وہ جو ماضی کے مسلمان تھے۔۔۔!
ابوفہد
ماضی میں جو مسلمان گزرے ہیں، ان کے اندر چند صفات ایسی تھیں جو آج کے مسلمانوں میں تقریبا مفقود ہیں۔ماضی کے مسلمان بے شک موجودہ زمانے کی ٹیکنالوجی سے واقف نہ تھے اور نہ ہی ان کے یہاں علوم وفنون کی اتنی شقیں اور شعبے تھے، جتنے آج پیدا ہوگئے ہیں۔آج کے دور میں ٹیکنالوجی کے میدان میں ہوشربا ترقی کی بدولت لوگوں کو ایسی بہت ساری چیزوں کے لیے سفر نہیں کرنا پڑتا ،جن کے لیے ماضی میں بہت زیادہ سفر کرنا پڑتا تھا، بلاشبہ اس وقت معلومات جٹاپانا بھی انتہائی مشکل کام تھا۔
تاہم ماضی کےوہ مسلمان جنہیں قرآن نے شہدا، صدیقین اور صالحین کے نام سے یاد کیا ہے،ان کے اندر کم از کم دوصفات ایسی تھیں جو موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں نہیں ہیں، نہ عوام میں ہیں اور نہ ہی خواص میں، خواص میں تو بالکل بھی نہیں ۔ان کے اندر ایک تو خوف نام کی کوئی چیز نہیں تھی، نہ وہ موت سے ڈرتے تھے اور نہ ہی فاقہ کشی سے خوف کھاتے تھے۔ اسی لئے وہ اپنی قوت سے کئی گنا بڑی طاقت سے بھی بھڑ جاتے تھے۔
دوسری بات یہ کہ وہ اللہ کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے نہیں تھے۔ ان پر بد سے بدتر حالات آئے اور بعض اوقات ان بدتر حالات کی مدت طویل بھی ہوگئی، مگر انہوں نے اللہ کے بارے میں کبھی بھی بدگمانیاں نہیں کیں، انہوں نے حالات کو ہمیشہ آزمائش کی سطح پر ہی دیکھا اور اسی سطح پر رکھ کر ان کا مقابلہ کیا۔
قرآن نے ان تمام صبر آزما حالات کاجابجا تذکرہ کیا ہے،جو وقتا فوقتا انبیاء کرام کو درپیش رہے۔حضرت نوحؑ ، حضرت لوطؑ ، حضرت صالح ،ؑ حضرت ابراہیمؑ، حضرت ایوبؑ، حضرت یعقوبؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت موسیٰؑ وعیسیٰؑ اور پھر حضرت محمدﷺ تک کونسے اللہ کے پیغمبر ہیں جن پر سخت ترین حالات نہیں آئے ہیں، مگر انہوں نے صبر وضبط کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ اور اللہ کے بارے میں کبھی بھی کچھ بھی گمان نہیں کیا ۔حالانکہ ان پر ایسے حالات بھی آئے جب اہل ایمان اور خود وقت کے رسول اللہ کی مدد کا بے صبری سے انتظار کرنے لگے: حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّـهِ قرآن کا یہ انداز بیاں سخت ترین حالات کی نشاندہی کررہا ہے۔
مگر تاریخ نے ان کی طرف سے کبھی بھی کوئی ایسی بات یا عمل ریکارڈ پر نہیں رکھا جو ان کے ایمان باللہ کی کمزوری کو بتاتا ہو، ان میں سے کسی کی زبان سے بھی ایسے کلمات نہیں نکلے جیسے ہم مسلمانوں کی زبانوں سے نکل جاتے ہیں۔ ایسے کلمات جو ایمان ویقین کی کمزوری کو بتاتے ہیں۔صحابہ کرامؓ نے بھی ہمیشہ انہی انبیاء کرام کے کردار کو اپنی زندگی میں اور اپنے زمانے میں مجسم کرکے دکھا دیا۔
قرآن میں ہے :هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا ﴿١١﴾ قرآن کا یہ بیانیہ حالات کی سنگینی کو بتانے کے لیے ہے۔مگر صحابہ کرام نےایسے حالات میں بھی کمزوری نہیں دکھائی۔قرآن ہی کی شہادت ہے:وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ … وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا ﴿٢٢﴾
آج ہم مسلمانوں پر بھی بہت سخت حالات ہیں اور ایسے حالات میں ہمیں اپنے تعلق سے ان دوصفات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔کیونکہ اپنے حق کی لڑائی میں پچھڑ جاناالگ چیز ہےمگر ایمان وعقیدے کی کمزوری دوسری چیز ہے۔ اللہ پر ایمان، یقین اور پھر بھروسہ ہرحال میں پختہ ہونا چاہیے، مصاف زندگی میں ہم مسلمان جو کچھ بھی اور جیسے کچھ بھی ہوں، فاتح ہوں یا شکست خوردہ، مگر اللہ کی ذات پر اعتماد کا رشتہ کمزور نہیں پڑنا چاہیے۔کسی قیمت پر بھی نہیں۔