سماجیسیاسیمضامین

سی اے اے، این آرسی اوراین پی آر کی مخالفت۔۔۔۔ کیوں!

سیدعرفان اللہ، بنگلور

ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور اس کے آئین کی بنیاد کسی فرقہ یا مذہب کی بنا پر نہیں بلکہ گنگا جمنی تہذیب اور بھائی چارے کی بنا پر رکھی گئی ہے۔ جب بھی ہندوستان کی بات چلتی ہے تو یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ ہندوستان پر مسلمانوں نے 800 سے زائد سالوں تک حکمرانی کی اور ہندوؤں کو اپنا غلام بنائے رکھا۔ میری سمجھ میں یہ آج تک نہیں آیا آخر غلامی کہتے کس کو ہیں؟ 150 سالوں تک انگریزوں نے یہاں اتنی لوٹ پاٹ کی، اتنی انسانی جانوں کی بربادی کی، عورتوں، لڑکیوں اور معصوم بچیوں کی عصمنتوں کو تاراج کیا، ہمارے ملک کے بے شمارمندر وں اور مساجد کو منہدم کیا ہمارے ملک کو ہمیشہ پوری دنیا میں پچھڑا ہی رکھا۔ جہاں جہاں جنگوں میں انہیں فوج کی ضرورت محسوس ہوتی وہاں وہاں ہندوستانیوں کی بھرتی جبراً کروائی جاتی اور انہیں ہی ہمیشہ جنگ کے میدانوں میں آگے رکھا جاتا، ان کو ہی قربانی کے لئے بلی کا بکرا بنایا جاتا۔ انگریزوں نے ہماری دولت کو لوٹا، ہمارے کئی ہندوستانی بھائیوں کو غلام بنا یا اور اپنے ملک انگلستان لے گئے جنہوں نے اپنی آخری سانس بھی ملک کے باہر لی مگر ان ظالم انگریزوں کا نام کہیں نہیں آتا۔

اگر کسی کا نام آتا ہے تو بس مسلم حکمرانوں کا وہ بھی جنہوں نے ملک کو خوشحال بنانے اور ملک کو آزاد رکھنے میں صرف اپنی ہی جان نہیں بلکہ اپنے بچوں اور خاندانوں کی جانیں بھی گنوائیں۔ جنہوں نے اپنے بچوں کورہن رکھا اور جنہوں نے میدان میں شہدت پائی ان کو آپ ملک کا غدار اورجانے کیا کیا بول رہے ہو؟ اور جن حکمرانوں نے انگریزوں کے آگے اپنے گھٹنے ٹیک دئے انہیں آپ وفادار اور ملک دوست بتا رہے ہو۔ کیا یہ جبروظلم اور زیادتی نہیں؟ اور پھر بھی کبھی ان ظالم انگریزوں کے خلاف کوئی آواز نہیں کبھی ان کا ذکر نہیں جب بھی بات چلتی ہے تو بس اورنگ زیب کی چلتی ہے، اکبر اور شہاہ جہاں کی چلتی ہے یا پھر ٹیپو سلطان شہید کی چلتی ہے۔ کیا اِن لوگوں نے یہاں کی دولت اپنے ملک منتقل کی تھی؟ کیا ان لوگوں نے یہاں کے لوگوں پر کوئی تشدد کیا تھا؟ کیا انہوں نے یہیں پر رہے کر اس ملک کی ترقی و ترویج اور فلاح کے لئے کام نہیں کیا؟ کیا اس وقت کے مسلم بادشاہ انگریزوں سے بھی زیادہ خطرناک و جابر تھے؟ آخر کیوں صرف مسلمانوں سے دشمنی؟ کیوں صرف اسلام سے دشمنی؟ آپ کی استھا استھا اور دوسروں کی استھا ندارد!!! ایسا کیوں؟ بڑے ہی شرم کی بات ہے۔

جب ملک آزاد ہوا تھا اس وقت بھارت کی تقسیم کچھ لوگوں نے اپنی گھٹیا سوچ و فکر کے سبب یا اپنے مفاد کے لئے کئے کرائی تھی مگرسچائی یہ ہے کہ ان کے اس فیصلہ سے نقصان ہندوستانیوں کو ہوا نہ کہ صرف ہندو یا مسلم کو۔ میں اس کا پس منظر اور پھر اس کے نتائج پر بات نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ اس کے لئے پھر ایک الگ مضمون لکھنا ہوگا۔میں یہاں بات کرنا چاہتا ہوں ہندوستانیوں کی بپتا کی، ان کی پریشانیوں کی اور ان پر گذرنے والے تکالیف و مسائل کی!!! مجھے یہ ثابت نہیں کرنا کون سچا دیش بھکت ہے یاکون غدار ہے؟ مجھے بات کرنی ہے یہاں کے لوگوں سے جڑے ان باتوں کی جو روز نہ دھیرے دھیرے مگر ہر روز بے موت اوربے وجہ مر رہے ہیں۔

مجھے تعجب نہیں کہ سیاست دان ہمیں سے ووٹ لے کر ہمیں سے دیش بھکتی کی سند مانگتے ہوں؟ پھر چاہے کانگریس کو ہرانے یا کانگریس مکت بھارک کی بات ہو یا آرٹیکل 370 ہٹانے کی بات ہو یا پھر پاکستان کا مدّا ہومگر ہم ہندوستانیوں نے ووٹ دئے تھے اس ملک کی ترقی و ترویج کے نام پر، ملک دشمنوں کو منہ توڑ جواب دینے کے نام پر، امریکہ سے نظر ملا کر بات کرنے کے نام پر، ہندوستان کو دنیا کا سب سے طاقتوراور معشت میں سب سے بہتر ملک بنانے کے لئے۔ مگر ہندو مسلم کے نام پر، نکسل واڈی کے نام پر، دہشت گرد ہونے کے نام پر، مندر مسجد کے نام پر، وطن کے پاسباں اور سیاست دان ہمیں بے وقوف بنارہے ہیں۔

سڑکوں کی خستہ حالی، پانی کی کمی، آلودہ آب و ہوا، روزانہ بڑھتے جرائم، روزانہ عورتوں کی عصمت دزی، گرتی معشیت، غریبوں کے لئے مکان، نوجوانوں کے لئے روزگار، بچوں کے لئے بہترین مستقبل، علاج اور دوسرے انسانی مسائل پر سیاست دان بات ہی نہیں کرتے۔ کیا ہم انسان نہیں ہیں؟ کیا ہماری انسانیت مر چکی ہے؟ ذرا اہل سیاست اور ان کے حواری بتائیں، کیا ہم سب کو پیٹ بھر کھانا مل رہا ہے؟ کیا ہم سب کے پاس رہنے کے لئے ذاتی مکان ہے؟ کیا ہم سب کے گھروں میں پانی کی دستیابی ہے؟ کیا ہمارے محلہ پاک و صاف ہیں؟ کیا ہماری سڑکیں بہترہیں یا کم از کم اس قابل ہیں کہ ان کو درست ہی کہا جاسکے؟

کیا سڑکیں گاڑیاں چلانے لائق ہیں؟ نہیں بالکل نہیں۔ ہمارے وزراء کئی بار بیرون ملک اپنا اچھا علاج کروانے جاتے ہیں کیوں؟کیوں رات دن باہر کے ملکوں کی، سڑکوں کی اور تالابوں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں!!! ان کے نزدیک ہندوستان کے علاوہ پوری دنیا پاک و صفاف ہے۔ شاید اسی لئے ان لوگوں اس ملک کو بد سے بدتر کیا ہے کہ باہر ملک کے لوگ یہاں نہ آئیں اور ان سے سوال نہ کر بیٹھیں۔ یہ کرسی پر بیٹھے لوگ صرف اپنی انا اور اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک اور یہاں کے عوام کو بیوقوف بناتے ہیں اور برباد بھی کر رہے ہیں۔

ہمیشہ الیکشن کے بعد جیتنے والی پارٹی یہی پوچھتی ہے ہارنے والی پارٹی نے اتنے سال کیا کیا؟ جب کے ہارنے والے پارٹی ہی ہوتی ہے جو انتخابات کو صحیح سالم کروانے کی کوشش کرتی ہے۔ اب بی جے پی والے ہمیشہ یہی پوچھتے ہیں 70 سال کانگریس نے کیا کیا؟ اور اب کانگریس انہی سے پوچھ رہی ہے آپ 7 سال سے کیا کر رہے ہیں؟ مطلب یہ سیاسی پارٹیاں صرف ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتی ہیں مگر جو سائنس داں نے اپنی محنت سے اس ملک کو نئے باب میں جوڑا، جس کسان نے اپنی محنت سے اس ملک کو اناج دیا، جس سپاہی نے دشمن کو لوہا دیتے شہادت قبول کر لی، جس اسکولی بچے نے نئے رکارڈ بنائے، کھیل کے کئی میدانوں میں ہمارے ہونہار کھلاڑی نے ملک کا نام روشن کیا، ہماری بیٹیوں نے کیسے کیسے کارنامے انجام دئے وہ سب مٹی پلیدکر دیتے ہیں۔

یہ ایک دوسرے پر الزام لگاتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ جو لوگ ملک کے لئے اصل میں محنت کر رہے ہیں اور جو اصل میں ملک کے معمار ہیں ان پر کیا اثر ہوگا؟ یہ اس لئے بھی کہ ہر سیاسی پارٹی لو لگتا ہے وہ جو کام کررہے ہیں وہ اس دنیا کا آخری اور صحیح کام ہے ہم سے پہلے چاہے ہماری پارٹی کے ہی دوسرے وزرا ء یا وزیرِ اعلیٰ یا وزیرِ اعظم نے جو کام کیا وہ بیکار تھا بس ہم ہی ہیں جو سب پر بھاری ہیں۔ کیا یہ انا نہیں ہے؟ کیا یہ انسانیت ہے؟ کیا یہ پنپنے کی نشانی ہے؟ نہیں بالکل نہیں آج آپ کرسی پر ہو کل کوئی اور ہوگا۔ آج طاقت آپ کے ہاتھ میں ہے کل کسی اور کی ہوگی۔ ہم روزانہ مرنے والوں کو دیکھ کر بھی عبرت نہیں لیتے تو پھر ہم میں اور جانوروں میں فرق ہی کہاں بچ جاتا ہے؟

اب نئی حکومت نے جو کارنامے انجام دئے جیسے صارفین کوخود سے یل۔ پی۔ جی سبسڈی ترک کرنے کو کہا مگر خود نہیں کی وہ الگ بات ہے۔ لوگوں کو نوٹ بندی کے نام پر لائین میں لگوادیا اور خود لائن میں نہیں لگے وہ بھی الگ بات ہے۔ نوٹ بندی میں تقریباً 180 لوگ مارے گئے (میں تو کہوں گا شہید ہوئے اس لئے کہ وہ لوگ آرام سے گھروں میں تھے ان کو جبراً مجبور کیا گیا روڈ پر آنے کے لئے اور دھکے کھانے کے لئے۔) ان بیچاروں کے گھر والوں کاکوئی پرسانِ حال نہیں! افسوس یہاں بھی جی بھر کر ہندو مسلم کی سیاست خوب کی گئی۔ ای۔ وی۔ یم مشین کی کرتوت سے کون واقف نہیں۔ ہماری معاشی بدحالی اور ہندو مسلم بھائی چارے کو تار تار کرنے والے کون ہیں؟
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

یہ چراغ ہندو ہے یا مسلم یہ فیصلہ خود ہمیں کرنا ہے۔ ہم جب آزاد ہوئے تھے تب ہمارے حسین و خوشحال سپنے تھے۔ ہمارے اپنے منصوبہ تھے۔ مگر افسوس اس سیاست کا بیڑا غرق ہو جس نے ہماری قومی یکجہتی کو برباد کردیا۔ اب ہماری حکومت نے ین آر سی اور سی اے اے پھر اب ین پی آر لے آئی ہے۔ کیوں؟ سیدھی بات ہے حکومت کی ناکامی پر کوئی سوال نہ کرسکے؟ کوئی ملک کا باشندہ ان سے اپنے ووٹ کا سوال نہ کر سکے؟ کوئی تاجر یا مزدور ان سے سوال نہ کر سکے؟ ان کو خطرہ ہے اگر ہندوستانی عوام ایک ہوگئے اور سوال پر سوال کر دنے لگے تو بے چارے ہمارے وزراء کہاں جائیں گے!!! اسی لئے بس ہندوستان کو بے کار کی ین آر سی، سی اے اے اورین پی آر جیسے اژدہوں کے سامنے پھینک دیا کہ تم اپنی خیر مناؤ پھر ہم سے سوال و جواب کرنا۔

بھائی میں تو سی اے اے، ین سی آر اور ین پی آر کی مخالفت نہیں کرتا کیوں کروں جب یہ میرے ملک کی فلاح کے لئے ہو۔ بے وقوف ہیں وہ لوگ جو اتنی سردی میں 10-12 دنوں سے ملک کے کئی حصوں میں حکومت کی پالیسوں کے خلاف تحریک چلائے بیٹھے ہیں۔ کیا ضرورت ہے ان کو جو اپنے گھروں کا آرام و سکھ چین چھوڑ کر سڑکوں پر ڈیرہ ڈالے بیٹھے ہیں؟ کیا ضرورت ہے اتنی سردی میں رات رات بھر سڑکوں اور گاندھی جی اور بابا صاحب کے مجسموں کے پاس مظاہرے کرنے کی؟ ملک کے تقریباً ہر شہر میں مذکورہ ایکٹ کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں (یہ الگ بات ہے جو پارٹی مرکزی حکومت میں ہے اور اسی پارٹی کی جہاں ریاستی حکومتں بھی ہیں صرف وہیں تشدد بھڑک رہا ہے اور جہاں دیگر سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے وہاں پر امن مظاہرے ہو رہے ہیں اور پولیس عوام کے ساتھ سڑکوں پر قومی گیت گا کر بھائی چارے اور امن کا پیغام دے رہی ہے۔ بنگلور کے ڈی سی پی صاحب کی اس بابت خوب واہ واہی ہو رہی ہے)۔

سوچنے والی بات ہے ہمارے پاس روزگار نہیں، لوگوں کے پاس رہنے کے لئے مکان نہیں،پیٹ بھر نے کے لئے کھانا نہیں، بچوں کے لئے تعلیمی نظام صحیح نہیں اگر حکومت سے سوال کریں تو جواب ملتا ہے ہماری معثیت ٹھیک نہیں۔ ارے بھائی جب ہمارا ملک ہر اعتبار سے خسارے میں ہے تو پھر اس قانون کو لانے اور ہمارے آئین کو مجروح کرنے والے کالے قانون کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟ جب ہندوستان آزاد ہوا تھا اس وقت ہماری حالت کون سی اچھی تھی۔ ہماری معیثت کون سا آسمان چھو رہی تھی۔ ہم کون سے پڑھے لکھوں میں شامل تھے۔ ہمارے کون سے پکے مکانات تھے۔ مگر ہم سب نے مل کر اس ملک کو ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ملک بنایا۔ جب ایٹمی ممالک نے ہمیں آنکھیں دکھائی تو ہم نے الحمد اللہ ایٹم بم بھی بناکر دشمنوں اور دنیا والوں کے ہوش ٹھکانے لگا دئیے۔

یہ الگ بات ہے میزائل کی ٹیکنالوجی بھی ہمارے ہی ملک کے مردِ مجاہد کی ایجاد تھی اور اس کو ساری دنیا تسلیم بھی کرتی ہے سوائے ہمارے ہی ملک کے کچھ بیوقوفوں کے۔ جب کھیل کی بات آئی تو ہم نے انگریزوں کو انہی کی دھرتی پر کچھ وقت لے کر ہی صحیح پر دھول چٹائی اور انہی کے کھیل میں ایسا مات دی کہ آج تک وہ اس درد سے ابھر نہیں سکے۔ ہندوستان سے الگ ہوئے ممالک آج بھی ہمارے ہی سہارے جی رہے ہیں اور ہماری سیاسی پارٹیاں انہی کو انتخابات کے وقت مدعا بنا کر جیتی بھی ہیں۔ ہم آزادی کے دور میں کمزور نہیں پڑے تو پھر آج کیوں حکومت ترقیاتی کاموں سے دور بھاگ رہی ہے؟ کیوں اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے عوام کو ہی آپس میں لڑوا رہی ہے؟ شاید اقتدار کے نشے میں حکومت کے اہل کار یہ بھول بیٹھے ہیں کہ اگریہی عوام ان کو کرسی پر بٹھا سکتی ہے تو پھر کرسی سے گرا بھی سکتی ہے۔ آپ صرف چند دنوں کے لئے عوام کو بیوقوف بنا تو سکتے ہیں لیکن ہمیشہ کے لئے نہیں اگر ایسا ہوتا تو شاید آج بھی ہندوستان پرانگریزوں کی حکومت ہوتی۔

اپنے ملک کے مسائل کو صرف ہم لوگ ہی حل کر سکتے ہیں۔ کسی ایک طبقہ کو ملک سے الگ کرنے کی بات کرنا یا انہیں ملک کا دوسرا شہری بنانے کی کوشش کرنا یہ صرف کچھ دنوں کے لئے صحیح لگ سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ سر پھرے آپ کی باتوں میں بے وقوف بھی بن جائیں مگر مستقل عوام آپ کی چکنی باتوں میں آتے رہیں یہ نا ممکن ہے۔ میں یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کے پیٹ بھرے ہوئے کو آپ کچھ دن الّو بنا سکتے مگر بھوکے ننگے کو آپ ہمیشہ بے وقیوف نہیں بنا سکتے۔ جب تک جیب میں حرام کا مال ہوگا وہ حکومت کی طرفداری ہی کرے گا مگر جیسے ہی جیب خالی ہوگی اور گھر پر بیو ی بچے بھوکوں مرنے پر آجائیں گے تب وہ روزی روٹی اور کام پر دھیان دے گا تب اسے احساس ہوگا۔ میں جس کی تائید میں کھڑا تھا اصل میں وہ غلط تھا مجھے تو مخالفت کرنی تھی۔ اور اس وقت وہ انہی سیاست دانوں کی گردنوں کو ڈھونڈتا پھرے گا۔

اس وقت ملک میں حالت جو بگڑ چکے ہیں (جسے کچھ میڈیا والے چھپا رہے ہیں یا اگر بتا بھی رہے ہیں تو صرف ایک جماعت کے خلاف بتا رہے ہیں) ان کو ابھی بھی اگر قابو نہیں کیا گیا اور حالت کو درست نہیں کیا گیا تو پھر ملک کی معیشت تو غارت ہونے اور ملک کو بد سے بد تر ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ اس لئے کہ ہم ان چیزوں پر دھیان نہیں دے رہے جن پر دینا لازم اور وقت کی ضرورت ہے بلکہ ہم ایسے مسائل خود پیدا کر رہے ہیں جن کی کبھی ہم کو ضرورت ہی نہیں ہے۔
اگر ہم روزگار، سڑکیں، پانی، مکان، طب اور بچوں کی صحت وغیرہ پر پیسہ خرچ کریں بجائے فالتو کے سی اے اے، ین سی آر یا پھر ین پی آر کے تو یقینا ان شا اللہ ہمارا ملک کو دوبارہ ترقی کی راہ پکڑ لے گا۔ اور پھر یہاں خوشحالی لوٹ سکتی ہے۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
تھا، ہے اور انشاء اللہ تا قیامت رہے گا۔

ہاں کچھ وقت کے لئے کچھ وزراء کی اپنی انا کو مطمئین کرنے میں ملک کے حالت بگڑے ضرور ہیں مگر ان کو سدھارا جا سکتا ہے۔ اور عوام کو پھر خوشحال بناسکتا ہے۔ حکومت ایسی پالیسی یا قانون بناتی ہی کیوں ہے جس سے جمہوری نظام کو کوئی دھکا لگے یا پھر آئین پر کوئی آنچ ہی آئے۔ ہماری حکومیتں ایسا کیوں نہیں کرتی کہ عوام نے ہمیں موقع دیا ہے تو ہم پچھلی پارٹی سے بہتر اور اچھا کام کریں۔ اور پچھلی پارٹی نے جو اقدام اٹھائے انہیں ایک نیا موڑ ایسا دیں جو ملک اور عوام کی فلاح کے لئے ہو۔صرف سڑکوں کا یا پھر شہروں کانام بدلنے سے اگر وہاں کی عوام کی قسمت بھی بدل سکتی ہے تو میں کہتا ہوں پورے ملک کا نام بھی بدل دینا چاہئے اور ملک کو نئی ترقیوں کی طرف گامزن کروانا چاہئے۔ صرف اداروں کا نام تبدیل کر دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ کام ایسا کرو کے مرتی دنیا تک قائم رہے۔ کام ایسا ہو کے ہر کوئی خود کرنے کی خواہش کرے اور جونہ کر سکیں ہوں وہ اُف اُف کرتے رہے جائیں۔

حکومت کو چاہئے کے سی اے اے، ین سی آراور ین پی آر کو واپس لے لیں اور ملک و عوام کی ترقی کے لئے نئے پیمانے اور نئے راستے تلاش کرے۔ جس سے ملک میں ترقی بھی ہو عوام میں بھائی چارہ بھی بڑھے اور ہمارا ملک دنیا میں ایک مثالی ملک بن کر دوبارہ اپنی پہچان بنائے۔اور ہم سب مل کر دوبارہ شان کے ساتھ کہیں۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!