یوم جمہوریہ 26/جنوری کو سنوِدھان ریالی نکالی جائے
عبداللہ رضا
26/جنوری 2020 کو بھارت کا 71 واں یوم جمہوریہ منایا جائے گا۔ اسکول کالجس اور تمام سرکاری و دیگر دفاتر میں یوم جمہوریہ کے ضمن میں پرچم کشائی کی تقریباً تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ ملک کے موجودہ حالات سے ہر کوئی واقف ہے۔ آئے دن ایک نئے فتنے کا وجود ہو رہا ہے۔ ملک کی موجودہ صورتحال کا طائرانہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو آج ملک کو روزگار کی سخت ضرورت ہے۔ آج سے 20سال قبل بھی ہمارا ملک ترقی پذیر تھا اور آج بھی ترقی پذیر ہی ہے۔ حالانکہ 2020 کے مشن کی رو سے اب تک ہمیں ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جانا چاہئیے تھا۔ لیکن نہیں ہو سکا۔ ملک کو آج غربت سے چھٹکارا دلانا وقت کی سب سے اہم پکار ہے۔ ملک کی معیشت شب و روز زوال پذیر ہوتی جارہی ہے۔ معیشت کو مضبوط کرنے کے اقدامات کرنے بھی نہایت ضروری ہے۔ مجھے جوہر کانپوری کی نظم یاد آرہی ہے۔
ایسا ماحول بناؤ کہ فسادات نہ ہو
ہم نے کل تک جو گذارے ہیں وہ حالات نہ ہو
یہ فسادات ترقی نہیں ہونے دیتے
کچی دیوار کو پکی نہیں ہونے دیتے
ایسے ماحول میں یہ ملک تو مر جاۓ گا
پھر غریبی کے سمندر میں اتر جاۓ گا
دوسری طرف سپریم کورٹ کا رویہ کسی سے چھپا چھپایا نہیں ہے۔ ہر ایک بڑے فیصلہ کو یکطرفہ نظریہ میں پرویا جا رہا ہے۔ ملک کی ترقی کی رفتار کمزور ہورہی ہے۔ ایسے حالات میں حکومت کے اقدامات اور پالیسیاں کیا ہونی چاہئے یہ عام شہری بتا سکتا ہے لیکن سب بے سود۔
26 جنوری 2020 کو ہم ہمارے ملک کے دستور کا جشن یوم جمہوریہ منانے جارہے ہیں اور اس کے برعکس پر فتنہ ذہنیت رکھنے والے اسی دستور کی دھجیاں بڑے دھڑلے سے اڑا رہے ہیں۔ دستور کی اہمیت اور وقار کو تار تار کیا جارہا ہے۔ ہمیں جس دستور پر ناز ہے اب اسی دستور کا خاتمہ ہوتے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ وقت کے فرعون شاید اس فرعون کی تاریخ کو بھلا بیٹھے ہیں جو نشان عبرت بنا ہوا ہے۔
ہم نے جس دستور کو اپنے اوپر نافذ کرنے کا عہد لیا ہے ایسے حالات میں ہماری اولین ذمہ داری ہے کہ اس دستور کی حفاظت کرنا چاہئے اور اس پر آنے والی آنچ کو سرے سے ختم کرنا ہوگا۔ 26 جنوری یعنی یوم جمہوریہ کے دن میں ملک کے ہر ایک شہری سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اسکول، کالج اور تمام دفتروں میں جہاں جہاں پرچم کشائی ہوگی وہاں ضرور شرکت کریں اور اسکول و کالج کے بچوں کے ساتھ ریلی میں شامل ہو کر ان کی ریلی کو سنوِدھان ریلی بنائے۔ یہ ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ انفرادی طور پر دستور کا مطالعہ ضرور کریں اور اپنے حق اور انصاف کی خاطر اپنے بنیادی حقوق کا استعمال کریں۔
دستور کو بچانے کے لئے صرف دو تین گھنٹوں کا وقت نکال کر ملک گیر سطح پر سنودھان ریلی میں اپنی حاضری درج کرائیں اور حکومت کو یہ احساس دلائے کہ ہم اسی دستور کے ماننے والے ہیں جو ہمارے عظیم رہنماؤں نے ہمیں دیا تھا۔ اسی کے ساتھ ایک بہت ہی اہم اور لازمی گذارش یہ کرنی ہے کہ جس طرح ایک جگہ متحد ہو کر سیاہ قانون کی مخالفت ہم نے کی یا کر رہے ہیں وہ بھی جاری رکھیں ساتھ ہی ساتھ قانونی مشیروں سے بار بار صلاح لیتے رہے کہ کس طرح ہم اپنے بنیادی حقوق کا استحصال نہیں ہونے دے سکتے۔ اگر تمام جماعتیں ملی، سماجی، سیاسی، فلاحی و بہبودی تنظیمیں قومی بار کونسل سے قانونی امداد مانگیں تو میرے خیال میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔