وقت کاتقاضہ ہے، ملی تنظیمیں ایک دوسرے کے دست بازو بنیں
ذوالقرنین احمد
یہ وقت بڑا نازک ہے مسلمانوں کیلے آنے والے مستقبل کو طئے کریں گا کہ انکا مستقبل تابناک ہے یا تاریک ہے۔ جس طرح سے فرقہ پرست عناصر کی اندرونی دشمنی سامنے آرہی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ انکے دلوں میں کتنی نفرت مسلمانوں کے خلاف بھری ہوئی ہے۔ آج مسلمانوں کے جو بڑی بڑی تنظیمیں ہے اس پر الزامات لگائے جارہے ہیں انکے کارندوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ فلاحی تنظیموں کو جو بلا مذہبی تفریق کے ہر جگہ پر مدد کیلے پہنچتی ہے۔ انہیں آر ایس ایس کی طرح کی تنظیم کہا جارہا ہے اگر حکومت کو یہ بات پتہ ہے کہ آر ایس ایس فرقہ پرست تنظیم ہے اور وہ ملک کے اتحاد کیلے زہر قاتل ہے تو پھر حکومت کے اندر اتنی ہمت کیوں نہیں ہے کہ وہ آر ایس ایس اور اسکی ذیلی تنظیموں پر پابندی عائد کریں اور اس کے تمام کارسیوکوں کو گرفتار کر کے سنگین الزامات عائد کرکے ان پر سخت قانونی کاروائی کریں کیونکہ یہ ملک کی ایکتا اور اکھنڈتا کیلے خطرہ ہے۔ یہ ایک فرقہ پرست تنظیم ہے جو آزادی کے بعد سے سرگرم ہے۔ اور ایک مشن کے تحت کام کرتی چلی آرہی ہیں۔ جس کے زریعے ہندو راشٹر کا قیام عمل میں لانا ہے۔
لیکن حکومت کیسے ان پر پابندی لگا سکتی ہے کیونکہ اب تو حکومت میں ہی یہ تمام فرقہ پرست عناصر برسر اقتدار ہیں۔ اور حکومت کے اندر اتنی ہمت بھی نہیں ہے کہ وہ انکے خلاف کچھ کاروائی کریں نا ان فرقہ پرستوں کے خلاف پولس کی لاٹھیاں چلتی ہے نا آنسوں گیس کے گولے داغے جاتے ہیں نا بندوق کی گولی چلتی ہے چاہے وہ لوگ بابری مسجد کو حفاظتی دستوں کے سامنے شہید کردے۔ یا مسجد میں گھس کر مسجد کی حرمت کو پامال کرے۔ یا مسلمانوں کے گھروں میں انکی یونیورسٹی میں گھس کر عوام کے طلباء کے ساتھ زبردستی کرے ان پر تشدد کرے۔ انکے ہاتھ شل ہو جاتے ہیں یا انہیں لکھوا پڑ جاتا ہے۔ کیونکہ ان فرقہ پرستوں کے حوصلہ اب اتنے بلند ہوچکے ہیں کہ نا جمہوریت اور نا آئین کو تسلیم کرتے ہیں۔
یوپی میں ظلم و جبر تشدد کا ننگا ناچ کھلے عام جاری ہے۔ پورا یوپی اس وقت بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے۔ بدترین ظلم مسلمانوں پر کیا جارہا ہے۔ آج ایک خبر پڑھیں ہے جس میں ایک معصوم بچے کو ماں سے الگ کردیا گیا جبرا گھروں سے اٹھاکر جھوٹے الزامات میں سنگین کیس درج کیے جارہے ہیں۔ مسلمانوں میں خوف و دہشت کا ماحول ہے عوام کو دہشت زدہ کیا جارہا ہے۔
اب ضرورت ہے کہ کھل کر انکا سامنا کیا جائے۔ حکومت اپنے اقتدار کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ انسانی حقوق کی پامالیاں سر عام کی جارہی ہے۔ اور میڈیا خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ جبکہ عالمی سطح پر یہ تشدد کی خبریں پہنچ چکی ہے۔ بی بی سی وغیرہ کی خبریں موصول ہورہی ہے۔ جس میں صاف ویڈیوں میں کون کس پر ظلم کر رہا دیکھائی دے رہا ہے۔ اور ہیومن رائٹس کمیشن حکومت سے چار ہفتوں میں اسکی تفصیلات پیش کرنے کیلے کہ رہی ہے۔ جو ہوا اس میں مجرم کوئی اور ہی ہے اور کاروئی بے قصوروں پر کی جارہی ہے لیکن ابھی فلحال جو حالات بنے ہوئے ہیں اس پر قابو پانے کیلے کیا کیا جارہا ہے۔
آج ملی تنظیموں اور تمام ملی قیادت کو متحد ہوکر مضبوط اور سوجھ بوجھ کے ساتھ لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے جو حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ہمیں کیا کرنا چاہیے کیسے حالات پر قابو پانا چاہیے کس طرح سے پوری قوم کو اعتماد میں لے کر انکی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ ہم میمورنڈم پیش کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ جانے کی بات کر رہے ہیں۔ اور حکومت ٹھس سے مس نہیں ہورہی ہیں۔ عوام کو ورگلانے کا کام کررہی ہے۔ اب شہریت ترمیمی قانون پر عمل درآمد کرنے کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا جارہا ہے جس کو این آر پی کہا جاتا ہے اس کے زریعے عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ جس میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ اسکے کسی دستاویزات کی ضرورت نہیں ہے۔ جبکہ یہ این آر سی کیلے زمین تیار کی جارہی ہیں۔ بی جے پی کے زریعے شہریت ترمیمی قانون کے حق میں ریلیاں نکالی جارہی ہے۔ ایسے حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرنا بہت ضروری ہے عوام کے اندر امید کو جگانے کا کام قائدین نے کرنا چاہیے اور تنظیموں کو کریڈٹ لینے کے بجائے اب خلوص و اتحاد کے ساتھ ہر محاذ پر کھڑا رہنا چاہیے۔
صرف یوپی ہی نہیں پورے ہندوستان میں جہاں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں پر احتجاج کر رہی عوام پر ظلم و تشدد کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کی جائیدادوں کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ جو ویڈوں وایرل ہورہے ہیں اس میں صاف دیکھائی دے رہا ہے کہ پولس کے ساتھ فرقہ پرست عناصر کو بھی ظلم و جبر کیلے بھیجا جارہا ہے تاکہ پولس پر کوئی الزام نا آسکے۔ گھروں پر لاٹھیاں برسائی جارہی ہے عوام کے اندر ڈر و خوف کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ یہ ایک ظالم و جابر حکومت ہے۔ یہ مظلوم بے قصور عوام کی آوازوں کو دبانے کیلے تمام حدیں پار کر رہی ہیں۔
ضرورت ہے کہ اب زمینی سطح پر کام کیا جائے مسلمان غفلت سے بیدار ہوجائے ورنہ حالات کی نزاکت کچھ اور ہی اشارہ کر رہی ہے۔ اب یہ وقت خاموشی اختیار کرنے کا نہیں ہے۔ جو ہو سکتا ہے کر گزرے زرا سی غفلت آنے والی نسلوں کیلے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ جو اس بات کی مصداق ہے کہ لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی ۔