نام نہاد سیکولر پارٹیاں اور اقتدار کے نشے میں مست بی جے پی: آخر چاہتے کیا ہیں!
ذوالقرنین احمد
بی جے پی کی ہٹ دھرمی اور کالے قانون کو لانا اسی طرح اہم اور ضروری قانون میں ترمیم کرکے اقلیتی برادری کیلے مشکلات کھڑی کرنا، اور ہر ادارے کے اندر اپنا تسلط قائم کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ملک میں ایک فرقہ پرست ذہنیت پوری قوت کے ساتھ اپنے اصل مقصد کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے اور اس مین کامیاب ہوتی جارہی ہے۔ چاہے اس میں کسی بھی طرح سے کوئی رکاوٹ آتی ہے یا کوئی رکاوٹ کا سبب بنتا ہے تو اسے اس طرح سے حراساں اور مجبور کردیا جاتا ہے کہ ایک تو بی جے پی کے سامنے سر جھکا کر بلا چوں چراں غلامی کو اختیار کریں یا پھر اپنے برے انجام کیلے تیار رہے۔
اتنا ہی نہیں یہ فرقہ پرست اپنی مرضی کے مطابق جو چاہے کرنے کیلے زرا بھی شرم یا جھجھک محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اور نا ہی قانون جمہوریت کا پاس و لحاظ انکے پاس ہے۔ یہ اپنے مفاد کیلے قانون کو تبدیل کردیتے ہیں۔ یا پھر قانون کو بھی ختم کرنے کیلے ہر وقت تیار دیکھائی دے رہے ہیں۔ دھرے دھرے انہوں نے ایسے قانون کو پاس کرلیا ہے۔ جس میں مجرم کو مجرم قرار دینے مشکل ہوگیا ہے۔ یعنی انہیں پتہ ہے کہ جو جرائم پیشہ افراد ہے وہ بی جے پی کے ہی امیدوار یا لیڈران ہے۔ اس لیے انکے پروٹیکشن کیلے پہلے ہی ایسی قانون سازی کی چکی ہے جس میں انہیں با عزت بری کردیا جائے گا۔ چاہے وہ کوئی بھی گناہ ہو۔ اب لوگوں کے دلوں میں قانون کا ڈرو خوف دیکھائی دیتا تھا۔ لیکن جن مجرموں کو با عزت بری کردیا گیا اور جیل سے رہائی کے بعد انکا گل دستوں سے استقبال کیا گیا اس سے ان فرقہ پرستوں کے حوصلے اور بھی بلند ہوئے ہیں۔
جہاں بھی بی جے پی کے حکومت ہے وہاں اور پورے ہندوستان میں یہ اپنے اقتدار کے نشے میں مست ہوکر ظلم و تشدد کرنے والوں کو آزاد کرانے میں لگی ہے اور مجرموں کو کھلی چھوٹ دی رکھی ہے۔ آج جس طرح سے اپوزیشن پارٹیوں کو ختم کرکے اور انکی اہمیت کو کوڑیوں کے مول کردیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات بھی سمجھ آتی ہے۔ کہ موجودہ حکومت پہلے عوام کو یرغمال بنائے گی جس میں اقلیتی اور غریب عوام کو نشانہ بنایا جائے گا۔ اور جس طرح ہمیں دیکھنے مل رہا ہیں۔ کہ کانگریس اور دیگر سیاسی پارٹیاں جو اپنے آپ کو سیکولر مانتی آئی ہے اور اب بھی سیکولر ہونے کا دم بھرتے ہیں۔ یہ اندر سے ایک دوسرے کے بھائی ہے۔
شیطان شیطان کے بھائی کی طرح ہے۔ انکی نسل میں ہی منافقت بھری ہوئی ہے۔ یہ آستین کے سانپ ہیں جنہیں مسلمانوں نے اپنے خون و لہو سے پال پوس کر بڑا کیا ہے۔ اور اب یہ اپنی اصلیت دیکھانے لگ گئے ہیں۔ ویسے آزادی کے ستر سالوں سے ہی انہوں مسلمانوں کو مظلوم قوم کی طرح ڈرا دھمکا کر رکھا اور بی جے پی کا خوف دیکھا کر ووٹ حاصل کرتے آئے ہیں۔ لیکن جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے۔ تب سے شریعت اسلامی اور مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا جارہا ہے۔
لیکن اس حکومت کے خلاف ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے کھل کر نا ان بلوں کی مخالفت کی اور نا ہی سڑکوں پر اپنی عوام کو اتارا ہے۔ جب کبھی مسلمانوں پر آفت آتی ہے یہ لوگ پہلے اپنا الو سیدھا کرنے کا سوچتے ہیں پہلے اپنی پارٹی کا فائدہ دیکھتے ہیں چاہے انکی پارٹی میں مسلم امیدوار کیوں نا ہو یہ لوگ اس پر بھی سیاست کرنا شروع کردیتے ہیں۔ مہاراشٹر میں نئی مہا وکاس اگھاڑی حکومت کے قیام کے بعد جس طرح سے شیوسینا اور راشٹروادی کے تیور نظر آرہی ہیں اس میں کہی نا کہی اور اندرونی طور پر بی جے پی کی روح دیکھائی دیتی ہے۔ انکے خمیر میں مسلم دشمنی آزادی کے قبل سے موجود ہے یہ کبھی خیر خواہ ہوئی نہیں سکتے ہیں۔
جبکہ دیکھا جائے تو اب بی جے پی کی حکومت بہت ساری ریاستوں سے سمٹ کر 10 کے آس پس آچکی ہیں۔ اسکے باوجود اپوزیشن مضبوط دیکھائی نہیں دیتا ہے۔ ہر کوئی اپنی علاقائی پارٹیوں کو لیکر اپنی روٹی سینکنے میں مگن ہے۔ جس طرح گزشتہ روز لوک سبھا میں بھاری اکثریت سے سیٹیزن ترمیمی بل پاس ہوگیا، اپوزیشن کے صرف 82 ووٹ بل کے خلاف میں آئے ہیں۔ تو بھر سیکولرزم کا دم بھرنے والی پارٹیاں کہاں مرگئی ہیں۔ مہاراشٹر میں ایک طرف وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے بل کے خلاف بیان دے رہے ہیں اور ایک طرف سنجے راوت کا بیان آتا ہے کہ مہاراشٹر حکومت بل کے موافقت میں ہے۔
اس سےیہ بات سمجھ آرہی ہے کہ کہی نا کہی یہ سیکولر پارٹیاں مسلمانوں اور اسلام سے بعض سینوں میں رکھتے ہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے جسطرح اقتدار کی خاطر گندی سیاست کی جارہی فرقہ پرست پارٹی ہونے کے باوجود اس سے اتحاد کرکے اقتدار حاصل کیا جارہا ہے۔ تو یہ بات صاف ہے کہ بی جے پی ایک فرقہ پرست چہرہ ہیں جیسے بچوں کو ڈرانے کیلے کسی ڈروانے چہرے یا بھوت وغیرہ کا ڈر دیکھایا جاتا ہے اسی طرح بی جے پی کے نام کا استعمال کیا جارہا ہے۔ جبکہ سیکولر پارٹیاں بھی اسی کا دوسرا رخ ہے۔
اب یوں لگتا ہے یہ سب ملک جائے گے اور نئی سیاسی پارٹی کی تشکیل عمل میں لائی جائیں گی جسکا نام ہندو راشٹر ہوگا۔ کیونکہ یہ سبھی ایک دوسرے کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔ اور اپوزیشن ختم ہوجائے گا یا وہاں پر صرف مسلم امیدوار کھڑے ہوئے دیکھائی دے گے جنھیں بی جے پی کی بی ٹیم کہا جاتا ہے۔ اور باقی تمام حکومت میں حصہ داریاں اور کرسیاں حاصل کرنے کیلے اس حکومت میں ضم ہوجائے گے۔