سماجیسیاسیمضامین

عوام طاقت کا سرچشمہ ہے: ظلم کو برداشت کرنا بھی ظلم ہے

محمد شاہد خان

عوام طاقت وقوت کا سرچشمہ ہے، دنیا میں اس طبقہ سے زیادہ طاقتور کوئی اور نہیں ، وہ چاہے تو کسی کو آسمان پر بٹھادے اور چاہے تو زمین پر پٹخ دے ، وہ چاہے تو شاہ کو گدا اور گدا کو شاہ بنادے، وہ چاہے تو کسی تہی دامن کو پیر کامل ، رشی اور منی کا درجہ دیدے اور کسی نفس بیمار کو مسیحا بنادے ، وہ چاہے تو چھوٹے چھوٹے اداروں تنظیموں اور جماعتوں کو کامیابی کی اوج ثریا پر پہونچا دے اور چاہے تو انھیں قصہ پارینہ بنا دے ، وہ چاہے تو لاکھوں کروڑوں کے خرچ سے منعقد ہونے والی ریلیوں، جلسوں، کانفرنسوں اور مشاعروں کو کامیابی کا تمغہ دیدے اور چاہے تو ان کی قسمت میں ناکامی ونامرادی لکھدے ، وہ چاہے تو اپنے ووٹوں کی طاقت سے کسی ادنی کو اعلی ثابت کردے اور ایک چائے والے کو وزارت عظمی کی کرسی پر بٹھادے اور ٹرمپ جیسے سنکی کو ملک کا صدر جمہوریہ بنادے اور اگر وہ چاہے تو اعلی کو ادنی بنادے اور تونس کے سابق صدر زین العابدین جیسے شخص کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردے اور مصر کے سابق صدر حسنی مبارک جیسے مضبوط شخص کا بوریا بستر لپٹوادے، وہ چاہے تو باکس آفس پر ریلیز ہونے والی فلموں کی ٹکٹیں خرید کر اسے ہٹ کردے اور چاہے تو اسے فلاپ کردے ، وہ چاہے تو اپنی قوّت ِخرید سے ایک معمولی آدمی کو سرمایہ دار اور ایک معمولی بنئے کو صنعت کار بنادے اور اگر مارکٹ سے اپنا سرمایہ کھینچ لے تو بڑے سے بڑا بزنس امپائر اوندھے منھ گرجائے ، اگر وہ ارادہ کرلے اور اپنی احتجاجی قوت کا استعمال کرلے تو حکومتوں کا تختہ پلٹ دے اور فرعون وقت کو اس کی اوقات دکھادے !

لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب آدمی خود عوام کے خلاف پالیسیاں وضع کرتا ہے ، اس کے ٹیکس کے محصولات کو اپنی ٹھاٹ باٹ پر بے دریغ خرچ کرتا ہے اس کی آزادی کے خلاف قوانین بناتا ہے ، ابد الآباد تک اقتدار کی لالچ میں اسے غلام بنانے کی کوششیں کرتا ہے ، اسے اپنے ظلم واستبداد کی چکی میں پیستا ہے ، اور دو کوڑی کا وہ شخص جو عوام کے سرمائے سے اپنا بزنس امپائر کھڑا کرتا ہے ، موقع پاتے ہی مارکٹ کا استحصال شروع کردیتا ہے اور امیر تربننے کی ہوس میں ساری اخلاقیات کو پامال کردیتا ہے ، لوگوں کی عقیدت سے بنا ہواپیر مغاں اپنے متبعین کو علم کے بجائے جہل تقسیم کرتا ہے اور خدائی کی خدائی میں خود کو شریک وسہیم سمجھ بیٹھتا ہے ۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے!

دنیا کا سب سے طاقتور طبقہ اتنا مجبور وبے بس کیوں ہوجاتا ہے ؟
ایسا اسلیے ہوتا ہے کہ وہ اپنے لیڈر کو جوابدہ نہیں بناتا ، اس کا سماجی تانابانا نفاق اور خود غرضی سے تیار ہوتا ہے وہ خود اپنے ووٹوں کا سودا کرتا ہے اسلیے اپنے لیڈرکے رحم وکرم کا محتاج ہو جاتا ہے ، اس کی صفوں میں میر و جعفر تیار ہوتے ہیں ، اور وہ دن رات ان کی توقیر کرتا ہے ، وہ اپنی گاڑھی کمائی بڑے بڑے بینکرس کے حوالے کرتا ہے پھر اسے واپس پانے کے لیے ایڑیاں رگڑتا ہے
آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ جب عوام برائی کو انگیز کرنا شروع کردیتی ہے ، اپنے منتخب نمائندوں کو احتساب کی قید سے آزاد کردیتی ہے ، پیر مغان کو کتاب وسنت کی کسوٹی پر پرکھنے کے بجائے اسے ربوبیت کا درجہ عطا کردیتی ہے تبھی بدعنوانیوں کا دور دورا ہوتا ہے ، جہل علم پر بھپتیاں کستا ہے اور اس کا تمسخر کرنے لگتا ہے ، شرافت منھ چھپانے پر مجبور ہوجاتی ہے اور رزالت خم ٹھونک کر منھ چڑھانے لگتی ہے ۔
وہ بھی کیا زمانہ تھا کہ جب ایک معمولی بوڑھیا بھی خلیفہ وقت کو ٹوک دیا کرتی تھی اس وقت کا سماج ناحق کو برداشت نہیں کرتا تھا اور ناانصافی پر اسے معزول کردیا کرتا تھا ۔

کیونکہ جب عوام برائی میں مبتلا ہوگی تب اس کا نمائندہ بھی برائی میں مبتلا ہوگا ،جب احتساب کا نظام کمزور ہوگا تب ہر طرح کی لاقانونیت اور کرپشن کو راہ ملے گی
حدیث شریف میں بادشاہی نظام کے لیے الناس علي دين ملوكهم ( لوگ اپنے بادشاہوں کے طریقے پر ہوتے ہیں ) کہا گیا ہے لیکن جمہوری نظام میں , الملوک علي دين شعبهم ( حکمراں عوام کے طریقے پر چلتے ہیں ) کہا جاسکتا ہے ۔

اس لیے کہ اگر عوام راستی پر ہوگی تو اس کا نمائندہ بھی راستی پر ہوگا ، عوام بدعنوانیوں کو انگیز کرے گی ، ظلم کو برداشت کرے گی تو اس کا نمائندہ بھی بدعنوان ہوگا اور اس پر ظلم کرے گا آخر ایسا سماج کیوں نہیں تیار ہوتا کہ برائی کرنے والا کہیں منھ دکھانے کے قابل نہ ہو ؟
اور یہ اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک کہ ہم اور آپ مل کر پوری ایمان داری کے ساتھ ایک اچھے سماج کے تشکیل کی سعی نہ کریں ، ظلم اور ناانصافی کو برداشت کرنا چھوڑ نہ دیں ، کیونکہ ظلم کو برداشت کرنا بھی ظلم ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!