سماجیسیاسیمضامین

شہریت بل اور ہندوستانی مسلمان

عزیز برنی

مولانا ابوالکلام آزاد کو ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا الہلال اور البلاغ میں اُنکے اداریوں کی وجہ سے،تقسیمِ وطن کے بعد مسلمان جب ہندوستان چھوڑ کر جا رہے تھے تو دلّی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر دی گئی اس تقریر کے حوالے سے جسکو سُنکر مسلمانوں نے پاکستان جانے کا ارادہ ترک کر دیا،لیکن آج یہ سوچنے کیلئے مجبور ھوں کیا ان میں دور اندیشی کی کمی تھی یا ہم مسلمان خود سے زیادہ ہندوستان کی سیاست اور مسلم قیادت پر بھروسہ کرتے تھے۔نہیں آج بھی ہندوستان چھوڑ کر جانے کا خیال مسلمانوں کے دل میں نہیں آئیگا گوکہ آج نہ تو ہندوستان کی سیاست پر وہ اعتماد ھے نہ مسلم قیادت پر  وہ بھروسہ جو آزادی سے پہلے اور تقسیمِ وطن کے وقت تھا،اب مسلمان تمام تر مخالف حالات میں اپنی مٹی سے جڑے رہنے کیلئے فکرمند نہ وہ کسی سے مصنوعی ہمدردی کا طلبگار ھے نہ مشکل حالات میں کسی سے مدد کی اُمید۔

آج کی سیاست میں سیکولر،کمیونل صرف دو لفظ رہ گئے ہیں عمل کے اعتبار سے دونوں کے لباس کا رنگ ضرور الگ ھے اُسکے اندر دل ایک ہی مزاج کا ھے۔لیکن وقت مایوسی کا نہیں ہاں لمحہ فکریہ ضرور ھے،مجھے یاد ھے سکھ قوم کو ہمسے بہت پہلے اس سے برے حالات کا سامنا کرنا پڑا بابری مسجد سے زیادہ گولڈن ٹیمپل نے حملوں کا دور دیکھا ہے فرق یہ ھے بس کہ آج بابری مسجد اپنی جگہ پر نہیں ھے اور گولڈن ٹیمپل اپنی جگہ پر ھے منافرت کا شکار دونوں ہوئے لیکن سکھ قوم اور اُسکی قیادت ہم سے بہتر ثابت ہوئی۔

اب یہی نظیر ہمارے لیے مشعلِ راہ ہوگی،اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھ قوم کو جن حالات کا سامنا تھا یہ تقسیمِ وطن کے وقت کے حالات سے بہت مختلف نہیں تھے لیکن اس قوم نے اپنے وقار کو بحال رکھا ہندوستان میں وہ کسی کے رہموکرم پر نہیں ھیں یہ اپنے عمل سے ثابت کیا۔سیاست نے کل جو کھیل اُنکے ساتھ کھیلا آج اگر سیاست کا وہی عمل ہمارے ساتھ بھی ھے تو ضرورت حوصلا ہارنے کی نہیں حکمتِ اور ہمّت سے ہاری ہوئی بازی کو جیتنے کی ھے۔

وہ دور کانگریس کا تھا یہ دور بی جے پی کا ہے تب سامنے سکھ قوم تھی آج مسلم یہ سیاست کسی کو بخشتی نہیں، دلتوں نے سب سے زیادہ لمبے عرصے تک اس دردناک دور کو سحا ھے لیکن آج وہ ہندوستان کی سیاست کی سب سے بڑی ضرورت ھے ۔کل مسلمان بھی ہندوستان کی سیاست کی سب سے بڑی ضرورت تھے بھلے ہی آج نہ ہوں لیکن آنے والے کل میں پھر ہو سکتے ہیں۔ضرورت مخلص قیادت اور قوم کو جذبات سے اُوپر اُٹھ کر اپنے وجود کی جنگ لڑنے کی ہے۔

اسمیں کوئی شک نہیں کہ مسلم قیادت کے مزاج میں کچھ تبدیلی دیکھنے کو ملی ھے وجہ جو بھی ہو لیکن امیدوں کو زندہ رکھنا ہوگا،یہ وقت کسی سے بھی عداوت کا نہیں نظریاتی اختلاف اپنی جگہ ذاتی اختلافات اپنی جگہ لیکن ایک متحد اور مظبوط قوم کی ضرورت اپنی جگہ۔

لہٰذا تمام اختلافات بھلا کر اس قیادت کو مضبوط کرنا ھے جو اس وقت ھے اور اُسے آمادہ کرنا ھے کہ اب تک کی تمام باتوں کو درگزر کریں اور ثابت کریں کہ وہ ایک مضبوط قوم ھیں۔حالات آج کتنے بھی بُرے ہوں انگریزوں کے دور جتنے برے نہیں ھیں اگر یہ قوم گزرے ہوئے کل میں انگریزی حکومت کا سامنا کر سکتی ھے تو سیاست کا مزاج کچھ بھی ہو ہندوستان کی مٹی قومی یکجہتی ھے جیسے کچھ دیر کیلئے بھلے ہی کوی اپنی سیاست کا موہرا بنا لے لیکن اس سے یہ جذبہ نہیں چھین سکتا۔

دلّی میں آگزنی کا واقعہ جہاں بہت کچھ ہمسے چھین کر لے گیا ونہی فرقہ ورانہ اتحاد کی ایک ایسی مثال چھوڑ گیا جو تنگ نظروں کیلئے سبق ھے،مرنے سے ٹھیک پہلے اپنی آخری اُمید ایک ہندو دوست کو مانتے ہوئے کہتا ھے مونو میں تو اب جا رہا ہوں دنیا میں تمہارے سوا کس پر بھروسہ نہیں،یہی اعتماد ہماری اُمید اور یقین ھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!