سماجیمضامین

میں ایک مقرر ہوں!

محمد انور حسین، اودگیر

میں ایک مقرر ہوں۔ کیوں نہ رہوں یہ شوق بچپن کا ہے ۔اسکول کے تقریری مقابلوں میں رٹی ہوئی تقریروں سے اس کا آغاز ہوا ۔کالج میں آتے آتے اس میں کچھ پختگی آگیی ۔کالج کے ایک تقریری مقابلہ میں جہاں تقریباً پچاس مقرر مقابلے میں تھے مجھے اول انعام مل گیا ۔پھر کیا تھا کہ یہ احساس ہونے لگا کہ

پھول کی خوشبو ہوا کی چاپ شیشہ کی کھنک
کون سی شے ہے جو تیری خوش بیانی میں نہیں

اصلاح ملت اور دعوت دین کے جذبہ نے انگڑائی لی تو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیسے کیا جائے ، پتہ چلا کہ اس کا واحد ذریعہ تقریر ہے ۔۔۔
اب میں تقریریں سننے لگا تاکہ میں بھی تقریر کر سکوں ۔ خدا کا فضل ہوا کے احباب میں کچھ مقررین میسر آگیے تھے
ہمارے ایک ہر دللعزیز دوست جو آج ایک معروف شخصیت بھی ہے اور بلند پایہ مقرر بھی اور بہت سے لوگوں کے ہر دلعزیز ۔۔جب تقریر کرتے تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم تیز آبشار کے نیچے نہارہے ہوں جب سانس سنبھلتی تو کافی فریش ہوچکے ہوتے ہیں ۔
ایک اور دوست ہیں، جب وہ تقریر کرتے تو گردن میں کچھ ایسا خم پیدا کرتے کہ شاید سیدھا دیکھنے سے تیڑھی دنیا کا حال سنایا نہیں جاسکتا ہے۔ ان کے پاس لہجے کے جلال اور الفاظ کےجمال کا اتنا حسین امتزاج ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو ۔
ایک اور ہمارے مربی ہیں، طالب علمی کے زمانے میں ان کی تقریروں نے تربیت کی ۔قد لمبا ،رنگ ضرورت سے زیادہ گورا، جسمات فربہی مایل، ہونٹ جیسے سیٹی بجارہے ہوں، ٹھیک اس کے اوپر گال پر ایک مسسہ، آواز میں نازک شفقت، قہقہ مار کے ہنستے اور خوب ہنستے اور جب ہنسی زیادہ ہوجاتی تو آواز اور شخصیت کا تعلق ٹوٹ جاتا اچانک نازک آوازیں حلق سے نکل آتیں جیسے اندر کوئی اور ہنس رہی ہو ۔۔۔
لیکن تقریر میں الفاظ مصری کی ڈلیاں ۔قرانی آیات کی روانی ایسی جیسے پھولوں کی بارش ہورہی ہو ۔۔

اس کے علاوہ مختلف مسجدوں، جلسوں، اجتماعات اور ریلیوں میں، متنوع، خوش مزاج،مسخرے، رعب دار، رنگ برنگ، سرد وگرم، صرف سرد اور صرف گرم لہجہ کے مقررین کو سننے کا موقع ملتا رہا۔

کچھ ڈیلی کارنگی کی کتابیں ہاتھ لگیں اس نے تقریر کے کچھ گر سکھاے ۔۔لیکن ساتھ میں مکاریاں اور اداکاریاں بھی سکھا گیا ۔ایک جگہ لکھتا ہے کہ مقرر کو تقریر کرتے ہوے سامعین کو پتھر سمجھنا چاہئے، اس دن سے کارنگی دل سے اتر گیا ۔ہمیں تو پتھروں پر سر پھوڑی بالکل بھی پسند نہیں تھی ۔۔مطالعہ کی خواہش اور اس کے عملی جامہ کی متضاد کیفیتوں کے درمیان اقبال کا وہ شعر جو نصاب کی کتاب سے امتحانی پرچہ میں بحوالہ متن تشریح لکھنے کے لیے پڑھا تھا کہ

انداز بیان گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

بس اسی دعوی کے ساتھ تقریریں کرنی شروع کردی ۔ہر تقریر کے بعد نگاہیں مختلف لوگوں کی طرف گھوم جاتی اور بڑی حسرت بھری نگاہوں سے تعریف کے میٹھے بول اور توصیفی مسکراہٹوں کی تلاش میں بےچین رہتی ۔۔ایک دو لوگوں کی تعریف بھی طمانیت کا باعث بن جاتی ۔۔اسی طمانیت کے پیٹ سے طمع جنم لیتی اور نیی تقریر کی تیاری شروع ہو جاتی ۔۔۔۔معلوم ہوا کہ اچھی تقریر کے لیے مطالعہ ضروری ہے اس لے مطالعہ براے تقریر کی عادت پروان چڑھنے لگی ۔۔کبھی زیادہ مطالعہ کرتے ہوے پاے گیے تو بیگم کا ڈایلاگ سننے کو مل جاتا کہ شاید عنوان مشکل ہے ۔!

اب تو یہ حال ہے کہ پرانی دو تین تقریروں کی مدد سے ایک نئی تقریر آسانی سےبن جاتی ہے ۔۔اب تو فی البدیہہ بھی مشکل نہیں ۔اب تو ہمارے ساتھی تقریر کے معاملہ میں مجھ کو مشکل کشا سمجھنے لگے ہیں ۔۔ شاعروں کی خصلت بھی پروان چڑھنے لگی ہے کہ بس اپنی سناو ۔۔دوسروں کی سننے کی کیا ضرورت!
اس کے باوجود بھی مستند مقرر نہیں بن سکا! خطبہ جمعہ سے کافی خوف لگتا ہے کیونکہ وہاں لوگ کیا بول رہا ہے سے زیادہ آخر یہ ہے کون اور یہاں کیوں بول رہا ہے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔

ایک اور خیر خواہ نے ٹیڈ ویڈیوز دیکھنے کا مشورہ دیا ۔لیکن سامعین کو اندھیرے میں رکھنا اچھا نہیں لگتا ہے ۔مشورہ دینے والے یہ صاحب کی تقریر بڑی عمدہ ہونے کے باوجود مقبول نہیں ہوتی ہے ۔کیونکہ موصوف کم وقت میں زیادہ قیمتی معلومات دے کر لطایف اور حکایات سے یکسر پرہیز کرتے ہوے سامعین کی سماعتوں کے ساتھ جبر کرتے ہیں ۔
آج کل یو ٹیوب پر بہت تقریریں سن رہا ہوں، الگ الگ انداز سے واقفیت ہورہی ہے، لباس، چہرہ بشرہ، ٹوپی و دستار، لہجہ و انداز، لطایف و حکایت، فتوےو لعن طعن، اعداد وشمار و حوالوں کی سحر انگیزی وغیرہ وغیرہ ۔
اب سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ کامیاب مقرر بننےکے لیے صاف گوئی سے کام لوں یا سامعین کے منورنجن کا سامان کروں ۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!