احساس کمتری ایک مرض ہے
زین العابدین ندوی، مہاراشٹر
نتائج اور مرتب ہونے والے اثرات پر نظر رکھے بغیر کسی نئی چمچماتی ہوئی چیز کا دیوانہ ہو جانا اور اپنے پاس موجود قیمتی اثاثہ کو حقیر اور بے قیمت سمجھنا احساس کمتری کہلاتا ہے ،یہ وہ مرض ہے جس کی لت لگ جانے کے بعد انسان سب سے پہلے خود اعتمادی کے جوہر سےہاتھ دھوتا ہے ، اور پھر اپنی نظروں میں ہی بے وقعت ہو جاتا ہے ،احساس کمتری کی مثال گھن کی سی ہے جس کے اثر سے انسان اندر ہی اندر مرجھا نے لگتا ہے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اپنے ہی ہاتھوں جنازہ نکال دیتاہے ، اسی کو دوسرے الفاظ کے سہارے متاثر ہونا اور مرعوب ہوجانا کہا جاتا ہے ،اور یہ سب خود علم کی کمی اور اعتماد کے فقدان کے سبب ہوا کرتا ہے ، جس کا مشاہدہ ہم آئے دن کر رہے ہیں ۔
ہر چمکتی چیز کا لٹو ہو جانا جہاں ایک طرف انسان کی طبیعت کی عکاسی کرتی ہے وہیں دوسری جانب اس کی بے ثباتی کا بھی پتہ دیتی ہے ، میں یہ نہیں کہتا کہ کسی کی تقلیدکرنا کوئی گناہ اور حرام عمل ہے ، نہیں بالکل نہیں بلکہ خذ ما صفا دع ما کدر کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے اچھی خصلتوں اور خوبیوں کو اپنانا مستحسن عمل ہے، لیکن اس سلسلہ میں بالکل اندھوں بہروں کی طرح کسی چیز پر بلا سوچے سمجھے ٹوٹ پڑنا اور اس کو اختیار کرنے کی ضد کرنا ایک احمقانہ حرکت ہوگی ، اور پھر اس مہلک مرض میں ملوث ہو جانے کےبعد خود کو مہذب اور اپنے علاوہ کو غیر مہذب سمجھنا انتہائی گھٹیا سوچ وچار کی دلیل سمجھی جائے گی ، اور خدا نخواستہ اگر یہ مرض ان مراکز میں سرایت کر جائے جہاں خودی کا درس دیا جاتا ہے اور تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے دعوے کئے جاتے ہیں تو یہ بات بآسان سمجھ لینی چاہئے کہ پھر وہاں سے خیر کے بجائے شر کا وجود یقینی ہے ۔
انسان کو سب سے پہلے اپنے آپ کو پہچانتے ہوئے اپنی ان خوبیوں پر نظر رکھنی چاہئے جس کو اللہ نے ودیعت فرمائی ہے ، اور اور یہ حقیقت کبھی بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ اس کا خالق ایسی عظیم ہستی ہے جس کے علاوہ دنیا میں نہ کوئی ذات لائق رعب ہے اور نہ ہی لائق تعظیم ، انسا ن کو سب سے پہلے اس مالک کی ذات و صفات سے متاثر ہونا چاہئے اور جبہ ودستار عمامہ وپائجامہ کرتا وٹوپی اور لمبی لمبی داڑھیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے نازل کردہ نظام کو اپنانے والوں کی قدر کرنی چاہئے ، ظاہری بود وباش عارضی رنگ وبو سے متاثر ہونا کہیں نہ کہیں ایمان کے نقص کی بھی ایک کھلی دلیل ہے ، کیوں کہ مومن غیر اللہ سے نہ تو مرعوب ہوتا ہے اور نہ ہی خوف زدہ البتہ حکمت کا دامن تھامے ہوئے خذ ماصفا پر کاربند رہتا ہے ۔
احساس کمتری کا وجو د ایک دن کانتیجہ نہیں ہوا کرتا بلکہ اس میں ایک عرصہ کا اثر شامل ہوتا ہے ، ماں باپ کی تربیت سرپرستوں کی نگرانی ، ذمہ داروں کی نظروں کا اس میں خاصا دخل ہوتا ہے ، اس لئے ہمیں نہ تو کسی پیر کی دستار سے متاثر ہونا چاہئے اور نہ ہی کسی کوٹ پینٹ اور ٹائی سے مرعوب ہونا چاہئے ، بلکہ توازن برقرار رکھتے ہوئے خذ ما صفا دع ما کدر پر کاربند رہنا چاہئے ، اور کسی بھی چیز کو قبول کرنے میں اندھے بہروں کی طرح ٹوٹ پڑنے سے احتیاط کریں ۔