ضلع بیدر سے

”بیٹی پڑھانے اور بیٹی بچانے“ والی حکومت بھارت کی بیٹیوں کی بھی آواز سنے

CAایکٹ نہیں چاہیے، یہ کالاقانون ہے

بیدر: 16/ڈسمبر (وائی آر) سٹی زن شپ امینڈمنٹ ایکٹ کے بارے میں ہندوستان بھر میں مایوسی اور غم کے علاوہ غصہ کاماحول ہے۔ اس غم وغصہ کو بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت سنے اور سٹی زن شپ امینڈمنٹ ایکٹ میں تبدیلی کرتے ہوئے تمام طبقات کو اس سے استفادہ کا موقع عنایت کرے۔ اس ایکٹ کے حوالے سے بیدر کی بیٹیوں نے بھی اپنی آواز حکومت تک پہنچانے کاعزم کیاہے۔ وہ کیاکہہ رہی ہیں، ملاحظہ کریں۔ محترمہ اِرم فاطمہ ایک گھریلو خاتون ہیں اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ ہم اس ایکٹ کے بے حدمخالف ہیں۔
اس ایکٹ سے ہمارے جذبات کو بہت ٹھیس پہنچی ہے۔ کیونکہ یہ ملک ہمار ابھی ہے۔ ہم اس ملک کے شہری ہیں۔ ہمارے آباء واجداد اس ملک کی آزادی کے لئے اپنی جانیں قربان کرچکے ہیں۔ اور کرتے رہتے ہیں۔ اس ایکٹ سے صرف مسلمانوں کو کیوں نشانہ بنایاجارہاہے؟دوسرے بھی کافی پریشان ہوسکتے ہیں۔ قومی یکجہتی کا مطلب ہی فوت ہوگیاہے۔ ہوم کو قومی یکجہتی کامطلب خاک ہوتا ہوا لگ رہاہے۔ ہم سب اس ایکٹ کی مخالفت میں آگے آنا چاہیے اور پرزور احتجاج کرنا چاہیے۔ ہم خلاف ہیں اور اس ایکٹ کے ہمیشہ خلاف ہی رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں کو کامیاب کرے۔ آمین۔محترمہ رخسانہ نازنین ملک گیر سطح پر معروف اردو کی افسانہ نویس ہیں۔ بچپن سے پولیو کاشکاررہ کرچلنے پھرنے، دنیا دیکھنے اور خود کو دوسروں کے برابرسمجھنے کی نعمتوں سے محروم رخسانہ نازنین کاخیال ہے کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔ اور ہرہندوستانی کا بنیادی حق ہے کہ وہ اس ملک میں دستور ہند کے مطابق اپنی زندگی بسر کرے۔ حکومت کے کالے قانون CAسے ملک میں مذہبی منافرت پھیلے گی۔یہ قانون جس میں شہریت کو چیلنج کیاجارہاہے یہ ہمیں تسلیم نہیں َ ہم اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ اور اس کے خلاف بھرپور احتجاج کرتے ہیں۔ ہم ہندوستانی ہیں اور ہمیں اپنے ہندوستانی ہونے پر فخر ہے۔ اور خود کو ہندوستانی ثابت کرنے کے لئے ہمیں کو ئی ثبوت دینا پڑے یہ ہماری توہین ہے جسے ہرگز برداشت نہیں کیاجائے گا۔ محترمہ ناظرہ بیگم تنظیمی سکریڑی بزمِ غزالاں بیدر نے بہت سے سوالات کئے ہیں جس کے جوابات حکومت کو دینا چاہیے۔ انھوں نے کہاہے کہ CAایکٹ اور NRCکے لئے عوام سے گذار ش کرتی ہوں کہ وہ اپنے دستاویزات بناکر رکھیں۔ لیکن جو لوگ تعلیم یافتہ نہیں ہیں، وہ یہ دستاویزات نہیں رکھ سکتے تو ان کاکیاہوگا۔ جو ہندوستان میں پیدا ہوکر بھی ہندوستانی نہیں کہلائے گا۔ ہمارادستور جو ہے اسی پر عمل آوری کافی ہے۔ نئے نئے قوانین نہ بنائے جائیں۔ اس عمل سے غریب عوام پریشان ہوجائیں گے۔ 1960-70سے پہلے کے لوگوں کواتناشعور نہیں تھا کہ وہ پیدائشی فارم بنائیں یاکوئی اوردستاویز ات بنائیں۔ پہلے بچوں کاجنم گھر پر ہوتاتھا۔ وہ کہاں سے سرٹیفکیٹ لائیں گے۔میرامطالبہ ہے کہ CAایکٹ ہٹادیاجائے۔
محترمہ اقبال النساء صاحبہ موظف معلمہ ہیں، ان کاکہناہے کہ پورے ملک میں CAB/NRC کے خلاف احتجاج ایک پرزور آندھی کی شکل اختیار کرچکاہے۔ ایسا لگتاہے کہ اب یہ آندھی رکنے والی نہیں ہے۔ یہ قانون حکومت اور عوام کے درمیان آرپار کی جنگ میں تبدیل ہوسکتاہے۔ اس کے خلاف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اس کو مذہب کی بنیاد پر لیاجارہاہے جو جمہوریت کے خلاف ہے۔ یہ ہر شہری کی رائے ہے کہ اس کو انسانیت کی بنیاد پر لیاجائے۔ محترمہ نوشاد بیگم سکریڑی بزمِ غزالاں بیدر نے ایکٹ پر کہاکہ بھارت میں حکومت اور فرقہ پرستوں کے خلاف ہماری تنظیمیں متحدہ طورپر تحریک چلائیں گے۔ اورہماری بات کو پہنچائیں گے۔ اس ایکٹ کے ذریعہ مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے۔ ہماری شہریت خطرے میں پڑگئی ہے۔ ہم خواتین کو بھی قلم (اور ہرممکن ذرائع سے) اس بل کے خلاف آواز اٹھانا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!