ہم مدرس ہیں، کوئی غلام نہیں!
زین العابدین ندوی، نیرل
مدارس بقول علی میاں ندوی علیہ الرحمۃ ایسی فیکٹریاں ہیں جہاں مردم سازی کا کام کیا جاتا ہے، یہاں سے نکلی ہوئی روشنی سے دنیا فیضیاب ہوتی ہے، یہ ایسا پاوٴر ہاوس ہیں جہاں سے انسانیت کے واسطہ بجلی تقسیم ہوتی ہے، ہمیں غور کرنا ہوگا کہ اب واقعی یہ مدارس اس تعریف پر کھرے اترتے ہیں ، یا اس نام کے پس پردہ وہ کام کئے جارہے ہیں جس کو زیر تحریر لاتے ہوئے قلم کانپ اٹھتا ہے ، کہیں ایسا تو نہیں کہ اب ان مدارس کا مقصد وقصد سب بدل گیا ہے ، اور دین کی آڑ میں وہ کام انجام پا رہے ہیں جسے ایک دنیا دار بھی کرتے ہوئے شرم محسوس کرتا ہے ، یوں تو اس وقت تمام ہی شعبہ ہائے حیات میں استحصال کا بازار گرم ہے۔
کوئی بھی جگہ اس سے پاک نہیں الا ما شاء اللہ ، ہر بڑا اپنے سے چھوٹے کو دبانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اگر اس کا بس چلے تو اپنے ماتحتوں کو سانس تک نہ لینے دے مگر یہ تو خدا کا شکر ہے کہ اللہ نے ہواوں پر کسی کو قدرت نہیں دیا ، مدارس کے ذمہ داران اور وہاں سے متعلق مدرسین کے درمیان بھی کچھ اسی قسم کی رسہ کشی ہے ، بسا اوقات تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مدرسین غلام محض اور منتظمین حضرات مالک کون ومکاں ہیں ، سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور اخلاق کی تعلیم دینے والے صبح سے شام تک اخلاق حسنہ پر تقاریر کرنے والے اس بد اخلاقی کے مرض میں کیوں ملوث ہیں؟ کیا انہیں خدا کا خوف نہیں ؟ یا پھر وہ خود کو ہی خدا سمجھ بیٹھنے کی بھول میں ہیں ؟
یاد رہنا چاہئے کہ دنیا میں صرف صلاحیتوں سے کام نہیں چلتا بلکہ صالحیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے، جس کے فقدان کے سبب ہمارے درمیان وہ اخلاقی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں جس کا ہمیں احساس تک نہیں ، اور اس کے برے نتائج کے اثرات ہمارے اطراف واکناف میں ایسے ہی مرتب ہو رہے ہیں جیسے کسی نالے کے پاس سے گندگی کا وجود ہوا کرتا ہے، اور اس سلسلہ میں دوسری کوتاہی یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنے آپ کو ہی دنیا کا سب سے عقلمند آدمی سمجھنے کی بھول کر بیٹھتے ہیں اور باقی ہمیں اپنے علاوہ کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا ، جس کے نتیجہ میں استحصال کا بازار مزید گرم ہوتا ہے۔
کوئی حکومت عوام سے متعلق رہے بغیر ان کی خبر خیریت معلوم کئے بغیر ان کا استحصال کرتے ہوئے بہت دنوں تک نہیں چل سکتی، یہی مسئلہ مدارس کا بھی ہے جہاں مدرسین کو غلام سمجھ کر ان کا استحصال کرتے ہوئے نظام کو بہت دنوں تک نہیں چلایا جا سکتا ہے ، اس کے باوجود بھی اگر نظام چلتا ہوا دکھائی دے تو پھر وہ مدارس نہیں ڈکٹیٹرس کے اڈے ہوں گے جن کے پس پردہ ہر وہ کام کیا جا رہا ہوگا جس سے امت کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ آج مدارس سے فارغ ہونے والوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ قوم وملت کا تو دور اپنی ذات کے نفع ونقصان سے واقف نہیں ہوتے ۔