کہیں شناخت تمہاری مٹادی نہ جائے۔۔۔
شاہانہ خانم، حیدرآباد
اٹھو غلامی کی زنجیروں کو پھر اپنے گلے میں نہ پڑنے دو۔ کہی ایسا نہ ہو کہ تم اپنے ہی گھر سے نہ نکالے جاؤ۔
چلتے ہیں دبے پاؤں کوئی جاگ نہ جائے
غلامی کے اسیروں کی یہی خاص ادا ہے
ہوتی نہیں جوقوم……حق بات پر یکجا
اس قوم کا حاکم ہی بس ان کی سزا ہے
جمہوریت میں ایک عام آدمی بھی اختیار اور با اثر ہوتا ہے۔ جمہوریت کا بنیادی مغز انسانی مساوات ہے، قانون کی حکمرانی اور انسانی مساوات کو جمہوریت کے لئے لازم سمجھا گیا ہے، اس کی رو سے ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان رنگ و نسل، مذہب اور ذات پات کا کوئی بھید بھاؤ نہیں ہوتا اور عام آدمی بھی حکومت کے اعلی ترین عہدوں تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی اندازہے
مشرق ومغرب میں تیرے دورکاآغاز ہے
حکومت نے NRCکابل پاس کرلیا ہے جس کا مطلب National Regester of citizenہے جس بل کا مقصد ہندو مسلم الگ الگ کرنا ہے یہ بات درست ہے کہ ہم نے دستور ہند کا ہمیشہ پاس ولحاظ رکھا ہمیں نہیں معلوم تھا کہ دھرم وذرپیکش ہمارا ملک جس کے نیتا دھرم کے ادھار پر ملک کوباٹنے کی کوشش کریں گے اور دستور ہند کی دھجیاں اڑائیں گے۔کیا اب گھڑی نہیں کہ ہم اٹھ کھڑے ہو اپنے وجود کی حفاظت کے لئے کیا تم اس لیے گمان خاموش بیٹھے ہو کہ ہمارے کاغذات تو درست ہیں۔ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنے اباواجداد اور خواتین،بوڑھے،بچوں کا بھی خیال کرنا ہوگا۔ جو ہمارے قوم کا حصہ ہے بلکہ حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ کی زبانی ”تمہارے ہی جسم کا ٹکڑا ہے تم کو کیوں اپنے جسم کے ایک حصے کی تکلیف،دوسرے حصے میں محسوس نہیں ہوتی!!!“
آسام میں این آرسی سے باہر رہ جانے والے انیس لاکھ افراد میں سے تیرہ لاکھ ہندو ہیں رہے سات لاکھ مسلمان جو این آرسی سے باہر ہیں حالانکہ پشتوں سے یہاں رہے ہیں وہ بے چارے کاغذات درستی کے لئے دردر ٹھوکریں کھائیں گے ہزاروں لاکھوں خرچ کرکے ہائی کورٹ پھر سپریم کورٹ وہاں سے بھی ناکامی ہاتھ لگی۔ انھیں قسمت میں ملک بدری یا پھر جیل جانا پڑے گا۔ ان حالات میں ان پر کیا بیت رہی ہیں اس کا اندازہ لگایا جائے تو معلوم ہوگا۔ اس لیے اب ہمیں اپنے دستوری حق کو سامنے رکھتے ہوئے این آرسی کوروکنا ہوگا اور اس ظالمانہ قانون کو جو دستور ہند کے خلاف ہے اس کے مقابلہ کی ہر ممکن کوشش کرنی ہے
ہمارا احتجاج جارہی رہنا چاہیے۔ ائے میرے وطن کے لوگوں نہ خود اتنا حقیر سمجھو کہ کوئی تم سے حسا ب مانگے،نہ خود کو اتنا قلیل سمجھو کہ کوئی اٹھ کر کہے، تم اپنی وفائیں وطن لوٹادو۔یہ وطن اپنا ہمیں تھمادو اٹھو اور اٹھ کر سب کو یہ بتادو ان کو کہ ہم ہیں اہل ایمان سارے،نہ ہم میں کوئی صنم کدہ ہے ہمارے دل میں بس ایک خدا ہے جھکے سروں کواٹھا کر دیکھو قدم کو آگے بڑھا کر دیکھو ہے ایک طاقت تمہارے سرپر ہمدم قدم پر جوساتھ دے گی اگر گرے توسنبھال لے گی۔اب خاموشی کو توڑ دو ایک بہترین ملک اور اچھے سماج کیلئے لڑو!
اپنے اور سب کے حق کے لیے۔ اگر تم بزدل ہو لڑ نہیں سکتے تو ایسا کردو کہ رہتی دنیا تک بھلا ئی کا رگرد ہو۔ یا پھر کچھ ایسا لکھو وہ بھی نہیں کرسکتے تو کچھ بولو چپ رہنے سے کام نہیں ہوگا۔ بول بھی نہیں سکتے تو کم از کم جو لکھ رہے ہیں بول رہے اور لڑ رہے ہیں ان کی مدد کرو۔ اگر مد د بھی نہ کرسکو تو ان کے حوصلوں کو گرنے نہ دو! کیو نکہ!وہ آپ کے حصے کی بھی لڑائی لڑرہے ہیں۔ کوئی قوم اپنے وقت مقرر سے نہ پہلے ہلاک ہوتی ہے نہ پیچھے رہی سکتی۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ز مین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم توصرف اصلاح کرنے والے ہیں۔ الغرض ملک کی ہر ایک ریاست سے دھواں اٹھ رہا ہے،ناراضگی پائی جارہی ہے۔
عوام میں غم وغصہ ہے پھر یہ دیش مخالف نیتا یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ یہ بل دیش کی ترقی کے لیے وضع کیا گیا ہے اور اس سے تمام دیش واسی خوش ہیں۔ اب دیش واسی سے مراد ہندوستانی ہے یاکوئی اور؟ کیونکہ ہندوستانی عوام کی تواس بل کی ہر جگہ مسترد کررہی ہیں۔یوپی پولیس نے جو یونیورسٹیوں کے طلبا کے ساتھ بربریت کے ساتھ پیش آئے،جمہوری ملک کے لئے شرمناک عمل ہوگا۔ اپنے میں جہاں پولیس عوام کے خدبات اور ان کے تحفظ کے ہوتی ہے ان کی لاٹھی ہمیشہ ظالموں اور مجرموں کے لئے اٹھی تھی۔ ویہی لاٹھی آج بے قصور اور بے بس لوگوں پر اٹھ رہی ہے وہ پولیس آج سیاست کی کٹتھلی بن گئی ہے۔ یونیورسٹی کا واقعہ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ ان کا ظلم معصوم طلبا پر اور تو اور گھروں میں گھس کر عورتوں کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آرہے ہیں۔ ہندوستان کی جمہوریت کو داغ دار کررہے ہیں۔ آج کے دور کی تاریخ میں خاکی وردی کا نام بھی ظالم لوگوں میں درج ہوگا۔
مشہور ومعروف جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منگل کی شام کو جو ہنگامہ ہوا کچھ غنڈوں نے طلبا کو پیٹنا شروع کردیا جس سے کئی طلبا زخمی ہوگئے NRC,NPRاور CAAمیں شہریت کے خلاف عوامی غم وغصہ اب ملک گیر کی شکل اختیار کرچکا ہے مذہب اور دھرم کی تفریق کے بغیر ہر محب وطن ہندوستانی سٹرکوں پر آچکے ہیں۔ عوام کا یہ طرزعمل بتاتا ہے کہ سیکولزازم اس ملک کے سماجی تنوع کی حفاظت وبقاء کا ضامن ہے یونیورسٹی کے طلبا کے پرامن احتجاج پر پولیس کا نتھے طالبات پہ اور آر ایس ایس کے غنڈوں کا بہیمانہ تشدد ان کی بزدلی کو ظاہر کرتا ہے۔
رہائشی عمارات پر براہ راست فائرنگ اور پتھراؤ،لائبریری اور مسجد کے توڑپھوڑ کی ویڈویو وائرل ہوچکی ہے حق کی لڑائی میں جتنے بھی معصوم اور بے گناہ لوگوں پر حکومت کی جانب سے یا آر ایس ایس کی جانب یا پھر کبھی خاکی وردی کی جانب سے ہو۔ حق کی لڑائی میں ان کی قربانیاں اور خون پسینہ یا جان ومال رائیگاں نہیں جائے گا۔ جس طرح ہمارے بزرگوں نے آزادی میں اپنی جان ومال کی قربانیاں دے کر اس گلشن کا سجایا ہے اس طرح ہمارے نوجوان،بزرگ یا عورتوں کی حب الوطنی اس گلش میں پھر سے بہار لائے گی امن وامان پھر سے قائم ہوگا اور اس بہارِ گلشن میں نہ کی ذات پات،نہ مذہبی تفریق ہوگی اس ملک کی یہی شان جے ہند……
جب سے یہ قانون لاگو ہوا ہے نہ صرف عثمانیہ یونیورسٹی کے بلکہ جامعہ کی لڑکیوں نے انقلاب زندہ باد کے نعرے لگائے اس شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں خواتین کی بڑے پیمانے پر شرکت نے ہرکسی کو حیران کردیا ہے۔ دہلی میں تمام مظاہروں میں اسکول کائج کئی لڑکیوں کے ساتھ گھریلوں عورتیں بھی خوب شامل ہورہی ہیں۔ جامعہ نگر کے شاہین باغ میں تومورچہ میں ان عورتوں نے ہی سنبھال رکھا ہے اور گذشتہ16دنوں سے یہ عورتیں سٹرکوں پر ہیں۔