طلبائے علی گڑھ کے نام: ایک صدا، ایک پیام
پروفیسر راشد شاز
عزیز شاگردو! طلباء و طالبات
وطن عزیز اس وقت تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ علی گڑھ اور جامعہ کے غیور طلباء و طالبات نے نظام جبر کے خلاف جو آواز بلند کی تھی، الحمدللہ کہ اب یہ ایک فلک شگاف نعروں میں تبدیل ہوچکی ہے، جس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ برج کورس کی اپنی آخری تقریر میں، میں نے کہا تھا کہ حق و صداقت پر جم جانے والوں کے لیے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کی مدد کے لیے آسمان سے فرشتے نازل کرے گا اور پھر جے این یو کی تقریر میں اس امر کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ فرشتوں کے نزول کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی حمایت میں وہ ان لوگوں کو کھڑا کردے گا جن کا تصور آپ کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آتا۔ مایوسی اور محرومی کی اس عقوبت گاہ میں جس میں ایک مدت سے ہندوستانی مسلمان زندگی جینے پر مجبور ہیں، بابری مسجد پر غیرمنصفانہ فیصلہ نے گویا تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی تھی۔ اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں شہریت ترمیمی قانون کو ٹھنڈے پیٹوں قبول کرلینے کا واضح مطلب تھا کہ ہم بحیثیت امت خود اپنے ہاتھوں سے برضا و رغبت اپنی اجتماعی تدفین کی انجام دہی میں لگ جائیں۔
ہماری ملّی اور مذہبی قیادت نے، بابری مسجد فیصلہ کے بعد اور اس سے ذرا پہلے، اغیار کے ایوانوں میں جس طرح اس حادثۂ ملّی پر مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا اور جس طرح اس صریح ظلم عظیم کو امن و امان کے نام پر جواز بخشنے کی کوشش کی، اس سے تو یہی تاثر قائم ہوتا تھا کہ ہندوستانی مسلمان سقوطِ اندلس کی طائفۃ الملوکی اور نازی جرمنی میں شکست خوردہ اہل یہود کی نفسیات میں گرفتار ہوتے جارہے ہیں۔لیکن تب بھی میں اپنے شاگردوں سے یہی کہتا تھا کہ ان جیسے تاریخی تجربوں میں ہمارے لیے عبرت کا سامان ضرور ہے، البتہ حقائق کی دنیا میں کسی آزمودہ فارمولے کو اسی کامیابی کے ساتھ دہرانا ممکن نہیں ہوتا۔
امت کے اجتماعی ضعف کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ پچیس کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کو اغیار نے کاپوؤں کے ایک مختصر دستہ کے ذریعہ کنٹرول کررکھا تھا۔ اس عمل پر ستر سال کا عرصہ گزرا، ہر روز ہمارے اندرون میں کوئی چیز ٹوٹتی رہی، ہم رفتہ رفتہ امت مامور کی نظری بلند آہنگی سے نکل کر امت مقہور کی نفسیاتی فضا کے اسیر ہوگئے۔ ہمارے قائدین جنھوں نے اپنے معمولی دنیاوی مفاد کے عوض ہمیں ’راہ راست‘ پر رکھنے کا ٹھیکہ لے رکھا تھا، حکمت اور مصلحت کے نام پروہ ہمیں ہر ظلم اور ناانصافی پر خاموش رہنے کا مشورہ دیتے۔ کاپوؤں نے اپنے مکروہ مفاد پر تقدس کی قبا لپیٹ رکھی تھی۔ ان کے روحانی تصرفات اور قدسی صفاتی کا پروپیگنڈہ اتنا پرشور تھا کہ عام لوگوں کے لیے یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ بھاری بھرکم اور پرشکوہ القاب و آداب کے تلے انتہائی چھوٹی شخصیتیں رہتی ہیں۔ شہریت ترمیم بل سے پیدا ہونے والی صورت حال نے قدسی صفاتی کی طنابیں کچھ اس طرح کھینچ لی ہیں کہ اب ہر چیز جیسی کہ وہ ہے مبرہن نظر آنے لگی ہے۔ اللھم أرنی الأشیاء کما ھی۔
مجھے افسوس ہے کہ پندرہ دسمبر کی شب ہمارے طلباء پر بڑی سخت گزری۔ البتہ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کی اس لڑائی میں ہمارے شاگردوں نے بھی اپنا خاطرخواہ حصہ ڈالا ہے۔ ایک نئی، پرعزم اور باحوصلہ قیادت جس کا میں مدت سے خواب دیکھتا رہا ہوں اور جو برج کورس کے قیام کا بنیادی محرک ہے، الحمدللہ کہ علی گڑھ اور جامعہ کے واقعات نے اس کی تعبیر کے امکانات روشن کر دئے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حق و انصاف کی اس جدوجہد کو خدا کی نصرت اور رسولؐ کی بصیرت سے مملو رکھا جائے۔ اس سلسلے میں پہلی بات یہ سمجھ لینے کی ہے کہ ملک بھر میں اہل حق ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے مختلف طائفے، جو حق و انصاف کی اس لڑائی میں آپ کا ساتھ دے رہے ہیں، ان سے ہمارا ایک مذہبی رشتہ ہے۔ فی قومِ موسی أم یھدون بالحق اور لیسوا سواء من اھل الکتاب جیسی آیات اس امر پر دال ہیں کہ خدا کے سچے بندے ہر مذہبی طائفے میں موجود ہیں۔ ہندوستان کے ہندو ویسے بھی ہمارے لیے شبہ اہل کتاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس خیال کی تائید میں البیرونی، شہرستانی و دیگر علماء کی تحریریں موجود ہیں۔ قرآن مجید ہمیں اہل ایمان کے مختلف طائفوں سے کلمۂ سواء کی بنیاد پر اشتراکِ عمل کا حکم دیتا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی کے خانوں میں سوچنے کے بجائے حق و انصاف کے علم برداروں کا ایک وسیع تر اشتراک عمل میں آئے۔ لباس اور ثقافت پر نہ جائیے۔ ایک غیرمسلم خاتون جو اپنے ظواہر سے خدا شناس یا روحانی نہیں دِکھتی، اگر وہ ظلم و ناانصافی کے خلاف کھڑی ہوجاتی ہے تو یقینا وہ ان قدسی لباس مذہبیوں سے بہتر ہے جو خدا کے بجائے اپنے ہی جیسے انسانوں سے ڈرتے اور معمولی مفاد کے لیے عزت نفس کا سودا کرنے سے نہیں چوکتے۔ ہم مسلمانوں کو تو یوں بھی وسعت قلبی کی بار بار تلقین کی گئی ہے۔ وقالوا کونوا ھوداً أونصاریٰ قل بل ملۃ ابراھیم، صبغۃ اللہ ومن أحسن من صبغۃ اور کونوا ربانین جیسی آیات ہانکے پکارے کہہ رہی ہیں کہ اشتراک عمل کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ہمارا ہم قوم ہو۔ اہل مذاہب کے مختلف طائفوں میں ربانیین اور صبغۃ اللہ کے حاملین ہمارے فطری حلیف ہیں۔
خاص طور پر ایک ایسی صورت حال میں جب انسانیت پر فسطائیت کے خطرے بڑھ گئے ہوں، حق و انصاف کے لیے کھڑے ہونے والے ہر فرد کا کھلے دل سے استقبال اور احترام کرنا چاہیے۔ یہی میثاقِ مدینہ کی روح ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ اہل وطن کو پوری شدت کے ساتھ اس امر پر آگاہ کیا جائے کہ دینی اعتبار سے ہمارا آپ سے ایک ناقابل تنسیخ رشتہ ہے۔ ہم نہ صرف یہ کہ آپ کے بہی خواہ ہیں بلکہ نظری طور پر ایک ایسے معاشرے کے قیام کے داعی ہیں، جہاں اہل مذاہب کے تمام ہی طائفے باہمی یگانگت کی فضا میں رہ سکیں۔ جب تک ہم بڑے پیمانے پر اس اقدامی عمل کا ڈول نہیں ڈالتے ہمارے خلاف نفرت کا مذموم پروپیگنڈہ بے اثر نہیں ہوسکتا۔
عزیز شاگردو!
مجھے دکھ ہے کہ پندرہ دسمبر کی شب کو علی گڑھ میں جو سانحۂ فاجعہ پیش آیا اور جس طرح آپ لوگوں کو فی الفور ہاسٹل خالی کرنا پڑا، اس سے وقتی طور پر تو ظلم و ناانصافی کے خلاف آپ کی جدوجہد مدھم پڑگئی۔ علی گڑھ میں ایک مدت سے مردنی چھائی تھی۔ ملّی اور ملکی مسائل پر کسی کو بولنے کا یارا نہ تھا۔ یونیورسٹی جس کا تصور ہی خیالات کی آبیاری کے دم سے ہے، اس پر قبرستان کا سا سکوت طاری تھا، اگر ظلم و ناانصافی کے خلاف علی گڑھ سے آواز بلند نہ ہوتی تو یہ ایک بڑا سانحہ ہوتا۔ 2020ء میں جب یونیورسٹی اپنے قیام کا سو سالہ جشن منائے گی، مجھے خوشی ہے کہ ہم پورے جوش و خروش کے ساتھ ایک زندہ یونیورسٹی کا جشن مناسکیں گے۔ ایک ایسی دانش گاہ جہاں خیالات کی آبیاری ہوتی ہو، رات کی تنہائی میں قرطاس و قلم کی مدد سے جب کوئی طالب علم کوئی غیرمعمولی خیال (idea) تخلیق کرتا ہے تو اس کی دھمک دور بہت دور سنی جاتی ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے انقلابات اور ایجاد و اختراع کے عظیم کارنامے اسی خیال کی مرہون منت ہوتے ہیں۔
یونیورسٹی کے موجودہ حالات سے زچ ہوکر بعض طلباء نے سوشل میڈیا پر اس طرح کی پوسٹیں لگائی ہیں: ـ’صبح بے نور کو، وی سی منصور کو، میں نہیں جانتا، میں نہیں مانتا‘۔بعض طلباء نے غم و غصہ کے اظہار میں ناشائستہ الفاظ کا بھی سہارا لیا ہے۔ آپ کا غصہ یقینا حق بجانب ہے کہ یونیورسٹی میں پولیس کی سفّاکی کا جو مظاہرہ ہوا اور جس طرح آپ کی مادر درس گاہ آپ کے لیے اجنبی بنادی گئی اور طرفہ یہ کہ اس مکروہ عمل کو جواز بخشنے کی مختلف تاویلیں کی گئیں تو اس پر آپ کا بے قابو ہوجانا فطری ہے، لیکن یاد رکھئے، تہذیب و شائستگی ہم علی گڑھ والوں کی پہچان ہے، یہ بھی اگر ہم سے چھن گیا تو باقی کیا رہ جائے گا؟
شہریت ترمیم قانون کی مخالفت ہمارے ملی وجود کی لڑائی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ پوری علیگ برادری اس مہم میں آپ کی پشت پر کھڑی ہوتی۔ لیکن افسوس کہ وائس چانسلر اور ان کے حواریوں نے اس تحریک کی سرکوبی کے لئے کیمپس کو پولس کے حوالے کر دیا۔ شاید ان کامقصد یہ تھا کہ طالب علموں کا ایسا شافی علاج کیا جائے کہ بقیہ ڈھائی سال تک کسی کو کسی ملی اور ملکی مسئلہ پر بولنے کا یارا نہ رہے۔ پھر جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ الہ باد ہائی کورٹ نے پولس ایکشن کو جنگ جیسی صورت حال سے تعبیر کیا۔بقول پروفیسر عرفان حبیب، جنھوں نے اپنی ۸۸ سالہ زندگی کا بیشتر حصہ علی گڑھ میں گزارا ہے، اس قسم کے بہیمانہ پولس ایکشن کی نظیر یونیورسٹی کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ حتی کہ انگریزوں کے دور میں بھی جب طلباء نے انگریز ایس پی کی پٹائی کر دی تھی، پولس کی مجال نہیں تھی کہ وہ کیمپس میں داخل ہو سکے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اور ان تمام لوگوں کو جو حق و انصاف کی لڑائی میں آپ کے ساتھ ہیں، اپنی خصوصی نصرت اور حمایت سے نوازے۔ آمین۔