ ہندو راشٹر‘ میں تبدیل کرنے کا برسوں سے خواب دیکھ رہا ہے سنگھ پریوارکواپنے خواب کی تعبیر قریب تر نظرآرہی ہے یہ اس کا فریبِ نظر ہے یا خام خیالی، اس سے قطعِ نظر یہ کہنا مشکل نہیں کہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی چھ سالہ دورِ اقتدارمیں دستور سے چھیڑ خانی کررہی ہے بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسی دستور پرحلف اٹھایا تھا اور ملک سے یہ وعدہ کیاتھا کہ دستورِ ہند اس کیلئے مقدم و برتر ہے ۔ دستور ہند کی روشنی میں ہی امورِحکمرانی انجام دیئے جائیں گے لیکن بی جے پی نے اپنے ہر وعدے کی طرح اس وعدہ سے بھی انحراف کررہی ہے گزشتہ چھ برسوں کے دوران اقتدارکے ایوانوں سے ہی آئین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، تماشہ تو یہ ہیکہ آج پھر اربابِ اقتدار جمہوریت اور آئین کی دہائی دیں گے آئین کی بالادستی و برتری کی کے وعدے کریں گے لیکن جب قانون ساز خود ہی قانون شکنی کرنے لگیں تو ملک دشمن طاقتوں کو قانون شکنی سے کیسے روکاجائے گا ؟کہاجاسکتاہے کہ آزادی کے 71 سال بعد آج عوام جشن وخوشیاں منائیں کیونکہ وہ حقیقی طورپر آزادی اور معاشی مساوات سے ہمکنار ہے؟ حقیقت ِ حال یہ ہے کہ عام آدمی حسب سابق ذلت کے گہرے غار میں پڑا ہوا استحصال گراں بازاری اوربے نوائی کے سبب کراہ رہا ہے خدا را بتایئے کہ اس ناگفتہ بہ صورت حال کوخوش حالی اور فارغ البالی سے کیسے منسوب کیاجاسکتاہے؟

ہاں! اقتدار کے  نیتا اگر کانٹوں کو پھول اور مشکلات ومصائب کو راحتیں قرار دیں تو بھی امرواقع یہی ہے کہ لوگ در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، ہندوستان ایک مختلف القومیتی ملک ہے جس میں مختلف مذاہب اور عقائد رکھنے والے لوگ صدیوں سے حب الوطنی کے بے لوث جذبے کے ساتھ رہتے بستے ہیں اس ملک کااتحاد، سا لمیت ، یگانگت صحیح معنوں میں اس وقت قائم رہ سکتی ہے جب یہاں حقیقی معنو ں میں جمہوری نظام قائم ہو، تمام مذاہب اور عقائد وافکارکو تحفظ حاصل ہو، ہر نسل اور زبان وثقافت کو پھلنے پھولنے کی راہیں ہموار ہوں تو پھر ملک کی جمہوریت اور آزادای کے کیا کہنے ! اس کے برعکس جب کہ چھوٹی قومیتوں اور دیگر اقلیتوں کے آئینی وانسانی حقوق پامال کرکے عملاً وحدانی طرز حکومت قائم کردیاگیاہے، جس سے سب مالیات اور ذرائع مرکز کی تحویل میں ہیں اور ریاستیں مرکز کی دست ِ نگرہیں، مذہبی اقلیتوں میں احساس عدم تحفظ پایا جائے اور وہ بوجوہ خوفزدہ اور دبے کچلے ہوں، کرسی کے لئے ضمیروں کو بیچ کھا نے والے حکمرانوں نے اپنے  سیاسی اغراض کے لئے پورے ملک کو ذات برادریوں میں تقسیم کررکھاہو کہ جس سے قومی یکجہتی بھی خطرے میں ہے، اس تناظر میں 26 جنوری کی خوشیاں ایک بے سمت سفر اور ایک بے مقصد اچھل کود ہے یہ الگ بات ہے کہ اقتدار رکھنے والے اپناالو سید ھا کر نے کے لئےگلا پھاڑ پھاڑ کر قومی اتحادکے ڈنکے بجاتے رہیں۔

دنیا جانتی ہے کہ اس ملک میں انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں، شہری آزادیاں غارت ہورہی ہیں اور آزادی تحریر و تقریر کی نفی ہورہی ہیں،معصوم وبے گناہ لوگ دن دہاڑے مارے جارہے ہیں، بے گناہ تختہ مشق بن رہے ہیں اور مجرموں کو خود غرضانہ سیاست کی چھتر چھا یا حاصل ہونے کی بنا پر حکام کی زبانوں پرتالے، آنکھوں پر پٹیاں اور ضمیروں پر بےپرواہی کی دھول جمی ہوئی ہے۔ ایک جانب منظر نامہ یہ ہے اور دوسری جانب سخت گیرانہ کالے قوانین دھڑا دھڑ بنائےجارہے ہیں۔ یہ سب ان خوابوں کی نفی ہے جوعوام نے انگریز سامراج کے خلاف دیوانہ وار جد وجہد کے دوران دیکھے تھے۔ سیاسی ومعاشی آزادی کی حقیقی منزل پر پہنچنے، ملک میں خوشحالی لانے اور قومی یکجہتی قائم کرنے کے لیے آر ایس ایس اور ہندو راشٹر کی ذہنیت کوتوڑنا اشد ضروری ہے۔

جب تک ملک ان کی گرفت سے آزاد نہیں ہوتا تب تک آزادی اورجمہوریت کاگن گانا بے معنی ہے،یاد رکھیے آپ جس ملک کے شہری ہیں دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے ایک ارب 30کروڑ شہریوں کے ساتھ دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی والی ریاست ہے۔اس کے مسائل کی طویل فہرست ہے۔ ایسے میں اس بات کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے کہ ملک کو بنیادی ترقی کی راہ سے ہٹاکر جنگ کے میدان میں جھونک دیا جائے۔ جنگوں سے کبھی مسائل حل نہیں ہوئے بلکہ انسانی بحران میں اضافہ ہوا۔آج ہمارے ملک میں چاروں طرف بے ایمانی رشوت خوری اونچ نیچ عدم مساوات تشدد وفرقہ واریت جمہوریت کا فقدان ہی نہیں بلکہ قحط ہے، غریب مسلمان و دلت پر ظلم کیے جانے والے قانون آئے دن منظور ہورہے ہیں، جن میں اقلیت اور دلت کے جان مال غیر محفوظ ہیں، سپریم کورٹ کا بھی اصل چہرہ لوگوں سے بے نقاب ہوچکا ہے مذہب کے نام پر سیاست اور سیاست کے نام پر مذہب اور مذہبی عمارتوں کومخدوش کیا جارہا ہے.

آج ہم عہد کریں کہ اخلاقیات اور مذہب و سیاست کے حدود میں رہتے ہوئے اسلاف کے دیکھے ہوئے خواب کو شرمندہ تعبیرکرینگے۔ایسے ناگفتہ بہ حالات میں بس اب یہی کہا جا سکتا ہے کہ ملک کے سیکولر لوگ پوری طاقت سے سامنے آئیں اور ملک کو، ملک کے آئین اور اس کی جمہوریت کو فرقہ پرستوں سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ ملک اس وقت ایک ایسے دو راہے پر کھڑا ہے، جہاں سے اسے صحیح راہ کی طرف موڑنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔ اگر فرقہ واریت اور منافرت کی راہ پر مُڑ گیا تو ہم کف افسوس ملتے رہ جائینگے۔
ہم نے مانا کہ بہت عام ہے نفرت کا چلن
ہم نے مانا کہ ستم ساز ہے اندازِ چمن
ہم نے مانا کہ لہو رنگ ہے دامانِ وطن
ہم نے مانا کہ ہر اک سانس ہے اندوہ و محن
پھر بھی امید کے گلشن کو سجانا ہوگا
جشنِ جمہور بہر طور منانا ہوگا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!