جوانوں نے سنبھالا ہے محاذ، احتجاج تحریک بن گیا
ساجد محمود شیخ، میراروڈ
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں سے تمام امن پسند شہریوں بالخصوص مسلمانوں میں خود اعتمادی لوٹ آئی ہے۔ 2014 میں مرکز میں بی جے پی کی حکومت قائم ہونے کے بعد مایوسی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ مگر اِن مظاہروں نے مایوسی کی اُس کیفیت کو ختم کردیا ہے اور ملّت کا حوصلہ بڑھ گیا ہے ۔اِس تحریک کی خوش آئند بات یہ ہیکہ ملت میں نئی قیادت ابھر رہی ہے۔
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پورے ملک میں مسلمانوں نے زبردست احتجاجی مظاہرے شروع کردئیے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر عوام نے اِن مظاہروں کا زبردست تعاون کیا ہے اور اِن میں بڑے پیمانے پر شرکت کررہے ہیں۔ بہت عرصہ بعد مسلمانوں کی طرف سے اس طرح کے مظاہرے ہورہے ہیں۔ تقریباً پینتیس برس قبل ۱۹۸۵ میں سپریم کورٹ کے ذریعہ شریعت میں مداخلت کے وقت ایک بڑی مہم تحفظِ شریعت کے نام سے مشہور ہے جو مسلمانوں نے ملگ گیر سطح پر چلائی تھی ۔اُس وقت سپریم کورٹ نے شاہ بانو کیس میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے مطلقہ کو نان و نفقہ کی ادائیگی کا حکم دیا تھا، جوکہ شریعت میں صریح مداخلت تھی۔ مسلمانوں نے اس فیصلے کے خلاف ملگ گیر سطح پر مہم چلائی تھی نتیجتاً اُس وقت کی راجیو گاندھی کی سربراہی والی کانگریس حکومت نے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کیا تھا اور شریعت بل پاس ہوا تھا۔
گزشتہ سال بھی تین طلاق بل کے وقت مسلمانوں نے احتجاج کیا تھا مگر وہ اُتنا موثر نہیں تھا۔ موجودہ احتجاج زیادہ پرزور انداز سے چل رہا ہے۔ شاید حکومت کے بھی وہم و گمان میں نہیں ہوگا کہ مسلمان اُٹھ کھڑے ہونگے اور اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج شروع کردیں گے ۔ یہ احتجاج اب تحریک بننے لگا ہے۔ ملک کے کونے کونے میں ہر چھوٹے بڑے قصبے، دیہات، گاوں، قریہ قریہ بستی بستی میں یہ تحریک پہنچ چکی ہے۔ کئی بڑے شہروں میں بے مثال احتجاج ہوئے ہیں ،جن میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ شریک ہورہے ہیں۔ ممبئی ،مالیگاوں ،کیرلا وغیرہ کے مظاہروں نے ریکارڈ قائم کیے ہیں ،اور عالمی میڈیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔
شاہ بانو کیس کے وقت ملت کی روایتی دینی قیادت بالخصوص مسلم پرسنل لاء بورڈ نے محاذ سنبھالا تھا ۔ مگر اِس مرتبہ حیرت انگیز طور پر مسلم پرسنل لاء بورڈ سمیت بہت سی ملی و دینی تنظیمیں خاموش ہیں۔ روایتی دینی و ملّی قیادت کی غیر موجودگی میں نوجوانوں اور طالبِ علموں نے محاذ سنبھالا ہوا ہے۔ اس سے ملّت میں ایک صالح، مخلص اور بیباک قیادت ابھرنے کے امکانات ہیں۔
اس تحریک کا دوسرا روشن پہلو برادرانِ وطن کا ساتھ ہے ۔ امیت شاہ نے سوچا تھا کہ شہریت ترمیمی بل کی منظوری سے مسلمانوں کے واویلا مچانے سے فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھے گی اور ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرکے سیاسی فوائد حاصل ہوں گے۔ مگر معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ ملک کے انصاف پسند دانشوروں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی تعداد بھی اِس تحریک کے ساتھ شامل ہو گئی ہے۔ جس کی وجہ سے ہندو فرقہ پرستی کا کھیل ناکام ہوگیا اور یہ لڑائی ہندو بنام مسلم کی نہیں بلکہ انصاف کی لڑائی بن گئی ہے۔
مسلمانوں کو چاہیئے کہ اِس تحریک کو کمزور پڑنے نہ دیں اور حصولِ ہدف تک پیہم کوششیں کرتے رہیں ۔ تاوقتیکہ حکومت مذکورہ ظالمانہ قانون واپس نہ لے ہمیں مسلسل مظاہرے کرتے رہنا چاہیئے، اور ہمیں چونکنا بھی رہنے کی ضرورت ہے۔ حکومت ہندو مسلم میں پھوٹ ڈالنے کی سازش کرسکتی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے بیان جس میں انہوں نے مظاہرین کو کپڑوں سے پہچاننے کی بات کی تھی۔ اس کے بعد مسلمانوں کے لباس اور ٹوپی پہنے پتھراؤ اور آگ زنی کرتے بی جے پی کے کارکن کی گرفتاری سے واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی اس تحریک کو بدنام کرنا چاہتی ہے۔
مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ ہر مظاہرہ میں برادرانِ وطن کو شامل کریں ۔ تحریک کو ٹھنڈا کرنے کے لئے حکومت نے طفل تسلیوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے ۔ یہ بات پھیلائی جارہی ہے کہ اس قانون سے بھارت میں موجود مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچنے والا ہے بلکہ یہ صرف دراندازوں کے لئے ہے ۔مگر ہمیں ان باتوں میں نہیں آنا چاہیے۔
مستقبل میں جب این آر سی نافذ ہوگا تو ایسے مسلمان جن کے پاس کے دستاویزات کی کمی ہوگی وہ اس قانون کی وجہ سے شدید دشواریوں کا شکار ہو سکتے ہیں ۔علاوہ ازیں ہمیں آسام کے اُن لاکھوں مسلمانوں کو بھولنا نہیں چاہیے جو این آر سی میں شمولیت سے محروم ہو گئے ہیں اور ان پر ملک بدر ہونے کی تلوار لٹکنے لگی ہے ۔ یہ تحریک ملت کی بقاء کی تحریک ہے۔ آج ہم جتنی قربانی دیں گے مستقبل میں کام آئے گی ۔
ہمارے احتجاج نے فرعون صفت حکمرانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ امیت شاہ نے مجوزہ این آر سی میں ممکنہ طور پر آسانیاں پیدا کرنے کی طرف اشارہ کیا ہے اور آدھار کارڈ کے ساتھ گواہی کو بھی قبول کرنے کی بات کی ہے ۔ یہ ہمارے عالیشان احتجاج کی بدولت ممکن ہوا ہے ۔
اس موقع پر منافقین سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ، چند بکاؤ قسم کے نام نہاد قائدین نے حکومت کی جانب سے صفائی پیش کرنا شروع کردیا ہے ۔ ملت کو چاہیئے کہ ان چاپلوسی کرنے والے ملت فروش لوگوں کے بہکاوے میں آۓ بغیر ہوشمندی کے ساتھ اپنی تحریک کو جاری رکھیں ۔ مسلمانوں اور بالخصوص طلبہ وطالبات نے جس بہادری کے جوہر دکھائے اور قربانیاں دیں ہیں ،انشاءاللہُ العزیز ہمیں کامیابی ملے گی۔ فرعون صفت حکمرانوں کو ذلّت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قدرت اُن کے غرور و گھمنڈ کو چکناچور کردے گی ۔
مستقبل کا مؤرخ تاریخ کے اوراق میں اِس تحریک نمایاں جگہ دے گا اور سنہرے حروف سے لکھا جائے گا کہ جب بھارت میں فاسشٹ حکمرانوں نے ظلم وستم کی انتہا کردی تو ایسے میں نہتے غیور مسلمانوں نے بڑے عزم و استقلال کے ساتھ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ظالم حکمرانوں کا مقابلہ کیا ۔