مذہبیمضامین

اسلام کا نظام میراث

ذکیہ صالحاتی، بھیونڈی

۔شریعت اسلامی کا مزاج ہے کہ اس نے دولت کو مرتکز کرنے کے بجائے اس کی تقسیم اور اس کومسلسل گردش میں رکھنے کا نظام قائم کیا ہے ۔ اس لیے میراث کے لئے ایک جامع، متوازن اور نہایت ہی مبنی برعقل قانون عطا فرمایا ہے۔ اس نظام (قوانین میراث ) کے متوازن اور منصفانہ ہونے کا صحیح اندازہ کچھ اس وقت ہو سکتا ہے جب اس کا موازنہ دوسرے مذاہب اور زمانہ جاہلیت میں ترکہ کے نظام سے کیا جائے۔

چنانچہ عرب ممالک میں زمانے جاہلیت میں ترکہ صرف اولادیں نرینہ میں تقسیم ہوتا تھا ۔ جاہلیت میں صرف بڑا لڑکا ہی باپ کے تمام متروکہ مال کا مستحق سمجھا جاتا تھا۔ یہودیوں کے یہاں اصلا” تو موسی علیہ السلام کی تعلیمات کے مطابق ترکے کے احکام ہونے چاہیے تھے لیکن تحریف کے بعد اس میں بنیادی طور پر مرد ہونا ہی ترک کا استحقاق پیدا کرتا ہے اور عورتيں عموماً اس سے محروم رہتی ہیں ا۔ور شوہر اپنی بیوی کا ترکہ پا سکتا ہے لیکن بیوی اپنے شوہر کے ترکہ سے محرومی رہتی ہیں۔ رومن لاء میں کنبہ کے سربراہ مرد کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے کنبہ کے افراد کو جن میں عورتیں بھی شامل ہے فروخت کر سکتا ہے بلکہ ان کی موت و حیات کا فیصلہ بھی کرسکتا ہے۔اور انھیں ترکہ سے محروم بھی رکھ سکتا ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ کنبہ کے باقی افراد کی حیثیت غلاموں بلکہ جانوروں جیسی ہوتی ہے۔چنانچہ بیوی اپنے شوہر کےترکہ سے محروم رکھی جاتی ہے۔

اسی طرح ہندوستان میں اصلی ہندو قانون وراثت میں نہ صرف عورتیں ترکے سے محروم ہوتی ہے بلکہ بڑے لڑکے کے علاوہ بقیہ سب لڑکے بھی محروم رہتے ہیں اور یہ عجیب بات ہے کہ یہ قانون یورپ کے بعض ممالک میں بھی رائج ہے۔

ان چند غیر اسلامی اصول و قوانین کی ایک دیکھنے کے بعد جب ہم خالق حقیقی کے عطا کردہ نظام وراثت کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اس کی قیمت کا اندازہ ہوتا ہے چنانچہ اسلامی نظامی وراثت کی بنیاد نسب اور سبب پر ہے ۔اس نظام کے اندر کسی حال میں بھی ماں بیٹی بیوی کو ترکہ سے محروم نہیں کیا گیا ہے بلکہ بہت سی صورتوں میں پوتی ،دادی ، نانی ، بہن ( حقیقی ،اخافی ) اور بعض صورتوں میں پھوپھی نواسی بھی وصیت کے تحت ترکہ پانے کا استحقاق رکھتی ہے۔ اور پھر یہ ہے کہ عمر میں میں کم یا زیادہ ہونے سے ترقی کی مقدار میں کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا۔

اسلام میں نظام وراثت پر بعض معاندین ایک سطحی اعتراض کرتے ہیں کہ ” اسلامی قانون وراثت میں عورتوں کو مرد سے آدھا ترکہ ملتا ہے۔ اور یہ بات مساوات مردوزن کے خلاف ہے۔ اس اعتراض کا اصل سبب اسلامی قوانین کے تمام پہلوؤں کا سامنے نہ ہونا ہے ورنہ ہم جانتے ہیں کہ عورت کو ترکہ کی جو مقدار بھی مل رہی ہے وہ شاید ہی کبھی کسی اتفاقی اور ہنگامی صورت میں کام آتی ھے تو آجاتی ہے ورنہ اکثر رکھی رہ جاتی ہے اور بیلنس بننے کا سبب بنتی ہے دوسری بات یہ ہے کہ عورت پر کسی صورت میں نان و نفقہ کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ وہ مرد کی ذمہ داری ہے پھر یہ کہ وہ نکاح کرتی ہے تو شوہر سے مہر لینے کے بھی حقدار ہے۔ اس کے برخلاف مرد کی حالت یہ ہے کہ جب وہ کسب معاش کرنے لگے تو نہ صرف اپنی بلکہ بیوی والدین اور بعض صورتوں میں دیگراقاربین کی ضرورتوں کو پورا کرنا بھی اس کے ذمہ ہو جاتا ہے ۔
شریعی قوانین کے تمام گوشوں پر نظر ڈالنے کے بعد عورت کا ترکہ میں مرد سے آدھا حصہ ہونے پر کوئی بھی انصاف پسند اعتراض نہیں کرسکے گا۔

قانون میراث کی اہمیت کااندازہ لگانے کے لئے تنہا یہ بات کافی ہے کہ قرآن مجید جس میں بالعموم اصول و قواعد بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ لیکن اس میں ترکہ کی تفصیلی احکام دیے گئے ہیں یعنی اکثر ورثہ کے حصے بنا دیے گئے ہیں۔ اور صرف اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ درمیان میں ایک سے زائد بار وعید کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔اور جن ورثہ کے جو حصہ مقرر کیے گئے ان کے حکیمانہ اور منصفانہ ہونے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں حدیث رسولﷺ میں ” علم فرائض” کو نصف علم کہا گیا ہے اور اس کے سیکھنے سکھانے کی تاکید کی گئی ہے ۔قانون میراث کی خلاف ورزی کرنے سے دوسرے اعمال بھی ضائع ہو جانے کا خطرہ ہے۔
“ان الرجال لیعمل اوالمراة بطاعة اللہ ستین سنةالموتٰ فیضران فی الو صیة فتجب لھما النار “
(رواہ ترمذی و ابن ماجہ۔بحوالہ تفسیر ابن کثیر جلد ٢ صحفہ ٤٦١)
ترجمہ۔۔ اگر کسی مرد یا عورت نے ساٹھ سال تک بھی مسلسل خدا کی عبادت وفرمانبرداری میں گزارے ہوں ۔لیکن مرتے وقت (خلاف اصول شرع ) کسی کو کچھ دینے کی وصیت کردی ہو تو اس کی ساری اطاعت و عبادت اکارت ہو جائے گی ۔ اور اسے جہنم میں داخل کر دیا جائے گا ۔اور غور کرنے کا مقام ہے کہ ساٹھ، ستر سال مسلسل عبادت و اطاعت کرنے والا بھی اگر ترکہ اور وصیت کے قانون کے خلاف ورزی کرے تو اس کے لیے ایسی شدید وعید ہے ۔پھر جب پوری زندگی یا زندگی کا بیشتر حصہ قوانین شریعت توڑنے میں گزرا ہو جیسا کہ آج کل ہمارا حال ہے تو اس کے خلاف ورزی پر کتنی سخت سزا ملے گی اس کا اندازہ مشکل نہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!