شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کےخلاف میں اہلیانِ بگدل کی جانب سےزبردست احتجاجی مظاہرہ
اہلیانِ بگدل نے قانون کو واپس لینے کا کیا مطالبہ، چیف منسٹر کرناٹک، وزیرداخلہ ہند اور صدر جمہوریہ کے نام بھیجا میمورنڈم
بیدر 30/ڈسمبر (اے این بی ) اہلیانِ بگدل کی جانب سے ایک زبردست احتجاجی مظاہرہ بس اسٹانڈ بگدل پر کیا گیا، جس میں قانون کے تحت ترمیمی قانون کے خلاف زبردست نعرے بازی کی گئی، نوجوانوں نے مختلف قسم کے پلے کارڈس اور قومی جھنڈے کو اپنے ہاتھوں میں لیے شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کی مخالفت میں پرزور احتجاج درج کرایا ۔
تفصیلات کے مطابق تمام اہلیانِ بگدل بالخصوص نوجوانان کی جانب سے سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت میں کیے گئےاس احتجاجی مظاہرے کی خصوصیت یہ رہی کہ تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائندے اور سماج کے مختلف طبقات کی اس مظاہرہ میں شمولیت رہی۔ ایک طرف نوجوانوں نے زبردست نعرے بازی کے ذریعے اس کی مخالفت کی تو دوسری طرف مظاہرے میں مختلف حاضرین نے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ یہاں پر ملک کی گنگا جمنی تہذیب ہے جہاں پر ہندو مسلم سکھ عیسائی آپس میں مل جل کررہتے ہیں اور یہاں کی مٹی میں یہ بات شامل ہے کہ ہم آپس میں بھائی بھائی ہیں، جبکہ مرکزی حکومت اس کالے قانون کے ذریعے ہم ہندوستانیوں میں تفریق کے بیج بونے کی ناکام کوشش کر رہی ہے جو کہ ناکام ثابت ہوئی اور ہمیشہ بھی ناکام ثابت ہوگی۔
تمام مقررین اور قائدین نے این آر سی اور سی اے اے کےمضراثرات جومعاشرے پر پڑنے والے ہیں اپنے بیان میں بتایا اور اس قانون کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کیا اور اسے غیر دستوری بتایا۔
اس موقعہ پرایڈوکیٹ بابوراوٴہنا، سید منصور قادری بیدر،حنان غازی، نذیر احمد ممبر گرام پنچایت، محمد نسیم الدین صدرویلفیئر پارٹی بگدل کےعلاوہ عیسائی پاسچر رابن، شیوراج کڈگی، ایم اے سمیع، محمد یحی کے علاوہ دیگر افراد نے اس احتجاجی مظاہرے کو مخاطب کیا۔
اس موقع پر اس احتجاجی مظاہرے میں سینکڑوں افراد کی شریک رہے بالخصوص نوجوانوں نے اس احتجاجی مظاہرے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے اپنے غصے کی کیفیت کا اظہار کیا، احتجاجی مظاہرے کے بعد ڈپٹی تحصیلدار، بگدل کو مختلف تنظیموں کی جانب سے دستخط شدہ میمورنڈم چیف منسٹر کرناٹک، وزیرداخلہ اور صدر جمہوریہ ہندکے نام میمورنڈم کو پیش کیا گیا۔
ڈپٹی تحصیلدارنے قبول کرتے ہوئے ان تک پہنچانے کا تیقن دیا، دوران احتجاج قومی ترانے کو بھی مظاہرین نے گایا۔ اس موقع پر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی مشہور نظم “ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے” کے بھی چند اشعار محمد عبدالسمیع نے مظاہرین کے ذریعے کو ساتھ لے کر پڑھ کر سنایا اور اس دوران انہوں نے اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ بنیادی طور پر دستور کے مختلف دفعات کی اس نے خلاف کو بھی انہوں نے تمام مظاہرین کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اس طریقہ کے کالے قانون سے بالخصوص طلبہ اور نوجوان ہرگز ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، بہتر ہوگا وزیر داخلہ اور وزیراعظم اس پر نظر ثانی کرے اور فورا اس قانون کو واپس لے۔
واضح رہے کہ اس احتجاجی مظاہرے میں بالخصوص نوجوانوں کے اندر اس کی مخالفت کو لے کر بڑی تشویش دیکھی گئی اور انہوں نے اپنےغصے کا اظہار مختلف قسم کے نعرے بازی کرتے ہوئے اس کالے قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا اور انھوں نے ملک کے وزیر داخلہ اور وزیراعظم سے اس بات کی بھی اپیل کی کہ وہ اس قانون پر نظر ثانی کرے اور عوام کے لئے جو بہتر ہو وہ کام کیے جائیں، کیونکہ جہاں پر جمہوریت پائی جاتی ہے اس جانب خصوصیت کے ساتھ مرکزی حکومت توجہ دے نہ کر عوام کو پریشان کرنے والے قوانین کو نافذ کرکےعوام کو ہراساں کرنا بند کرے۔
اس موقع پر سینکڑوں نوجوانوں کے علاوہ اہلیان بگدل کے معزز افراد بھی شریک رہے، جن میں معین قریشی، غوث الدین صاحب کرانہ، جناب محمد معین الدین صاحب، مقبول احمد حکیم، نوازعلی موزن، محمد اسماعیل، محمد نجینیر نذیراحمد، محمدیحیی، عبدالسمیع، علی محمد، محمد ساجد پاشاہ، محمد نظام سوداگر، محمد ضیاء الدین قریشی، احمد، محمد ملتانی، حافظ روشن، مجیب احمد سوداگر، بشیرسوداگر، غلام مصطفے، جہانگیر، محمد یوسف، سید ساجد محمد ندیم، رئیس احمد، نعیم حکیم، سکندرحکیم، کلیم حکیم، نجیب، محمد مختار، نثارمقطعدار، زبیراحمد غازی، احمد قریشی(امبانی)، ندیم، اقبال احمد، عمران حیسن، محمد فیصل، کلیم احمد، ندیم صابر، محمد توفیق، مبین احمد، سہیل، ضیاء، مدثر، طحی، عبدالغفار، تاج الدین، محمد ذاکر کے علاوہ دیگر سینکڑوں نوجوان موجود تھے۔ دوران احتجاج پولیس کا وسیع تر بندوبست دیکھا گیا۔