جنرل

ہفت روزہ ”دعوت“ کاتازہ شمارہ منظرِعام پر

بیدر:3/ڈسمبر (وائی آر ) ہفت روزہ دعوت کاتازہ شمارہ(27تا3/ڈسمبر) منظر عام پر آچکاہے۔ اس شمارے میں آسام میں این آرسی اور وہاں ہونے والی اموات پر افروزعالم ساحل دہلی کامضمون پڑھا جاسکتاہے۔ ایسے ہی مزید دومضامین اور عوام کی آراء شامل شمارہ ہیں جن کو پڑھ لینا چاہیے۔ کیونکہ امیت شاہ وزیرداخلہ نے بیان دیاہے کہ 2024تک ملک میں این آرسی نافذ ہوگا۔ہندنامہ میں بریلی کے عرفان الٰہی کا مضمون ”بنارس ہندویونیورسٹی، کہاں ہے جمہوری مزاج“ کے عنوان سے شاملِ اشاعت ہے۔

فہیم الدین احمد کا ”خبرونظر“ قارئین کی دلچسپی برقرار رکھے گا۔ سیدافتخار احمد نے ”مہاراشٹر کی سیاست میں دھوکے بازی کے مختلف چہرے“ عنوان سے تجزیہ پیش کیاہے۔ ڈاکٹر سلیم خان کامضمون ”اجیت پوار نے موقع پرستی کی روایت کو برقرار رکھا“دیاگیاہے۔ 10/ڈسمبر کے”یومِ حقوق انسانی“ کے حوالے سے مولانا سید جلال الدین عمری کامقالہ ”انسانی حقوق کا بین الاقوامی منشور اور اسلامی تعلیمات“ پڑھنے اور بردران وطن تک پہنچانے کے لائق ہے۔ اداریہ کاعنوان ”مہاڈرامہ“ دیاگیاہے۔ ان اللہ مع الصابرین مضمون عالم نقوی لکھنوکا ہے۔ پروفیسر ظفیراحمد کولکتہ نے ”عدل وانصاف کے بغیر قیام امن ممکن نہیں“ لکھا ہے۔ مسلمانوں کے حوصلوں کو بڑھانے والامضمون ہے۔

محمد انور حسین نے ”بھوکے بچے بھوکا ہندوستان“ نامی مضمون لکھاہے۔ دعوت مباحثہ کے تحت ”فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا فروغ، حکومت کی ذمہ داری اور کتنی سماج کی؟“ دیاگیاہے۔ دی ہندو اخبار سے جی سمپت کی تحریر ”جے این یو کے مسائل کاحل“ لیاگیا ہے جس کااردو ترجمہ عبدالباری مومن نے کیاہے۔ سید منصور آغا، نئی دہلی نے جے این یو پر ہی مضمون پیش کیاہے۔ دعوت میل کے تحت کئی ایک دلچسپ میل ہیں جو اخبارکی جدید آرائش اور پرنٹنگ سے لے کر این آرسی جیسے موضوع کا احاطہ کرتے ہیں۔ محترمہ چندرسوتاڈوگرانے ”ایودھیا کے فیصلے پر سکھ کیوں برہم ہیں؟“ کے عنوان سے مقالہ پیش کیا ہے۔ کافی دلچسپ ہے۔ اعظم شہاب نے ”بابری مسجد مقدمے کافیصلہ:ملی قیادت کو قصوروار قرار دینا کہاں کا انصاف ہے؟“ لکھا ہے۔ بروقت لکھاگیامضمون، مختلف افواہوں اور خیالات کو ختم کرنے میں مدد دے گا۔

ڈاکٹر مظفرحسین غزالی نے ”نئے ہندوستان کی آغوش میں معصوم بچپن بلک رہاہے“ کے عنوان سے مضمون تحریرکیاہے۔ یہ دراصل ایک رپورٹ ہے جو بہت سے حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے۔ سیدتنویر احمد ”اسکولی ٹائم ٹیبل میں ہورہے نئے تجربات“پر مضمون پیش کیاہے۔ جس میں تلفظ پر بڑی اہم باتیں لکھی ہیں۔ شوکت حیات کا ”گنبد کے کبوتر“ کی دوسری اور آخری قسط دی گئی ہے۔مجیدعارف نظام آبادی (ریاض، سعودیہ) کا مضمون ملاکی اذاں اور مجاہدکی اذاں اور“ مساجد کی مرکزیت پر ہے۔

طنزو مزاح کے تحت محمدیوسف رحیم بیدری کا انشائیہ ”امیت(امید) سے ہے پیاز“ پڑھنے کوملے گا۔ بڑادلچسپ اور سیاسی گلیاروں پر لکھا ہو ا پیازی انشائیہ ہے۔ این آرسی پر ترتیب دی گئی پہلی اردو کتاب ”این آرسی، اندیشے، مسائل اور حل“ عطاء الرحمن نوری نے لکھی ہے۔ جس کایہاں تعارف کرایاگیاہے۔ پونہ کے شبیع الزماں نے ”گاندھی جی اور آریس یس“ عنوان پر مضمون لکھاہے۔ اودگیر کے انورحسینی نے کیرلہ کے اسکولوں کے بارے میں حوصلہ افزاء مضمون پیش کیاہے۔ حیدرآباد کے فاروق طاہر، اورمسعود ابدالی کامضمون بھی ہفت روزہ دعوت کے اس شمارے میں شامل ہے۔

حلقہ خواتین کے تحت بچوں پر توجہ دینے کے لئے مضمون میں دہائی دی گئی ہے۔ افزائش حسن اور دسترخوان بھی موجودہے۔ ہارون ریشی نے کشمیر نامہ پیش کیاہے۔ جبکہ چلڈرن سرکل کے تحت بچوں کے لئے کہانی، لطائف، نظم اور مقابلہ ”ننھے فنکار“ کااعلان کیاگیاہے۔ ”میرے اباامی“ عنوان پر 200الفاظ پرمشتمل مضمون 15ڈسمبرتک dawatweekly@gmail.com پر بھیجنا ہوگا۔ تمام بچوں کے نام تصویر سمیت شائع ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!