بسواکلیان: خواتین کا تاریخی احتجاجی مظاہرہ، سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کا مکمل بائیکاٹ کرنے کا عزم
بسواکلیان:8/جنوری (کے ایس) NPR-CAAاور NRCکے خلاف سیاہ پٹیاں باندھ کر شہر بسوا کلیان کے تاریخی قلعہ صدر دروازے پر شہر کی خواتین نے ایک تاریخی و پر امن احتجاجی دھرنامنظم کیا، جس میں مختلف کالجس کے طالبات اور گھریلو خواتین کی بڑی تعداد شر یک رہی۔
مرکز کی مودی سرکار آئے دن مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والے اقدامات کر رہی ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ اقتدار پر فائز ہوتے ہی مسلمانوں کو نت نئے طریقوں سے ہراساں کرنے کے بلوں کو منظر عام پر لاتے ہوئے ہندو راشٹرا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن بھارت کی جمہوریت اور دستور کے تحفظ کیلئے تمام سیکولر افراد متحد ہوکر حکومت کی اس سازشوں کو ناکام بنائیں گے۔ بی جے پی کو ہندو راشٹر چاہیے جو آر ایس ایس کا خواب ہے اور جس کی تعبیر کے لیے نریندر مودی کو وزیر اعظم بنایا گیا ہے۔ لیکن اس ملک کی ہندو اکثریت کو خود بھی یہ منظور نہیں کہ ہندوستان ایک ہندو راشٹر بنا دیا جائے۔آج نریندر مودی اور آر ایس ایس ہندو راشٹر کے کتنے خواب دیکھ لے، لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہونے والا ہے۔ یہ باتیں کے نیلانے خواتین کے کثیر تعداد میں موجود احتجاجی مظاہرے کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ چند ٹی وی اینکرز اور ٹی وی پر شور مچانے والے چند بی جے پی کے لوگ اس ملک کی آتما کو نہیں بدل سکتے ہیں۔ہزاروں سال سے گنگا-جمنی تہذیب میں ڈوبے اس ہندوستان کا دل و دامن اس قدر وسیع رہا ہے کہ اس نے ایک مذہب نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب کے ماننے والوں کو پناہ دی ہے۔ کیونکہ اس ملک کا ہندو بی جے پی کے ہندوتو میں یقین نہیں رکھتا ہے بلکہ اس کا یقین ان ویدوں اور پرانوں میں ہے جو ہر عقیدے کا احترام کرنے کا سبق دیتے ہیں۔ اس لیے بی جے پی ٹی وی پر بیٹھ کر کتنا ہی شور کیوں نہ مچا لے لیکن وہ رنگا رنگ ہندوستان کو بدل نہیں سکتی ہے۔
آزادی سے قبل ہندوستان کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 1857 کی جنگ آزادی میں سبھی مذاہب کے لوگ موجود تھے، ہندوستان ساری دنیا میں بھائی چارہ میں اپنی منفرد پہچان رکھتا تھا۔ جس طرح انگریزوں نے مذہب کے نام پر ہندوستانیوں میں پھوٹ ڈالی موجودہ مرکزی حکومت آج پھر وہی کام کررہی ہے۔ان خیالا ت کا اظہارکے نیلا نے احتجاجی مظاہرین میں شامل خواتین کی کثیر تعداد کو خطاب کرتے ہوئے بتایااور انقلاب زندہ آباد کے نعرے بلند کئے۔
صدر تعلقہ پنچا یت یشو دھا نلکھنڈ راتھوڑ نے کہاکہ شہریت تر میمی قانون کی بنیاد پر قومی آبادی رجسٹر بنانا خطرناک ہوگا، اس سے نہ صرف ملک و سماج ٹوٹے گا بلکہ کروڑوں پسماندہ کو شہریت کے حق سے محروم کردئے جائینگے۔
خدیجہ صدف نے کہا کہ مذکورہ قا نون بے بنیاد ہے جہاں ملک کے شہریوں کو ہی شہری ہونے کا ثبوت پیش کرنا ہے،اور سی اے اے قا نون جو مذ ہب کی بنیاد پر تفر یق کرتا ہے اس کو منسوخ کیا جائے۔ تاریخ کے صفحات اور ہندوستان کی سر زمین گواہ ہے کہ ہم ہندوستان کے شہری ہیں، پیدابھی یہیں ہوئے اور مریں گے بھی اسی ملک میں، ہار گئے تو کفن مبارک جیت گئے تو وطن مبارک۔ اور اسے ثا بت کرنے کے لئے ہم کسی کاغذ کا سہارا نہیں لیں گے۔ حکومت ہند ہندوستانیوں نے آنکھوں میں دھول جھوکنا چا ہتی ہے۔اور ہمیں خوف کے دائرے میں ڈھکیل رہی ہے۔
موصوفہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ ہم ہندوستانی عوام باشعور تعلیم یافتہ ہیں۔ ہم نے مفت کی ڈگری حاصل نہیں کی۔ایسے حالات تاریخ میں کوئی پہلا واقعہ تھوڑی ہے، ہم نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے، ہم تاریخ کو دہرانے نہیں دینگے، آزادی سے پہلے برطانوی حکومت تھی اور ہندوستانی ان کی غلام بن گئے تھے، آج بھارت کی حکومت ایسے برائیوں کے زیر حکومت ہے جو حکومت کے نام پر ہمیں غلام بنانا چا ہتی ہے،ہم پر ظلم کرنا چاہتی ہے۔”ہم لوگوں کو حکومت سے یہ کہنا ہے کہ اگر آپ کو اس ملک سے دراندوں کو باہر نکالنا ہے تو انہیں تلاش کرو اور نکال دو“۔
ہر ایک شخص کی شہریت کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اب ضروری ہے کہ ہر کوئی منہ کھولے، آج کے دور میں گاندھی، ٹیپو، ابوالکلام، نہرو، رضیہ سلطانہ، امبیڈکر، ہم ہیں ملک کو تباہی سے بچانا ہمارا کام ہے۔ یہ باتیں حافظہ فاریحہ مریم نے کہیں۔
خالدہ پروین حیدرآباد نے اپنے اختتامی خطاب میں پرجوش و جذبے کے ساتھ آزادی کے نعروں دئیے اور کہا کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کر نا، پر امن احتجاج مظاہرہ اور پروٹیسٹ کرنا، دھرنا دینا یہ سب کچھ ہمارا قانونی حق ہے۔ شہریت تر میمی قانون (CAA)مذ ہبی بنیادوں پر ہندوستانی عوام کو تقسیم کر رہی ہے، یہ قانون غیر آئینی اور عوام مخالف ہے۔
مزید انہوں نے کہا کہ اس سیاہ قانون نے ہندوستان کو پوری دنیا میں الگ تھلگ کر دیا ہے، جس کے خطرناک اثرات ہندوستانی معشیت پر بھی پڑ رہا ہے۔جمہوریت میں خود مختاری عوام کو حا صل ہوتا ہے۔ شہریت تر میمی بل کے ذریعہ حکومت نے پارلمینٹ میں اپنے اکثریت کا غلط استعمال کرتے ہوئے عوام کی خودمختاری کے خلاف جاکر قانون بنا یا ہے۔اس سیاہ قانون کی مخالفت سب سے پہلے جا معہ ملیہ میں شروع کی گئی، وہاں کے طلبا و طالبات کو احتجاج کرنے پر حملہ کیا گیا پھر بھی انہوں نے ڈٹ کراس حکومت کی مخا لفت کی، یہ ایک ایسی حکومت ہے،جس نے ملک کے نوجوان اور طلبا ء کے حقو ق پر حملہ کیا ہے۔ آج ملک میں احتجاجیوں کے ساتھ جو فسادات پیش آرہے ہیں ایسا انگریزوں نے بھی نہیں کیا،لیکن ہمارے ہی ملک کی حکومت نے کمپس میں گھس کر نوجوانوں پر حملہ کیا۔
اس موقع پر صدر تعلقہ پنچایت یشودھا نلکھنڈ راتھوڑ، خالدہ پروین حیدرآباد، کے نیلہ، ساویتی سلگر تحصیلدار بسواکلیان، فہیم النساء سماجی رہنماء اور دیگر مو جود تھے۔
احتجاجی مظاہرہ کی کاروائی امتہ العزیز کو کب نے چلائی اپنی ابتدائی کلمات میں انہوں نے بتایا کہ ہم سی اے اے اور این آر سی جو حکو مت کے نئے اور سیاہ قا نون ہیں سے مرکزی حکو مت نے ملک میں ہنگا مہ برپا کیا ہے اس کی مخا لف کرتے ہیں یہ سراسر عوام پر تھو پے گئے ہیں۔ اس موقع پر طالبات اور ان کے ساتھ تمام خواتین نے”آزادی“ والا نعرہ دہرایا۔ سی اے اے ہٹا ؤ،دیش بچاؤ، این آر سی نہیں،روزگار دو، جیسے نعرے لگائے۔
احتجاجی دھرنے کے آخر میں تحصیلدار بسواکلیان کے توسط سے صدر جمہوریہ ہند کے نام ایک یادداشت روانہ کی گئی۔ بہن ہائقہ نے یاداشت پڑھ کر سنایا۔ مظاہرے میں شریک سبھی لوگوں نے آخر میں گیت پڑھا۔ تمام خواتین نے اس احتجاج میں حصہ لے کر اپنی دینی اورملی بیداری کا ثبوت دیا اور اس بل کے خلاف غم اور غصہ کا اظہار کیا۔تمام خواتین نے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کی مخا لفت میں اپنی آواز بھی ملائی۔ واضح رہے یہ احتجاج کل جماعتی تھا اس میں تمام مکاتب فکر، مذاہب کے علاوہ سیاسی و سماجی تنظیموں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔