آؤان بڑھتی نفرتوں کی دیواروں کو گرائیں…
چودھری عدنان علیگ
لہو میں لتھ پتھ یہ ملک، خون کی نالیوں سے شرا بور ہر شہر، معصوم نوجوانوں کے خون سے ڈھکی ہوی جامعہ کی دیواریں، طلبہ اور طالبات کی چیخوں کی گواہ لائبریری، سر سید کے چمن میں کیمیکل و آنسو گیس کی بارشوں کے بارود کی بدبو سے اٹی ہوی وہاں کی نالیاں، بے قصور طالب علموں کی پھٹی کٹی قمیصیں اور ان پر رنگا ہوا انکا لہو،سنبھل کی فلک بوس عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوے نوجوانوں کے اجسام، مظفر نگر اور کانپور پر پیدا کیا ہوا پولیس اور سنگھیوں کا قہر ،منگلورو کی سر بریدہ لاشیں. لکھنؤ میں جلے ہوئے خون کی سرانڈ سے متعفن فضاء، کٹے، پھٹے اور اِدھر اُدھر بکھرے انسانی اعضاء، روتے بلکتے بچے، نوحہ اور بین کرتی غم و یاس کی مورت بنی مائیں.ملک بھر میں سنگھی حکومت کے ہنگاموں سے گھبرائے ہوے بے بس باپ اس بات کی علامت ہیں کہ اب وقتِ اذن ہے کہ اب وقت خاموش بیٹھے یونہی تماشہ دیکھنے کا نہیں ہے۔
اب وقت ہے اس ملک کو پھر سے نئ راہ اور سیدھی راہ دکھانے کا نفرت کی بھڑکائی ہوی آگ کو بجھانے کا اور ظالموں کو نیست و نابود کرنے کا کیونکہ اگر آج ہم کمزور پڑ گئے اور ہم نے اپنی آوازیں ظلم کے خلاف بلند نہیں کیں تو یاد رکھو یہ ملک جہنم میں تبدیل ہوجایگا جہاں بس ایک آگ ہوگی جس میں یہاں کا ہر باشندہ جل رہا ہے ہوگا کیونکہ اس ملک کے غدار حاکموں نے ملک کو اس وقت اس دہانے پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سے بس تباہی و بربادی اور خون خرابے کا دور شروع ہوتا ہے ملک کو بیچ کر ملک کی معاشی جڑیں خالی کرکے ان ظالموں نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے پوری عوام کو مذہبی نفرت وتشدد میں دکھیلنے کی کوشش کی ہے اور انکی یہ ناپاک کوششیں برابر جاری ہیں.
ذرا سوچئے، غور کیجیے کہ انکی پلاننگ کتنی مضبوط اور مستحکم ہے پہلے ملک بھر میں یہ مذہبی نفرت کی آگ لگائی اسکے بعد اپنے ہی غنڈوں سے دنگے کرائے اور پھر ملک بھر سے نوجوانوں کو اٹھانا شروع کردیا بچی کچی عوام کی آنکھوں پر اندھ بھگتی کی پٹی باندھ کر انکو نفرت کا چشمہ پہناکر ترتیب وار ہر مذہب کے مضبوط اور سچے حق پرست لوگوں کو گرفتارکرنا شروع کردیا گرفتاری میں ان ظالموں نے نہ بچوں کی فکر کی اور نہ ہی ماؤں کی نہ نئ نویلی دلہنوں کی کوئی پرواہ کی. مودی اور گودی میڈیا کی ہٹلر گردی نے گھر گھر میں بے چینی پیدا کردی صرف حق مانگنے کی وجہ سے اب تک تقریباً 15 ہزار لوگوں کی گرفتاری ہوچکی ہے جن پر ہنگاموں اور دہشت گردی کے آروپ ہیں جبکہ ہر جگہ ہنگامہ برپا کرنے میں پولیس سب سے آگے رہی ہے جسکی شہادت موجودہ ویڈیوز خود دیتی ہیں لیکن پولیس پر کوئی کاروائی نہیں، کوئی مقدمہ نہیں، لیکن حق مانگنے نکلے سڑکوں پر بے قصور عوام اور ملک کے مستقبل طلبہ اور طالبات پر ڈھیروں سارے مقدمے درج ہوچکے ہیں۔
جن میں پیش پیش بی ایچ یو، اے ایم یو، جے این یو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، ندوہ، لکھنؤ، دیوبند اور دیگر ادارے کے طلبہ اور طالبات پر ہزاروں مقدمے درج کرکے انکے پوسٹرس جگہ جگہ چسپاں کرکے یہ سنگھی حکومت انکو گرفتار کرنے پر تلی ہوی ہے۔ انکا جرم صرف اتنا ہے کہ انہوں نے اپنا حق مانگا، ملک کے دستور کو بچانے کی بات کی، مذہبی نفرت پیدا کرکے سیاست کرنے سے منع کیا جسکی پاداش میں بہت سی سنگین دھارائیں لگاکر حکومت نے لوگوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا حد تو جب ہوگیی جب اس ظلم کا شکار ایک چھوٹی سی ایک سال کی پیاری معصوم چمپک بھی ہوگئی، اس وقت ایک طرح سے یہ ایک سالہ معصوم چمپک سزا کاٹ رہی ہے کیونکہ بنارس میں CAA، NRC کی مخالفت میں سڑک پر اترے بنارس کے روی شیکھر اور ایکتا شیکھر کو پولیس نے پر امن احتجاج کرنے کی وجہ سے گرفتار کرلیا چمپک انکی اکلوتی بچی ہے پیاری چمپک جو اس گرفتاری کی وجہ سے ماں باپ سے دور کر دی گئی۔
پولیس نے شرط رکھی کہ روی اور ایکتا شیکھر سے انکی فیملی کے لوگ مل تو سکتے ہیں لیکن اس معصوم بچی کے ساتھ نہیں اگر یہ بچی ملیگی تو اسکو بھی جیل میں جانا پڑیگا بتایا جارہا ہے کہ ماں سے چھ دن دور رہنے کی وجہ سے اب تک اس بچی کے وزن میں کافی گراوٹ آئی ہے، یہ بچی ہر وقت اپنی ماں کو تلاشتی رہتی ہے نہ کچھ کھاتی ہے نہ پیتی ہے بس ہر وقت موبائل میں اپنی ماں کی فوٹوز دیکھتی رہتی ہے اور روتی ہے چلاتی ہے بچی کی دادی کا کہنا ہے کہ موبائل دیکھتے دیکھتے اسکی آنکھوں سے پانی نکلنے لگتا ہے آنکھیں لال ہوجاتی ہیں جسکی وجہ سے پوری فیملی ڈسٹرب ہے ھائے رے یہ دکھ یہ تکلیف یہ عذاب۔
جب اس مودی حکومت نے ایک شیر خوار بچی کی بھی پرواہ نہیں کی تو بڑے بوڑھوں اور ملک کے نوجوانوں کی کیا حفاظت کریگی۔ مجھے سوچ سوچ کر اس بچی کی تکلیف پر رونا آرہا ہے اور جب اس بچی کی ماں کی ممتا کے بارے میں سوچتا ہوں تو دل کانپ اٹھتا ہے ،آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں اس وقت بیٹھا ٹائپ کررہا ہوں لیکن خود پر قابو نہیں ہے کیسے آواز پہنچاؤ ایوانِ حکومت تک کہ بند کرو یہ ظلم، خدا سے ڈرو وقت کے فرعونوں، کیوں ایک بچی کو اسکی ماں باپ سے دور کررہے ہوں کیوں؟ کیسے سمجھاؤ اس ملک کی اندھ بھکت عوام کو کیسے سمجھاؤ لوگوں کو کہ ہوش کے ناخن لو سوچو اور بچار کرو کہ ملک کدھر جارہا ہے اس پیارے ھندوستان کو جہنم میں کیوں جھونکنے پر تلے ہوے ہوں.
یاد رکھو اے باشندگان ملک! اگر ابھی بھی حکومت سے بغاوت نہیں کی تو اس ظلم و بربریت میں ہم بھی معاون ثابت ہو نگے، ہمکو بھی اس کا جواب دہ ہونا پڑیگا.
اب بس ایکجٹ ہوکر اس سنگھی حکومت کا بائیکاٹ کرو، ہٹاؤ ان سفاک ظالموں کو اب بس بہت ہوگیا یہ ظلم یہ زبردستی کی حکمرانی یہ نفرت کی آگ. اپنے ہر ملکی بھائی سے کہو اسکو حقیقت سے واقف کراؤ اور عہد کرو کہ اب نہیں جلنے دیں گے ہم اس آگ کو کیونکہ ہمکو اپنی آنے والی نسلوں کو بھی جواب دینا ہے کیا دیں گے انکے ہاتھوں میں ہم، کیا ایک بکھرا ہوا ھندوستان؟ یا مذہبی نفرت کی آگ میں جھلسا ہوا ھندوستان؟ یا بے روزگار ھندوستان؟ نہیں ہر گز نہیں اب ہمکو پھرسے سینچنا ہوگا اس ملک کو پھر سے اسکی چہار دیواری کو محبت بھائی چارگی کی اینٹوں سے چننا ہوگا اور ان شاء اللہ ہم ایسا کرکے رہیں گے.
اب وقت ہے اتحاد کا، اتفاق کا، لبیک کا، ملک کی بقاء کی خاطر، جمہوریت کی بقاء کی خاطر، دستورِ ھند کی بقاء کی خاطر.
آؤ اب سب ملکر ملک کو غداروں سے بچائیں
آر ایس ایس کے چمچوں سے بچائیں
آؤ ان بڑھتی نفرتوں کی دیواروں کو گرائیں..