ضلع بیدر سے

بسویشور کی فلاسفی کے مطابق CAA کی مخالفت ضروری ہے: گندھرواسینا

بیدر: 23/جنوری (وائی آر) بیدر میں ہمہ لسانی مشاعرہ کیاجاسکتاہے لیکن ”دستور بچاؤ“ کے موضوع پر ہمہ لسانی مشاعرہ ایک مشکل کام ہے۔ کیونکہ اس موضوع پر سوچنے والے شعراء کم ہیں۔ حالانکہ اسی بیدرمیں 50-50اور 60-60 کتابوں والے شاعر بھی مل جاتے ہیں لیکن کتابیں شائع کرنے کا انھوں نے دھندابنالیاہے۔ ”دستور بچاؤ“ یا شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کرنے والے شعراء کی تعداد انگلیوں پرگنی جاسکتی ہے۔ اور لوگوں کی طرح شعراء بھی ہمت نہیں کررہے ہیں۔ لنگایت طبقہ کی مثال دی جاسکتی ہے کہ بسونا کی فلاسفی کے مطابق CAAکی مخالفت ضروری ہے لیکن یہ طبقہ خود کو بی جے پی کا ہمنوایا اہل اقتدار طبقہ تصور کرتاہے اور ابھی تک کوئی صاف وشفاف Statement ان کی جانب سے نہیں آیاہے۔ یہ باتیں ممتاز ادیب اور سینئر صحافی جناب گندھروا سینا نے کہیں۔

وہ کل شب مسیح الدین احمد قریشیہ الماس میموریل ہال، تعلیم صدیق شاہ بیدر میں منعقدہ تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ انھوں نے”ہمہ لسانی مشاعرے“ کے لئے تجاویز پیش کرتے ہوئے کہاکہ سب سے پہلے ہم اردو، کنڑا، ہندی، انگریزی، مراٹھی شعراء کے گھر جائیں، ان سے ملاقات ہواور ان سے مذکورہ موضوع پر لکھنے کی گذارش کریں۔ اگر وہ تیار ہوتے ہیں تو پھر ہمہ لسانی مشاعرہ بھی جاندار ہوگا۔ لکھنے پڑھنے والوں میں پہلے بیداری لاناضروری ہے۔ ایک بروشر بھی اس کے تعلق سے بنایاجاسکتاہے۔

جناب گندھروا سینا نے انکشاف کیاکہ وزیر اعظم مودی کو سپورٹ کرنیو الے بھیCAAکو لے کر اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ CAAدراصل مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈال کر ہندوؤں کوموبالائز کرکے حکومت کرنے سے بھی آگے کی کوئی چیز ہے جو فی الحال مودی وادیوں کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ CAAکے ذریعہ سے دستور ہند میں تبدیلی کے لئے ایک کھڑکی کھلی ہے۔ کل یہ کھڑکی دروازہ اور پھاٹک بن سکتی ہے۔ بھارت میں تاناشاہی نہیں ہے۔ چیک اینڈ بیلنس کانظام یہاں موجودہے۔ لیکن یہ ایک تاریخی موومنٹ ہے اس میں تمام زبانوں کے شعراء کا کردار بھی تاریخی ہونا چاہیے۔ تقریب کے مہمان خصوصی مولانا محمد ابرارخان انجینئر نے بتایاکہ انسان کو زندگی میں دو ہی خوف ہوتے ہیں۔ ایک جان جانے کاخوف۔دوسرا مال کے ختم ہونے کاخوف، اس خوف سے بالاتر ہوکر ہی کسی انقلابی تحریک کاساتھ دیاجاسکتاہے۔ یااس میں شامل ہواجاسکتاہے۔

جناب عظیم بادشاہ (بھالکی) نے تجویز پیش کی کہ بڑے پروگرام نہ کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے پروگرام کئے جائیں۔ پھر ایک بڑا مشاعرہ مدرسہ محمودگاوان ؒ یاکسی اسکول کے میدان میں ہوسکتاہے۔اردو صحافی جناب عبدالصمدمنجووالا نے مشورہ دیاکہ CAAسے متعلق بیداری پیدا کرنے کیلئے طلبہ تک پہنچاجائے۔ انھیں ان کے کالج / ہائی اسکول میں بتایاجائے کہ یہ قانون کس قدر مضر ہے۔ جناب موہن راؤ مؤظف ہیڈ ماسٹر نے کہاکہ جتنی سکت ہے اتناہی کام کیاجائے۔کسی بھی چیز کا نالج سب سے پہلے ضروری ہے۔ یوواٹیم کے نوجوان ساتھی دلیپ کاخیال تھاکہ لکھنے پڑھنے کی بات اہم ہے۔ صرف زبانی بات کرنا درست نہیں۔ ہماری ٹیم آپ کاساتھ دے گی۔

جناب گندھروا سینا نے اپنی صدارتی تقریر کے آخر میں کہاکہ ہندوستان کے 40/کروڑ افراد ایسے ہیں جو اپنامقام اور اپنی ریاست چھوڑ کر دوسری ریاستوں میں روزگار (چھوٹی موٹی نوکری /حمالی وغیرہ)کے حصول کے لئے رہ رہے ہیں۔ایسے 40کروڑافراد پر NRC-CAAکے ذریعہ آفت آنے والی ہے۔ دوسری جانب ایک عرصہ بعد یہ بات بھی سامنے آسکتی ہے کہ ہندومسلم علیحدہ کردئے گئے ہیں یا CAAٹھنڈے بستے میں چلاگیاہے۔ موصوف نے مسلم شعراء اور ادیبوں کو صلاح دی کہ وہ OBC اور دلت قلمکاروں کو اپنے سے قریبکریں۔ محمدیوسف رحیم بیدری نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔ اردومعلم جناب انصار بیگ، اردوصحافیوں میں جناب سیدیداللہ حسینی اورجناب اختررحمن و دیگر شریک اجلاس رہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!