یا ظلم مٹے گا دَھرتی سے، یا دَھرتی خود مٹ جائے گی
شبیع الزماں، پونہ
عربی مقولہ ہے کہ “سیاست کے پہلو میں دل نہیں ہوتا”۔ سیاست اس وقت مزید بے رحم ہوجاتی ہے جب اسکی بنیاد فرقہ پرستی اور فاشزم پر رکھی ہو۔ تاریخ کے صفحات اقتدار، کے عوام پر مظالم سے بھرے پڑے ہیں ۔ ہر زمانے میں کچھ لوگ اس مزاج کے پیدا ہوتے رہے ہیں جو عوام کی آزادی چھین کر انھیں غلام بنانا چاہتے ہیں لیکن جب جب یہ ظلم حد سے بڑا ہے تب حریت پسند اور آزادی کے متوالے اس ظلم سے لڑنے کے لیے اسی دبی کچلی اور مظلوم عوام ہی میں سے ابھر کر آئے ہیں۔ملک عزیز میں جاری حالیہ ہنگاموں نے ماضی کے ان واقعات کی یاد تازہ کردی۔
سولہویں صدی میں ایسے ہی مظالم چرچ نے لوگوں پر ڈھائے تھے ۔ چرچ جو بنیادی طور پر امن، محبت، بھائی چارگی ، مساوات، انسانی ہمدردی اور انصاف کا گہوارہ ہونا چاہیے تھا لیکن چرچ نے اپنی ہی عوام پر مظالم کی انتہا کردی۔ اس نے لوگوں پر بے انتہا ٹیکس عائد کیے۔ اپنے اوہام، مذہب کے نام پر لوگوں پر تھوپنا شروع کردیے۔ آزادیِ رائے پر پابندی لگادی،وہاں بات کہتے زبان کٹتی تھی ۔ چرچ کے خلاف زبان کھولنے والوں کو توہین مذہب کے نام پر سخت سزائیں دی گئیں۔ کسی کو زندہ جلایا گیا تو کسی کو زندہ دفنا دیا گیا۔ تبدیلی مذہب کے لیے لوگوں پر ظلم کیے جاتے۔ قید خانوں میں ٹارچر کیا جاتا، انکے دانت توڑ دیے جاتے، ناخن کھینچ لیے جاتے۔کہا جاتا ہے چرچ نے ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو زندہ جلایا۔
چرچ نے جسم کے ساتھ سوچ ،فکر ،اور اذہان تک کو غلام بنانا چاہا۔سائنسی اکتشافات کرنے والے سائنس دانوں کو سخت سزائیں دی گئیں۔ کوپر نیکس اور گیلیلیو جیسی عبقری شخصیات تک کو نہیں بخشا گیا۔ ولیم ٹانیڈیٹ اور جان ہںیس کو صرف اس جرم میں زندہ جلایا گیا کہ انھوں نے بائیبل کے تراجم کیے۔ بالاآخر اندھیرے کے بادل چھٹے اور چرچ کے مظالم کا خاتمہ ہوا۔ مارٹن لوتھر اور اسکے ساتھیوں نے چرچ سے جنگ کرکے آزادی حاصل کی۔ عوام نے لوتھر کا ساتھ دیا پوپ کی آسمانی بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور ایک نئی دنیا کی بنیاد سائنس، تحقیق، اور آزادی رائے پر رکھی گئی ۔
پچھلی صدی میں ظلم کی یہی تاریخ ہٹلر کے جرمنی میں دہرائی گئی۔ جرمنی معاشی بدحالی سے گزر رہا تھا ہٹلر نے اپنی خطیبانہ صلاحیت کے ذریعہ لوگوں کو یہ یقین دلاکر کہ وہ جرمنی کے اچھے دن واپس لا سکتا ہے ،اقتدار حاصل کیا۔ لیکن اقتدار حاصل کرتے ہی ہٹلر نے اپنی ہی عوام پر مظالم شروع کردیے۔اس نے پریس ،اظہار رائے اور مجتمع ہونے کی آزادی ختم کردی۔اسکے افسران لوگوں کی ڈاک پڑھ سکتے تھے،ٹیلیفون پر انکی گفتگو سن سکتے تھے اور بنا وارنٹ گھروں کی تلاشی لے سکتے تھے۔
ہٹلر کی خفیہ پولس سیاسی مخالفین اور نازی حکومت کے قوانین اور پالیسیوں کی مخالفت کرنے والےافراد کو تلاش کرکے گرفتار کرلیتی اور انھیں قید خانوں کے بجائے حراستی کیمپوں میں رکھا جاتا ۔تمام ہی اخبارات،رسالے،کتابیں،عوامی اجلاس اور ریلیاں،فنِ موسیقی، فلمیں ہر وہ چیز جو مواصلاتی نظام کا حصہ تھی اس پر قبضہ کرلیا گیا۔ہزاروں کتابیں جو نازی نظریات کے خلاف تھیں جلادی گئیں۔
صرف 10مئی 1933 کی رات میں 25ہزار سے زیادہ کتابیں جلائی گئیں۔کم تر افراد کی نسل ختم کرنے کے لیے جبرا نس بندی کی جانے لگی ۔ جنگ کے وقت ناقابل علاج افراد،بوڑھے ،کمزور، ذہنی اور جسمانی طور پر معذور افراد کو معاشرے پر بوجھ تصور کیا جانے لگا، انھیں خاص طور پر تعمیر کردہ گیس چیمبروں میں قتل کیا جاتا تھا۔ معذور اور چھوٹے بچوں کو بھی دوائیوں کی خطرناک مقدار دے کر یا بھوکا رکھ کر ہلاک کیا گیا۔ ان افراد کی لاشوں کو بڑی بھٹّی میں جلایا گیا، جنہیں لاش بھٹی کہا جاتا تھا۔
ہٹلر کے ان تمام مظالم کے باوجود ہزاروں لوگ تب بھی اس کے مخالف تھے۔ اسکے خلاف کھڑے تھے اور آج بھی اسکے خلاف ہیں۔ حتیٰ کے جرمن حکومت اب تک ان لوگوں کو پکڑ کر سزائیں دے رہی ہے جنہوں نے اس دور میں ہٹلر کا ساتھ دیا تھا۔ہٹلراور اسکے مظالم ختم ہوگئے ۔ جرمنی، اپنے آپ کو اسکے نظریات سے جوڑتے ہوئے بھی شرم محسوس کرتا ہے ۔
ظلم کو ایک دن ختم ہونا ہوتا ہے چاہے وہ مذہب کے نام پر ہو،نسل کے نام پر یا پھر ملک کے نام پر ۔ دنیا میں ظلم کبھی بھی پائیدار نہیں رہا۔خدا کی اس زمین میں جہاں ظالم اور جابر پیدا ہوتے رہے وہیں ان سے ٹکرانے اور انکے ظلم کا خاتمہ کرنے کے لیے اللہ تعالٰی نڈر اور شیر دل جیالے بھی پیدا کرتا رہا جو کسی جابر کے جبر اور ظالم کے ظلم کے سامنے جھکتے نہیں بلکہ بے خوفی کے ساتھ اسکا مقابلہ کرتے ہیں۔
انھیں اسیر زنداں بھی کیا جاتا رہا اور قید خانوں میں بدترین ٹارچر بھی، وہ دار پر بھی کھینچے گئے لیکن کوئی ظلم انھیں روک نہیں سکا۔انھیں کوئی قوت اور طاقت دبا نہیں سکی وہ مظلوموں کا سہارا بن کر ظالم کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں۔یہاں تک کہ ظلم ختم ہوجاتاہے کیونکہ بہر صورت اسے ختم ہونا ہی تھا۔
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے
کہیں شعلہ، کہیں نعرہ، کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوںسے
سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے
ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے