ٹاپ اسٹوریمذہبیمضامین

اڑپی ضلع کی مسجد ابوللیث اصلاحی: ہندومسلم اتحاد اور انسانیت نواز کردار کی امین

محمد عبد اللہ جاوید

مسجد کی تعمیر کا کام ہم مسلمانوں کے مستقل اجتماعی کاموں میں سے ایک ہے‘ جو ہرمقام اور ہرطرح کے حالات میں اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ انجام پاتا ہے۔ہندوستان جیسے سکیولر اور جمہوری ملک میں ہماری جانب سے مساجد کا قیام اور ان کا نظم و انصرام کئی پہلوؤں سے توجہ چاہتا ہے۔حال ہی میں تعمیر شدہ ایک مسجد کی تعمیر کی روداد‘ اس ذیل میں نہ صرف دلچسپ اور ایمانی حرارت سے بھرپور ہے بلکہ وہ ایسے کئی پہلوؤں کا انکشاف بھی کرتی ہے‘جن پر توجہ سے ہماری دینی اور تہذیبی تشخص کوجلا مل سکتی ہے۔

ضلع اڑپی کی صورت حال – ہندوستان کے جنوب میں اڑپی ایک مشہور ومعروف ضلع ہے جس میں برادران وطن کی اکثریت ہے اور یہاں ان کے اہم مذہبی مراکز قائم ہیں۔اس بنا‘ فسطائی طاقتوں نے شروع ہی سے یہاں‘ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان دوریاں پیدا کرنے اور قائم رکھنے کی منظم کوشش کی ہے۔لیکن خیر پسند ہندؤں کی انسانیت دوستی نے فضا کو مکدرہونے نہیں دیا۔جبکہ مسلمانوں کے بہتر ایمانی اور اخلاقی حالات‘ان کے منظم ادارے اور بے لوث رفاہی کاموں کی بنا ان کایہاں ایک رعب ودبدبہ قائم ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ مختلف طبقات میں دوریاں ہونے کے باوجوداس مقام پر کبھی قابل ذکرفسادات یا آپسی ٹکراؤ کی نوبت نہیں آئی۔اڑپی ضلع میں بعض ساحلی علاقہ ایسے ہیں جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے انہیں میں سے ایک مقام تونسے ہے جو بحر عرب سے بالکل متصل واقع ہے۔الحمد للہ یہاں مسلمانوں کے تعلیمی اور رفاہی ادارے ایک عرصہ سے اپنی خدمات انجام دیتے آرہے ہیں‘جن کے معاشرہ پر واضح اثرات محسوس کئے جاسکتے ہیں۔

مسجد کی تعمیر کامنصوبہ – تونسے کے ایک علاقہ کے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے مسجد کی کمی ایک عرصہ سے محسوس کی جارہی تھی۔چند مقامی لوگوں نے مسجد کی تعمیر اور اسکے تحت مختلف تربیتی اور اصلاحی کام کے پیش نظر‘ اسلامک سینٹر کے قیام کا ایک جامع منصوبہ تیار کیا۔لیکن تقریباًچار سال گزرنے کے باوجود بھی اس منصوبہ پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔بالآخر اس غرض کیلئے مقامی آئیڈیل ٹرسٹ کی جانب سے تقریباً پانچ ہزاردوسومربع فٹ زمین خرید لی گئی جو اس مقام کے رہائشی علاقہ کے بالکل وسط میں واقع ہے۔

مسجد کی تعمیر کیلئے پنچایت سے اجازت- اس کے بعد مسجد کی تعمیر کیلئے مقامی پنچایت سے اجازت حاصل کرنا پہلا اوربڑا دشوارمرحلہ درپیش رہا۔ اس علاقہ کی مخصوص مذہبی صورت حال اور بعض کرم فرماؤں کی وجہ سے مسلمانوں کے کسی بھی ادارہ اور مسجد کیلئے اجازت ملنا بہت ہی دشوار ہے۔چونکہ اس علاقہ میں مسجد کی تعمیراور اسکے ذریعہ ہمہ جہت تربیتی اوررفاہی کاموں کا ایک واضح نقشہ کار طے تھا‘ لہذا ٹرسٹ کی جانب سے اجازت حاصل کرنے کیلئے مقامی پنچایت سے رجوع کیا گیا۔21ممبروں پر مشتمل پنچایت میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی ملی جلی تعداد ہے جس کی وجہ سے نسبتاً دیگر مقامات کے‘یہاں کے حالات قدرے بہتر ہیں۔ لیکن اس کے باوجود‘ فسطائی ذہن کے ممبران نے مسجد کی تعمیر کیلئے اجازت نہ دینے پر زور دیا‘جبکہ ویلفیئر پارٹی کے تین ممبران اور دیگر سیکولر پارٹی کے ممبروں نے مسجد کیلئے اجازت دینے کا اپنا موقف بڑے واضح انداز سے پیش کیا۔ دوسری جانب بعض ممبران کی مخالفت ہنوز برقرار رہی۔فیصلہ اس لئے نہیں لیا گیا کہ پنچایت کے خیر پسند ممبران کا مطالبہ تھا کہ اس علاقہ کی فرقہ وارانہ صورت حال چونکہ قدرے بہتر ہے اس لئے اگر متفقہ فیصلہ لیا جائے تو اس کا پورے ضلع پر اچھا اثر پڑسکتا ہے اور یہ ہندومسلم اتحاد کی ایک قابل عمل مثال بھی بن سکتی ہے۔لہذا ان کی جانب سے متفقہ فیصلے پرہی گفتگو کا ماحول بنانے کی کوشش کی گئی۔

مسجد کی اجازت نہ دینے کے حق میں جن ممبران نے بات کی انہوں نے اس کی دووجوہات بیان کیں۔یہ وہ وجوہات ہیں جن کا اطلاق غالباً ہرمقام کی مسجد پر ہوتا ہوگا۔ ان وجوہات کی اسپرٹ سمجھنا اور تدارک کی کوشش کرنا نہ صرف فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دے سکتا ہے بلکہ مسجد کے ہمہ جہت کردار کی بازیافت بھی ممکن بنا سکتا ہے۔ ان کی جانب سے پہلی وجہ یہ بتائی گئی کہ اگر مسجد کی تعمیرہو تو لاؤڈ اسپیکر کی تیز آواز سے لوگوں کو کافی دقتیں پیش آسکتی ہیں۔اور دوسری وجہ یہ کہ گاڑیوں کی پارکنگ کا مناسب انتظام نہ ہونے کی بنابے ہنگم ٹرافک سے لوگوں کی آمد ورفت کیلئے مشکلیں پیش آسکتی ہیں۔

ان وجوہات کے پیش نظر بعض ممبران پنچایت نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی کہ مسجد میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال صرف اذان کی حد تک ہوگا جبکہ خطبہ وغیرہ کیلئے مسجد کے اندر ہی اس کااستعمال کیا جائے گااور کوشش کی جائے گی کہ آواز سے پڑوسیوں کو کسی قسم خلل نہ پڑے۔اورٹرافک کے بہتر نظم کیلئے مسجد کی جگہ میں سے کچھ حصہ پارکنگ کے لئے وقف کرنا طے پایا۔جب ان دونوں مسئلوں پر مناسب انداز سے سمجھوتہ کرلیا گیا تو اب پنچایت کے سامنے مسجد کی تعمیر کیلئے متفقہ طور پر فیصلہ لینے کے علاوہ کوئی اور صورت نہیں تھی۔لہذا پنچایت کی تاریخ میں مسجد کی تعمیر کیلئے ہندومسلم مل کر متفقہ فیصلہ لینے کی ایک انتہائی شاندار مثال قائم کی گئی۔

اس فیصلہ کیلئے مسلم ممبران کا دیگر پارٹیوں کے قائدین سے تعلقات قائم رکھنا اور انہیں مسجد کی تعمیر کی اہمیت بتانا‘اہم رول ادا کیا۔ان حضرات نے متفقہ فیصلہ کیلئے ایک ایک پارٹی کے قائدین سے باضابط گفت وشنید کی اور اس پر انہیں مطمئن کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ کسی بھی معاشرہ میں مسجد کا قیام صرف نماز کی حدتک نہیں ہوتا بلکہ اسکے ذریعہ مختلف النوع دینی‘ تعلیمی اور رفاہی خدمات انجام دی جاسکتی ہیں۔
مسجد کی تعمیر کیلئے ہندومسلم اتفاق کی وجوہات- مسجد کی تعمیر سے متعلق غیر مسلم حضرات کے اعتراضات کو دورکرنے کے علاوہ جو عوامل انہیں دلی آمادگی پر تیار کئے ان میں سے ایک اہم مسلمانوں کے انفرادی و اجتماعی اخلاق وکردار ہیں۔اس علاقہ میں مسلمانوں کی مختلف جماعتیں ایک عرصہ سے بلالحاظ مذہب و ملت‘لوگوں کی خدمت کے کام انجام دیتے آرہے ہیں‘ جیسے مفت اورمعیاری تعلیم کا نظم‘ فری میڈیکل کیمپس‘وظائف کی ادائیگی‘مستحقین کیلئے گھروں کی تعمیر‘ سڑکوں کی توسیع‘ بیماروں کا علاج‘قدرتی آفات پر بازآبادکاری‘حکومتی اسکیموں سے استفادہ کی سہولیات وغیرہ۔ان رفاہی کاموں کابڑا غیر معمولی اثر یہاں کی عوام نے قبول کیا ہے جن سے حکومتی ذمہ داران بھی بخوبی واقف ہیں۔پھر اس علاقہ کا مشہور ومعروف تعلیمی ادارہ صالحات ہے جو برسوں سے معیاری تعلیم وتربیت کاکام انجام دے رہا ہے‘ اس کاوجود اور کارکردگی نے بھی یہاں کی عوام کا دل جیت لیاہے۔جب ان بے لوث خدام کی جانب سے مسجد کی تعمیر کا ہمہ جہت منصوبہ پیش کیا گیا تو ظاہربات ہے اسے منظور کرنے کے لئے ہندو مسلم اتحاد کے علاوہ اور کیا صورت ہوسکتی تھی؟

مسجد کی تعمیرمیں حیرت انگیز تیزی- اس علاقہ کی مخصوص صورت حال کے پیش نظر حکومت کی جانب سے تعمیر مسجد کی اجازت ملنا اور ہندوؤں اور مسلمانوں کا اس پر اتفاق کرنا‘ بڑی مسرت اور شادمانی کا ذریعہ بنا۔پھر کیا تھا‘محض 17دن کی قلیل مدت میں بڑی ہی خوبصورت مسجدکی تعمیر مکمل ہوئی اورآخری دن نماز عشاء کے ساتھ اس کا افتتاح عمل میں آیا۔اس افتتاحی تقریب میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی قابل ذکر تعداد موجود تھی۔ ان کے سامنے مسجد کا مقام‘ اسکا کرداراور معاشرہ میں اسکی ضرورت اور اہمیت پرروشنی ڈالی گئی۔

مخلوط سماج میں مسلمانوں کا مطلوبہ رویہ- مسجد کے حوالے سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہوئی گفتگو اور بالآخر اس کی تعمیر کے لئے راہ کی ہمواری کے کئی محرکات تھے۔جیسے مسلمانوں کا خیرخواہانہ کردار‘ صحت مندانداز سے ادارے چلا نے کی مستقل کوشش‘ عوام کی بے لوث خدمت‘ غیر مسلم عوام اور قائدین سے تعلقات وغیرہ۔ ان محرکات کے علاوہ غیر مسلم حضرات کے ان اعتراضات کوسننا اور ان کاواجبی حل پیش کرنا بھی ہے جو انہیں مسلمانوں کے رہن سہن اور ان کی مساجد اور اداروں سے متعلق پیش آتے رہتے ہیں۔ دراصل اسی حقیقت پسندی سے ہندوستان جیسے مخلوط سماج میں ہمارے مطلوبہ اور دل موہ لینا والارویہ ممکن ہوسکتاہے۔اب جبکہ فسطائی طاقتوں کی طوطی بول رہی ہے اور معاشرہ کومحضوص رنگ میں رنگنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے‘ان حالات میں ہمارے اخلاق وکردار اور بے لوث خدمت کے جذبات کے ساتھ وسیع النظری اور وسیع القلبی‘محبت فاتح عالم کا نمونہ پیش کرسکتی ہے۔لوگوں کے دل جیتنا اور انہیں کارخیر میں اپنا ہم سفر بناناممکن ہوسکتا ہے۔اللہ کے بندوں کے دلوں کو‘اللہ پر ایمان رکھنے والوں کے دلوں سے جوڑنے کا یہی ایک طریقہ ہے جس سے متعلق رسول اللہﷺ ہمیں نصیحت فرماتے ہیں خَیرُکُم مَن ےُّرجٰی خَیرُہٗ وَ ےُومِنُ شَرُّہ- تم میں سے اچھے وہ ہیں جن سے ہمیشہ خیر کی توقع ہو اورجن سے ہر طرح کے شر سے امن میسر آئے۔ (حضرت ابوھریرہ ؓ- ترمذی)۔

مسجد کا وجہ تسمیہ- مسجد تعمیر کرنے والوں نے اس کا نام مسجد ابوللیث اصلاحی رکھا ہے۔اس نام سے مسجد کو موسوم کرنے کی بنیادی وجہ یہ بتائی گئی کہ آزادی کے بعد مسلمانوں کے مذہبی اور تہذیبی تشخص کو برقرار رکھنے کیلئے ہمارے جن بزرگوں نے کوشش کی ان میں مولانا ابوللیث اصلاحیؒ کا نامے نامی بھی شامل ہے۔آزادی کے بعد کے حالات میں مسلمانوں کو ہرطرح کی مرعوبیت اور منفی احساسات سے نکال کر انہیں بہترین اخلاق وکرداراور عزم وحوصلہ کا پیکر بنانے‘ ان کے اندرایک منظم اجتماعیت کے ذریعہ ملی اور ملکی خدمات انجام دینے کے لئے دلنواز جذبہ پیداکرنے میں جماعت اسلامی ہند کے پہلے امیر مولاناابوللیث اصلاحیؒ کا کردار قابل ذکر ہے۔مسجد کو مرحومؒ کے نام سے موسوم کرتے ہوئے‘ اللہ کی راہ کے مسافروں نے بہترین خراج عقیدت کا نمونہ پیش کیا ہے۔

آج جن حالات سے ہمارا ملک دوچار ہے ان میں ہمیں اپنے ایسے ہی دل جیتنے والے کردار کی بازیافت کرنی ہے‘ لوگوں سے قریب ہونا ہے اور ان کی شکایتوں اور غلط فہمیوں سمیت انہیں اپنے گلے لگانا ہے۔انشاء اللہ‘ ہندوستان کے جنوب کے ایک چھوٹے سے علاقہ میں قائم اوراپنا بڑا ہی خوبصورت اور پروقار وجود رکھنے والی مسجد ابوللیث اصلاحی‘اسی ترغیب کا ذریعہ بنے گی۔

محمد عبد اللہ جاوید
9845547336

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!