تعلیمیمضامین

سرکاری اُردو مدارس واساتذہ کا پرسانِ حال کون!

سید عرفان اللہ، بنگلورو

آج کے اس طوفافی برقی و مواصلاتی دور میں جب ہم اپنی جگہ سے بنا گردش کئے اپنی آواز یا خود کی تصویر یا ویڈیو دنیا کے دور درازعلاقوں میں پلک جھپکتے بھیج دیتے ہیں اور پھر روزانہ میلوں دور بیٹھے اپنوں کو دیکھتے ہوئے ایسے بات کرتے ہیں گویا وہ ہمارے بالکل سامنے میں بیٹھے ہیں۔ زمانہ نے بہت ہی تیز رفتاری کے ساتھ ایسی کروٹ بدلی کے لوگوں کو سمجھنے سے پہلے دوسری نئی چیز سامنے آکھڑ ی ہوتی ہے۔ اس مصروف اور تیز رفتار دنیا میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو بے لوث اور خدا کی رضا اور ان شا اللہ آئندہ کچھ بہتر ہوگا کی امید پر اپنے کام میں مشغول ہیں۔ ایسے ہی کچھ لوگوں سے میری ملاقات کچھ دن قبل ہوئی۔

پوری بات یوں ہے کہ سرکاری مدارس میں پری پرائمری یا نرسری کا نظم نہیں ہوتا ہے۔ یہاں پہلی جماعت سے ہی داخلہ شروع ہوتا ہے جس کے لئے طالبِ علم کی عمر ۵ سال ہونا لازمی ہے۔ مگر غیر سرکاری مدارس میں ۲ سے ۳ سال کی عمر کے بچوں کو Kinder Garden یا پھر Baby Sitting اور نہ جانے کن کن ناموں سے مگر اسکول میں داخلہ مل جاتا ہے اور یہاں چھوٹے چھوٹے بچوں کو انگریزی نظمیں اتنی دلکش انداز میں سکھائی جاتی ہیں کے وہ بالکل طوطے کی طرح اس کو یاد کر لیتے ہیں اور پھر کیا نانا، نانی، دادا، دادی، پھوپھو اور خالہ بار بار بچوں کو انگریزی نظمیں سنانے کے لئے تحفہ وغیرہ بھی دیتے ہیں اس سے ہوتا یہ ہے کہ کمسنی سے ہی معصوموں کے ذہنوں میں انگزیزی تعلیم اور روایت پوری طرح گھیر لیتی ہے اور بچے اسلام اور دین سے دور ہوتے جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ جس مادری زبان میں وہ گھر اور رشتہ داروں سے ہم کلام ہوتے تھے اسے یکسر نکارتے چلے جاتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ہم بچوں کو اس عمر میں اردو زبان اور دینِ اسلام کی تعلیم دینا شروع کریں تو ان شا اللہ یقینا بچے صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ ادب اور اسلام دونوں کو بہ آسانی سمجھ سکیں گے۔

اس لئے ایک کوشش یہ کی گئی کہ کیوں نہ اردو مدارس میں آنگن واڑی جو غیر اردو مدارس میں چل رہے ہیں جیسے کنڑا یا ہندی میں ان کو اردو مدارس میں بھی شروع کیا جائے مگر حکومت کسی کی بھی ہو اردو کے ساتھ سوتیلا برتاؤ کرتی آئی ہے۔ کسی بھی حکومت نے اس طرف نہ دھیان دیا اور نہ ہی نام نہاد اردو والوں نے اس سلسلہ میں ایسی کوئی تحریک ہی چلائی جو کارآمد ثابت ہو۔ خیر پھر ہوا یہ کہ کچھ وظیفہ یاب پرنسپل اور اساتذہ نے یہ سوچا کیوں نہ ہم اپنے طور سے اس سلسلہ کا آغاز کریں اور اردو مدارس میں اردو آنگن واڑی یا پھر پری پرائمری نظام کا انتظام کیا جائے۔

اس سلسلہ میں کرناٹک اردو اکادمی سے بھی رجوع کیا گیا اور الحمد اللہ اکادمی سے اب تقریباً 50 اردو مدارس میں یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور بہت ہی کامیاب بھی ثابت ہو رہا ہے۔ جہاں پہلے پہلی جماعت کے لئے بہ مشکل 10 سے 15بچے ملنا مشکل تھے اب الحمد اللہ 50 سے زائد کی تعداد ہے۔ اب اس کامیاب تجربہ کے بعد دوسرے اضلاع اور تعلق میں بھی اسی طرح کے نظام کی کوشش کی جارہی ہے۔ میں جب بھی اکادمی کے کسی پروگرام میں جاتا ہوں تو اکثر سرکاری مدارس کا دورہ بھی ضرور کرتا ہوں اور کوشش یہ کرتاہوں کے وہاں کے ماحول، بچوں اور اساتذہ کے تعلق سے معلوم کیا جائے۔اسی سلسلہ کی ایک کڑی کے طور پر میں شمالی کرناٹک میں ایک علاقہ ہے ڈانڈیلی کا غیر دفتری دورے پر گیا تھا۔

یہاں کے اساتذہ اور علاقہ کے منتظمین اور احباب نے مجھے کئی بار دورہ کرنے کی خواہش کی تھی تو موقع اور وقت دیکھ کر میں ڈانڈیلی کے لئے نکل پڑا یہاں کل آٹھ اردو مدارس ہیں جس میں پری پرائمری کی طرز پر ہر معلمہ اپنا کام انجام دے رہی ہے۔ مگر افسوس اور صد افسوس کے ان اساتذہ کو کوئی بھی معاوضہ نہیں مل رہا ہے۔ کچھ ایک اسکول میں کچھ رقم مگر بے ترتیب مل بھی رہی ہے تو وہ ان مدارس کے سرکاری اساتذہ کی جیب سے مل رہی ہے۔اور یہ صرف ایک تعلقہ کا قصہ نہیں ہے پوری ریاست اور پورے ملک میں ایسے کتنے ڈانڈیلی ملیں گے پتہ ہی نہیں اس جانب کسی تنظیم یا ادارے کا اس میں کوئی رول ہی نہیں اور اب یہ لوگ بھی ہمت ہارنے کے بالکل قریب ہوگئے ہیں۔ بات بھی صحیح ہے کب تک آخر کب تک یہ سب چلنا ہے۔ کیا حکومت کی جانب سے اس طرف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جا سکتا ہے؟ یا پھر کوئی ین. جی.اوز یا اردو کے نام پر پروگرام کرنے والے یا پھر اپنے آپ کو مجاہدِ اردو کے لقب سے گردانے والے اس جانب ٹھوس اقدام کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔؟

میری نظر میں اس کا حل بلکل ممکن ہے اگر حکومت کنڑا آنگن واڑی کی طرز پر ریاست کی تمام اردو مدارس میں ایک آنگن واڑی کا نظم شروع کروا دے تو ممکن ہے۔ اگر حکومت نہیں کر سکتی تو کسی تعلیمی این. جی. اوز سے یہ کام لیا جاسکتا ہے۔ یا پھر اردو والے خود آگے آئیں اور اپنے اپنے علاقوں کے اردو مدارس میں ایک پری پرائمری ٹیچر کی تنخواہ کاذمہ اپنے سر لیں تو بھی یہ بالکل ممکن ہے۔ اردو مشاعروں سے ہی اردو کی بقاء نہیں ہو رہی ہے اردو مشاعروں سے بھی اردو کا کام ہو رہا ہے یہ بھی انکار نہیں۔

اردو ادب کے ثقافتی پروگراموں کا انعقاد ہونا بہت ضروری ہے پھر چاہے وہ مشاعروں ہوں، قوالی ہوں، سیمینار ہوں، کانفرنسس ہوں یا پھر کتب میلہ وغیرہ مگر اتنا ضرور ہے کہ اگر ہم بذاتِ خود سرکاری اردو مدارس کی طرف رجوع ہوں ہم خود ان مدارس کا دورہ کریں، ہم ایک ٹیم کو تشکیل دیں جو ہر دن یا دو دن میں ایک بار یا پھر کم از کم ہفتہ وار ہی صحیح ان مدارس کا دورہ کریں اور وہاں کے سرکاری و غیر سرکاری اساتذہ سے بات کریں، وہاں کے مسائل کو خود سے یا پھر کسی سرکاری مدد یا کسی صورت اس کا حل نکالنے کی پوری کامیاب کوشش کریں۔

سرکاری مدارس میں کئی مسائل ہیں، بچوں کے لئے اچھے کپڑے، بچوں کے لئے کتابیں، بچوں کے لئے بیٹھنے کی جگہ وغیرہ پھر اس کے بعد اوساتذہ کے اپنے مسائل۔ اگر ہم اس طرف خصوصی توجہ دیں تو یقین جانئے ان شا اللہ ہمارے مدارس بہتر سے بہتر اور بہت عمدہ مدارس ثابت ہو سکتے ہیں۔

میرا سوال تمام سے بس اتنا ہے کہ ”غیر سرکاری مدارس کی جماعت پہلی کے استاد کی تنخواہ صرف 2سے 3 ہزار ہوتی ہے وہیں سرکاری اردو استاد کی تنخواہ کم از کم 35 ہزار ہوتی ہے۔ غیر سرکاری استاد جہاں ایک کلاس میں 55سے 60 بچوں کو پڑھاتے ہیں وہیں سرکاری استاد بمشکل 15 اور زیادہ سے زیادہ 25 طلبہء کو ہی تعلیم دیتے ہیں۔ ایسا کیوں؟ غیر سرکاری استاد بچوں پر پوری پوری توجہ دیتے ہیں بہ نسبت سرکاری ٹیچر کے ایسا کیوں؟ غیر سرکاری استاد مینجمنٹ کے سامنے ہی صحیح مگر بچوں کو اچھے سے اچھا پڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر سرکاری اساتذہ اس طرف دھیان نہیں دیتے۔

سرکاری اورغیر سرکاری مدارس چاہے مسلم مینجمنٹ یا سرکاری امداد سے چلنے والی غیر سرکاری ہر طرح کی اسکولوں میں اگر مقامی لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ وہاں کے حالات کا جائزہ لیتے رہیں۔ بالخصوص سرکاری اردو مدارس کا دورہ وقتاً فوقتاً کرتے رہیں۔ تو یقین جانئے ہمارے بچوں کا مستقبل اور انکی تعلیم بہتر سے بہتر ہوگی۔ اس کے لئے ہمیں ہر سرکاری اردو مدرسہ میں پری پرائمری کا نظام بھی شروع کرنا چاہئے، چاہے اس کے لئے سرکاری مدد ملے یا نہیں مگر ہمیں خود اسلسلہ میں دلچسپی لینی چاہئیے۔

یاد رکھیں اگر ہم اب بھی ہمارے اردو مدارس کی طرف دھیان نہ دیں گے تو سرکاری اساتذہ بھی عنقریب گھروں کا رخ کرتے نظر آئیں گے۔ اس لئے میری تجویز یہی ہے کہ سرکاری اساتذہ بھی پری پرئمری ٹیچر کا انتظام کرے اگر حکومت سے یہ کام ہوگیا تو سوچیں کتنے لوگوں کو سرکاری ملازمت مل جائے گی۔ خیر اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو کم از کم ہم غیر سرکاری طور پر اس کا انتظام کریں اور اردو مدارس اور اساتذہ کے تحفظ کے لئے ٹھوس اقدام کرائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!