تعلیمیسماجیمضامین

زبان کی حفاظت اہلِ زباں کی ذمہ داری ہے

ابوفہد، نئی دہلی


اردو زبان کا فروغ نہ صرف اس بات میں مضمر ہے کہ زیادہ سے زیادہ مشاعرے منعقد کئے جائیں، نہ اس میں کہ اس زبان کا ادب معیاری اور وسیع الاطراف ہواور نہ ہی صرف اس بات میں مضمر ہے کہ زیادہ سے زیادہ کتابیں شائع ہوں اور زیادہ سے زیادہ اخبار نکلیں اور پھر ان کی بڑی سرکولیشن ہو۔ بیشک ان سب کا بھی اردو کے فروغ میں بڑا کردار ہے مگر اردو کے فروغ کی کاوشیں انہی عملی اقدامات سے شروع ہوکر انہی پر ختم نہیں ہوجاتیں،اردو کے فروغ کا راز اس بات میں بھی مضمر ہے کہ ہر اردوگھرانے میں اردو نسل در نسل منتقل ہوتی رہے، مدارس کی طرح ملک کے تمام یا اکثر اسکولوں میں بھی کم از کم ابتدائی پانچ چھے سال تک یا آٹھویں تک اردو روسم الخط اور لفظ ومعنیٰ سے طلبہ کو آشنا کرایا جائے۔

ہندی بولنے والوں کو ایک واجبی سطح تک اردوپڑھنے لکھنے کے لائق بننے کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ انہیں اردو کی ابجد سے واقف کرادیا جائے اور ایک دو کتابیں پڑھادی جائیں، باقی وہ سب کچھ معاشرے سے سیکھ ہی رہے ہیں، آخر ہندی بولنے والے اکثر ہندوستانی، بولی کی سطح پر اردو نہ صرف جانتے ہیں بلکہ بولتے اور سمجھتے بھی ہیں۔ اور شاید یہی وہ پوائنٹ ہے جہاں پہنچ کر اردو کے بہی خواہ اس بات کے لیے خود کو آمادہ اور راضی کرپاتے ہیں کہ اردو دیگر رسم الخط میں بھی لکھی اور پڑھی جانی چاہئے، خاص طور پر رومن اور ناگری میں۔

اردو کے فروغ کا راز اس میں بھی مضمر ہے کہ اردو سے اس داغ کو دھویا جانا چاہئے کہ اردو کسی ایک مذہب کی، قوم کی یا خطے کی زبان ہے اور اس میں بھی کہ اردو کی خدمت اور حفاظت اسی طرح ہونی چاہئے جس طرح دنیا کی دیگر اقوام اپنی مادری زبان کی خدمت اور حفاظت کرتی ہیں،یعنی جی جان سے اور آخری حد تک ، سنسکرت کے لیے کرتی ہیں ، ہیبرو کے لیے کرتی ہیں اورسواحلی زبانوں کے لیے ان کے جاننے اور بولنے والے کرتے ہیں۔آخر کوئی تو وجہ ہو گی کہ دنیامیں بعض ایسی زبانیں بھی ہیں اور پھر وہ زندہ بھی ہیں جو خاندانی اور علاقائی ہیں اور بہت تھوڑے لوگ اس کے بولنے والے ہیں، لکھنے پڑھنے والے تو اور بھی کم ہیں، آخر اس کی کوئی تو وجہ ہوگی کہ ایسی زبانیں بھی زندہ ہیں جن کا اپنا کوئی رسم الخط ہی نہیں ہے اور نہ ہی وہ اتنی زرخیز ہیں کہ ان میں جدید علوم وفنون کو مرتب کیا جاسکے۔ ایسی صورت حال میں یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ اردو کے تعلق سے مردنی کیوں چھائی ہوئی ہے یا کیوں پھیلا ئی جارہی ہے اور یہ جانتے بوجھتے پھیلائی جارہی ہے کہ اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے، زرخیز بھی ہے اور پھر اپنی آغوش میں عظیم علمی وادبی سرمایہ بھی رکھتی ہے۔اردو کئی ثقافتوں کی امین بھی ہے اور پھر کئی صدیوں پر محیط برصغیر کی تاریخ کی تنہا وارث بھی ہے۔اور وہ بھی اس طرح کہ اگر متعلقہ صدیوں کی تاریخ لکھی جائے تو اردو کے بغیر نامکمل ٹہرے۔

اس حقیقت کو قبول کرنا ہوگا اور ہر حال میں قبول کرنا ہوگا کہ جب تک اردو کے لیے بولی سے لے کر ادب تک ہر سطح پر یکساں کاوشیں نہیں ہوں گی تب تک اردو کےشجر میں پھل نہیں آئیں گے۔بلکہ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ بولی کی سطح پر کی جانے والی کاوشیں جو مثبت نتائج پیدا کرسکتی ہیں وہ ادب ونقد کی سطح پر کی جانے والی کاوشیں نہیں کرسکتیں۔ قاری ہمیں یہیں سے مل سکتا ہے، نقد وادب کی سطح پر کی جانے والی کاوشوں سے قاری نہیں مل سکتا ۔ہم نے قاری کو اسی لیے کھویا ہے کہ ہم نے حروف شناسی کی محنتوں کی اہمیت سے روگردانی کی ہے۔مشکل یہی ہے کہ اردو کے حوالے سے جو کچھ بھی اور جیسی کچھ بھی کاوشیں ہورہی ہیں، وہ ابتدائی سطح پر کم ہورہی ہیں ، اعلیٰ سطح پر زیادہ ہورہی ہیں اگر انہیں زیادہ کہہ سکتے ہیں تو۔اخبارات نکل رہے ہیں، کتابیں لکھی جارہی ہیں، نقد وادب سے وابستہ افراد کو عزتیں مل رہی ہیں مگر ابجد شناسی کی سطح پر بڑی مایوس کن صورت حال کا سامنا ہے۔ مدارس اور مکاتب میں ابجد شناسی کی سطح پر اچھی پیش رفت ہورہی ہے مگر اسے قابل اعتنا نہیں سمجھا جاتا بلکہ کئی بار اسے نکار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ مدارس نے ، ادبی ،تحقیقی اورلسانی سطح پر اردو کو زرخیز نہیں کیا ہے۔

اردو سے پہلے ریاستی درجہ چھین لیا گیا، پھر بعض ریاستوں میں اسے دوسرے درجے کی سرکاری زبان تسلیم تو کیا گیا مگر زمینی سطح پر کچھ نہیں ہوسکا، بیشتر اسکولوں میں اردو نصاب کا حصہ نہیں رہی، اگر رہی تو کتابیں اور اساتذہ ندارد رہے۔ اور اگر کسی نہ کسی درجے میں سب کچھ رہا بھی تو اہلِ اردو سست واقع ہوئے ، ان میں سے زیادہ تر انگریزی وہندی کی طرف چلے گئے۔ خاص طور پر اشرافیہ نے اردو کو درخور اعتنا نہیں جانا۔ اورکوئی زبان اگر اشرافیہ تک نہ پہنچ سکے تو اس کی زندگی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی بالکل اسی طرح جس طرح اگر کوئی زبان اشرافیہ تک ہی محدود رہ جائے تو بھی اس کی زندگی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ زبان ، مذہب اور کلچر کو پھلنے پھولنے کا موقع اسی وقت ملتا ہے جب وہ دونوں طرح کے طبقات میں آزادانہ تعامل کریں، عوام سے شروع ہوں اور اشرافیہ تک جائیں یا اشرافیہ سے نکلیں اور عوام تک آئیں۔

مسلمان اردو کے حوالے سے چونکہ حساس واقع ہوئے ہیں اور ہونا بھی چاہئے کہ ان کی صدیوں پر محیط تہذیب وثقافت اس زبان کے درو بست میں محفوظ ہے، وہ یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ہمیں یعنی اردو والوں کو اپنے گھروں میں اردو کو زندہ کرنا چاہئے ، یہ مشورہ بجائے خود درست ہے ،خود ہم نے بھی اوپر یہی بات لکھی ہے مگر ایسا کرنے سے اردو صرف مسلم گھروں تک ہی محدود ہوکر رہ جائے گی کیونکہ اردو کو گھروں میں زندہ رکھنے کی جو ضرورت اور ترجیحات ہم مسلمانوں کے ساتھ ہیں وہ دیگر اقوام و اہل مذاہب کے ساتھ نہیں ہیں۔ اس لیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ اردو کو اسکولوں کے ابتدائی درجات میں زندہ رکھنے کی کوششیں کی جائیں۔اور اسکول وکالج کے علاوہ ایسے پروگرام چلائے جائیں کہ ہند وبیرون ہند کے تمام لوگ اس سے جڑ سکیں اور اسے اپنی زبان سمجھ کر پڑھیں یا پھر ایک آپشنل زبان کے طورپر اس سے شغف رکھیں۔

اردو کے حوالے سے پرجوش مسلمانوں میں سے بعض مسلمان یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ اردو کو رومن اور ناگری اسکرپٹ میں بھی لکھا جائے تاکہ ملک کےوہ تمام لوگ خاص کر نئی نسل بھی اردو سے آشنا ہوسکے جو بولی کی سطح پر اردو سمجھتی ہے مگر لکھی ہوئی اردو نہیں پڑسکتی کیونکہ وہ اردو کی ابجد سے ناآشنا ہے۔ اگر ایک محدود پیمانے پر اردو کو غیر فارسی رسم الخط مثلا دیونا گری اور رومن وغیرہ میں لکھا جاتا ہے تو کچھ ایسابرا بھی نہیں بشرطیکہ اردو کا موجودہ رسم الخط مین اسٹریم کا رسم الخط رہے۔ ایسا کرنے سے ممکن ہے اردو بولی کی سطح پر مزید وسیع ہوجائے۔ اور اردو کی لفظیات دیگر زبانوں میں اسی طرح نفوذ کرتی رہیں جس طرح ماقبل آزادی اور مابعد آزادی کے دورمیں نفوذ کرتی رہی ہیں۔ اردو کا رشتہ دیگر زبانوں کے ساتھ اس طرح مربوط رہنا چاہئے کہ اردوان سے سیکھتی بھی رہے اور انہیں سکھاتی بھی رہے۔ غیر اردو لفظیا ت اور اصطلاحات سے استفادہ بھی کرے اور اپنی لفظیات واصطلاحات سے استفادہ کرنے بھی دے۔

رسم الخط کو بدلنا انتہائی غلط اور نقصان دہ ہے البتہ رسم الخط کو وسعت دینا کار خیر ہوسکتا ہے۔رسم الخط کا بدلنا یہ ہے کہ اردو کے اپنے رسم الخط کوختم کردیا جائے اور اسے وسعت دینا یہ ہے کہ اس کے اپنے رسم الخط کو مین اسٹریم میں باقی رکھتے ہوئے اسے دیگرکوئی ایک یا ایک سے زائد اسکرپٹ میں بھی لکھا ، پڑھا اور سمجھا جائے۔ کیونکہ جب بھی ایسا ہوا ہےکہ کسی زبان کو دوسری زبان سے اور کسی رسم الخط کو دوسرے رسم الخط سے بدلا گیا ہے تو ایسا اکثر وبیشترسیاست ،مفاداور تعصب کی چال پر ہی کیا گیا ہے، انگریزوں کے دور میں فارسی کو اردو سے بدلا گیا اور آزادی کے بعد اردو کو ہندی سے تو ایسا اردو سے محبت کے نتیجے میں نہیں کیا گیا،ترکی میں ترکی کے عربی رسم الخط کو لاطینی رسم الخط میں بدلاگیا تو وہاں بھی ایسا ترکی زبان کی محبت میں نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس سب کے پس پردہ ، چالبازی تھی ، تعصب تھا یا پھر غلامانہ ذہنیت تھی۔ لہذا آج بھی اگر کوئی رسم الخط کو سیدھے سیدھے بدلنے کی بات کرتا ہے تو اس کے اس مطالبے کو تعصب سمجھنا مبنی برانصاف ٹہرایا جاسکتا ہے۔

پنڈت جواہر لال نہرو نے رسم الخط کی تبدیلی کے تعلق سے چند خطرات سے آگاہ کیا ہے:

’’ .. ایک شاندار ماضی کی وارث زبان کے لئے رسم خط کی تبدیلی بہت زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ رسم خط اور زبان میں چولی دامن کا رشتہ ہے۔ رسم خط بدل کر دیکھو کہ لفظوں کی شکل ہی بدل گئی ہے۔ ان کی آواز بھی بدل گئی ہے اور ساتھ ساتھ خیالات بھی بدل گئے ہیں۔ اس کے بعد قدیم و جدید ادب میں ایک ناقابل عبور حد فاصل آ جاتی ہے۔ اور پرانی زبان ہمارے لئے اجنبی اور مردہ ہو جاتی ہے۔ جس زبان کا کوئی ادبی سرمایہ نہ ہو وہ ان جوکھوں سے کھیل سکتی ہے۔ ہندوستان میں تو میں اس قسم کے تغیر کا گمان بھی نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ہمارا ادب نہ صرف قیمتی اور وسیع ہے، بلکہ وہ ہماری تاریخ اور دماغ میں رچ بس گیا ہے اور عوام کی زندگی میں گھل مل گیا ہے۔ اس قسم کا تغیر ایک ظالمانہ قطع وبرید ہو گی جو عام تعلیم کے چلن میں سد سکندری بن جائے گی۔‘‘

(بحوالہ : نقوش ۔’ادبی معرکے نمبر، حصہ اول‘)

گرچہ یہ خیالات متحدہ ہندوستان کے وقت کے ہیں پھر بھی ان میں پوشیدہ سچائی آج کے حالات پر بھی پوری طرح صادق آتی ہے۔آج بھی اگر ایسا کچھ ہوگا تو وہی سب نتائج پیدا ہوں گے جن سے پنڈت نہرو نے آگاہ کیاتھا۔
اس حوالے سے ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ ملک کی دیگر زبانوں کے تعلق سے رسم الخط کی تبدیلی کا سوال اتنی شد ومد کے ساتھ کیوں نہیں اٹھایا جاتا، مثلا مرہٹی، بنگالی ، گجراتی اور ہندی کو کسی ایک ہی رسم الخط میں لکھنے کی بات آگے کیوں نہیں بڑھائی جاتی جبکہ یہ چاروں تو سنسکرت نژاد زبانیں ہیں۔ اس سوال کے پس منظر میں کہیں نہ کہیں یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ اردو زبان کسی نہ کسی طرح گھاگ سیاست کے داؤ پیچ کی زد پر ہے اور اس سے نبرد آزما ہونا تمام اہلِ زبان کی خصوصی ذمہ داری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!