اب جَاگ اُٹھے ہیں دیوانے، دُنیا کو جَگا کردم لیں گے!
محمد قاسم، ٹانڈؔوی
جس ہائی لیول انداز سے 22/جنوری کو ملک کی عدالتِ عظمیٰ (سپریم کورٹ) کی تین رکنی بنچ نے مجوّزہ شہرِیت ترمیمی قانون پر کسی بھی طرح کی پابندی عائِد کرنے سے متعلق پیش کی گئی عرضِیوں پر جانِبدارانہ فیصلہ سنایا کہ: “مرکزی حکومت کے لائے گئے بِل پر پابندی عائد نہیں کی جاسکتی اور اس نے مرکزی حکومت کو 4/ہفتوں کا وقت دیتے ہوئے، معاملہ کو پانچ رکنی بنچ کے حوالہ کر دیا ہے۔”عدالتِ عظمیٰ کے اس اِقدام سے ملک کے عوام خاص طور پر مسلمانوں میں جہاں ایک طرف رنج و مایوسی کا اِظہار کیا گیا وہیں احتجاج و مظاہرہ کر رہے لوگوں کے مابین مزید ہِمّت و مردانگی اور نئے جوش و خروش کے ساتھ بِلوں کی تا دم واپسی میدان میں ڈٹے رہنے کا عزم مصمم بھی دیکھنے کو مِل رہا ہے۔
ویسے اِس قسم کے فیصلوں کو سن کر کسی بھی طرح ہمیں احساسِ کمتری کا شکار یا رنج و غم میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایسے تمام مواقع پر ہمیں فیصلہ سننے کا عادی اور خود کو پہلے سے زیادہ تیار رکھنا چاہیے۔ کیوں کہ ماہرینِ قانون اور میدانِ سیاست و صحافت کے داؤ پیچ سے واقف کاروں نے عدالت میں پیش کردہ عرضیوں کے سلسلے میں اسی وقت انکشاف کر دیا تھا جب اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں بی جے پی کی طرف سے بِلوں کی حمایت میں منعقد کی جانے والی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِداخلہ ‘امت شاہ’ نے کہا تھا کہ: “جسے احتجاج کرنا ہے کرے، بِل واپس ہونے والا نہیں ہے”۔
حمایتی ریالی سے ڈنکے کی چوٹ پر وزیرِداخلہ کا یہ اعلان، کیا ان تمام اعلانات کی طرح نہیں تھا جیسا کہ اس سے پہلے بھی متعدد مواقع پر حکومت نے پہلے اپنی من مرضی کے مطابق قانوبنائے اور پھر غیر آئینی طور پر ان کو عوام پر تھوپ دئے گئے، نوٹ بندی، جی ایس ٹی، آرٹیکل 370/کی منسوخی، طلاقِ ثلاثہ پر قانون سازی اور بابری مسجد کی ملکیت پر ہونے والے غیر منصفانہ عدالتی حکم وغیرہ اس کا بیِّن ثبوت ہیں اور جب عوام کا ایک طبقہ یا کوئی اِدارہ آئین و دستور کی دھائی دینے اور ملک کے عوام کو انصاف دلانے عدالتوں کی دہلیز تک گئے تو ان کو سِوائے رنج و غم اور مایوسی کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔
جن کے ردِّعمل میں اسی وقت سے پوری دنیا ہمارے پیارے وطن ملکِ ہندوستان کے داخلی خارجی معاملات پر نہ صرف گہری نگاہیں مرتکز کیے ہوئے ہے بلکہ پوری دنیا اسی وقت سے ہمارے عدالتی نظام اور حکومت کے کام کاز کے طریقوں اور اس کے نتائج و عواقب پر سخت تنقید و تشویش کا اظہار بھی کر رہی ہے۔ لہذا موجودہ مایوس کن حالات سے اہلِ حق افراد کو اور ان لوگوں کو جو آئین و دستور کی حِفاظت کےلئے سینہ تانے میدانِ عمل میں جگہ جگہ احتجاج و مظاہرہ کر رہے ہیں اور بد ترین حکومت کے دور کو بہترین نظام اور ایّام میں تبدیل کرنے کی کوشش و جستجو کر رہے ہیں، انہیں کسی سے ڈرنے یا بدظن ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ جن لوگوں کی نظریں بین الاقوامی میڈیا اور انگریزی اخبارات و رسائل پر ہیں وہ جانتے ہیں کہ آج کل کے تمام اِنگلش اخبارات کے اِدارِیوں اور ان کے خاص مضامین میں ملکِ ہندوستاں کی بابَت انہیں چیزوں کو مدعیٰ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور لکھنے والے عالمی برادری کو ہندوستان کے موجودہ حالات کے تئیں کس انداز سے باخبر اور بیدار کر رہے ہیں؟
اس لیے ہم نے اوپر کہا ہےکہ ہمیں کسی طرح کے رنج و غم اور صدمے سے دوچار نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہر ایسے فیصلے کے بعد اپنے اندر پہلے سے زیادہ مضبوطی، اور برداشت کا مادہ پیدا کرکے جواں مردی اور عزمِ مصمم کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ہمیں فخر ہے اور ہم سلام پیش کرتے ہیں قوم کے ان نوجوانوں اور تمام ماؤں بہنوں کے جذبۂ صادِق اور عزم و حوصلوں کو جو گذشتہ چھ ہفتوں سے دہلی کے شاہین باغ میں مرکزی حکومت کی طرف سے لائے گئے سِیاہ بِلوں کی مخالفت میں سراپا احتجاج بن کر رات و دن ایک کئے ہوئے ہیں۔ جن کی حمایت و ہمدردی اور تقوِیت کی خاطر ملک میں چالیس سے زائد مقامات پر مرد و خواتین اور ہر طبقہ و برادری سے منسلِک افراد جن میں بزرگ بھی ہیں، نوجوان بھی ہیں اور تو اور اپنے معصوم نونہالوں کو چھاتی سے چمٹائے عورتوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے جنھوں نے اقتدار کے نشے میں دٌھت حکومت کو متنبہ کرنے اور اور ان سیاہ بلوں کی واپسی کےلئے اپنی قوم کے مردوں کی آواز میں آواز ملا کر آئین و دستور کی حفاظت کی قسم کھائی ہے۔
شہرِیت ترمیمی قانون پر عدالت کا یکطرفہ فیصلہ آنے پر بہ حیثیتِ ہندوستانی ہمیں شاہین باغ میں موجود شاہین صفت باہمت و حوصلہ مند خواتین کے اس اعلان پر فخر ہےکہ ‘وہ اپنے احتجاجی سلسلے کو جاری رکھیں گی’۔کہتے ہیں کہ مخالفت کی لہریں جتنی زیادہ تیز اور مظاہرین کی آوازیں جتنی زیادہ شِدّت اِختیار کرتی جاتی ہیں، حق و انصاف کی لڑائی میں عوام کا ساتھ اور بھی زیادہ حاصل ہوتا چلا جاتا ہے، جس کا نتیجہ اور انجام حق کی فتحیابی اور باطل کی شکست پر منتہا ہوتا ہے اور اس قول کو ثابت کر دکھایا ہے شاہین باغ سے اٹھنے والی حق و صداقت کی تحریک اور لڑائی لڑرہے عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے جو کہ آج کی تاریخ میں ملک کے طول و عرض میں پھیل چکی ہے اور دن بدن اس لڑائی میں ہر طبقہ اور پیشہ سے وابستہ لوگوں کو شمولیت اختیار کرنے پر حوصلہ دِلا کر ببانگِ دہل موجودہ تاناشاہی حکومت کو بحث اور ڈبیٹ کرنے کی دعوتِ سخن دے رہی ہے، احتجاج و مظاہرہ کی اس چنگاری نے جو 47/دن قبل دہلی کے شاہین باغ میں سٌلگی تھی اس نے آج شعلہ جِوالہ بن کر پورے ملک کو اپنی چپیٹ میں لے رکھا ہے جس کے بےغرض و بےلوث، خود غرضی اور ذاتی مفادات سے دور شرکاء کا یہ عزمِ مصمم ہے کہ:
ہرسِمت مچلتی کِرنوں نےافسوںِ شبِ غم توڑ دیا
اب جاگ اٹھے ہیں دیوانےدنیا کو جگا کردم لیں گے