سروں کی جھیل تو دیکھی، تمنا ہے سمندر کی
محمد زاہد ناصری القاسمی
ظلم کےخلاف آواز بلند کرنا، پرامن احتجاجی مظاہرہ اور پرو ٹیسٹ کرنا، نیز دھرنا دینا، یہ سب کچھ ہمارا قانونی حق ہے۔ الحمدللہ اب تک این آر سی کے فتنہ سے حفاظت کے لیے ہزاروں کی تعداد میں چھو ٹے اور بڑے مظاہرے ہوچکے ہیں اور ان شاء اللہ مذکورہ فتنہ کے خاتمے تک جاری رہیں گے۔ ہندوستان کے نامور اور ممتاز شہروں میں ایک اہم نام حیدرآباد کا بھی ہے، جس کی عظمت کے ترانے آج بھی پوری دنیا میں گائے جاتے ہیں، ہندوستان میں یہی وہ شہر ہے جہاں سیاسی میدان میں مسلمانوں کی نمائندگی نسبتاً زیادہ ہے، اسی لیے تمام اہم واقعہ میں ہر ایک کی نظریں یہاں کے منظر نامے پر ٹکی رہتی ہیں، 4/جنوری 2020ء سے پہلے تک دوسرے صوبوں میں کئی تاریخی مظاہرے ہوئے، مگر حیدرآباد ہی نہیں، بلکہ پورے تلنگانہ اسٹیٹ میں کوئی بڑا مظاہرہ نہیں ہوسکا تھا، جس کی وجہ سے عام طور پر لوگوں کا یہ تأثر تھا کہ یہاں کی باغیرت عوام اب مرچکی ہے؛ لیکن 4/جنوری کو دن میں “حیدرآباد ملین مارچ” اور رات میں “سنگاریڈی پروٹیسٹ” نے اس طرح کی سوچ کو غلط ثابت کیا اور یہ واضح کردیا کہ یہاں کے لوگ ابھی مرے نہیں ہیں، بلکہ زندہ ہیں، یہ اور بات ہے کہ سوئے ہوئے تھے، مگر اب جاگ چکے ہیں۔
ایک ہی تاریخ میں دونوں مظاھرے سے ایک منفی پیغام بھی لوگوں کو ملا اور وہ یہ ہے کہ ایسے نازک حالات میں بھی اب تک ملت اسلامیہ متحد نہیں ہوسکی ہے؛ کیونکہ میں تاریخ کے آئینے میں دیکھ کر پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہ رہا ہوں کہ تلنگانہ کے انسانیت نواز لوگ جب مکمل طور پر جاگ اٹھیں گے تو پھر شہر ہی نہیں، شہر کے باہر بھی دور دور تک سروں کا سیلاب نظر آئے گا؛ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہم ابھی بھی پوری طرح نہیں جاگے ہیں، نیند کا خمار ابھی باقی ہی ہے، ابھی تو منظر کچھ اس طرح کا ہونا ضروری ہے:
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمودوایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
حیدرآباد پروٹیسٹ میں توقع سے زیادہ لوگوں کی شرکت اور اس کی کامیابی پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے، مگر ملک کے موجودہ حالات اور آسام میں موجود ڈیٹینشن سنٹر کی خوفناک صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے، این آر سی کے فتنے سے بچنے کے لئے ہمیں متحد ہو کر یہ سلسلہ جاری رکھنا ہوگا، ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ احتجاج کس کی قیادت میں ہو رہاہے ؟ بلکہ یہ سوچنا چاہیے کہ کیوں ہو رہا ہے ؟
ایک اطلاع کے مطابق10/جنوری2020ءکو بعد نمازِ جمعہ” عیدگاہ میرعالم تالاب ” تاڑبن، حیدرآباد میں ایک اور پروٹیسٹ ہونے والا ہے، عزم مصمم کریں کہ ان شاء اللہ اس میں اور آئندہ تمام مظاہرے میں آپسی سارے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک وملت کے مفاد میں جذبئہ صادق کے ساتھ ضرور اسی طرح شرکت کریں گے جس طرح کامل اخلاص کے ساتھ “ملین مارچ” میں شریک ہوئے تھے۔
خواہشات کی کوئی انتہا نہیں ہوتی اور ہر خواہش کا تذکرہ مناسب بھی نہیں ہوتا، ہاں ! اگر وہ اچھی ہو تو ضرور قابل ذکر ہوتی ہے؛ اس لیے میں حیدرآباد ملین مارچ کا مشاہدہ کر نے کے بعد یہ کہتا ہوں کہ:
سروں کی جھیل تو دیکھی، تمنا ہے سمندر کی
وہ ممکن ہو اگر بھائی تو کر پوری قلندر کی