سماجیمضامین

میں اُردو ہوں، مجھے اُردو ہی رہنے دو

ذوالقرنین احمد

اردو زبان ایک ایسی زبان ہے جس کے شرینی، شائستگی، بولنے اور سننے کی لفاظیت فصاحت و بلاغت، سے ہر کوئی متاثر ہوا ہے۔ اردو ایک محبت کی زبان ہے، عشق کی زبان ہے، اردو ادب ایک ایسا ادب ہے۔ جس نے بھی اسے محسوس کیا اور سنا ہے وہ اسکے کانوں میں رس گھولتی ہے، اسے اپنا گرویدہ بنا دیتی ہے، اور سماعت کے زریعے سے سماعین کی دلوں میں گھر کر لیتی ہے۔ اردو ایک وسیع ترین زبان ہے۔ جس پر کسی مذہب یا قوم کی اجارہ داری نہیں ہے۔ یہ محبت کی زبان ہے اسکی پرورش اردو ادب کے نامور شخصیات نے کی ہے۔ کسی ادیب نے اسے گودی میں کھلایا ہے، تو کسی نے اسے بیٹی کی طرح پالا ہے، میری تقی میر نے اسے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا ہے۔ داغ دہلوی نے اپنے آنگن میں اسے سجایا ہے، غالب نے اسکے زریعے سے عشق کے اسباق پڑھائے، علامہ اقبال نے اس زبان کے زریعے خودی کا پیغام دیا، حق کا آئینہ دیکھایا ، اور آج بھی اسکی محبت میں کمی نہیں آئی ہے بلکہ مزید اس کے خوبصورتی میں اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے۔
اردو زبان کو پہچان اس وقت ملی جب برطانوی دور حکومت میں انگریز حکمرانوں نے فارسی کے بجائے انگریزی کے ساتھ شمالی ہندوستان کے علاقوں میں اردو کو دفتری زبان کے طور پر نافد کیا، تاکہ فارسی کی اہمیت کو ختم کرے اسی وجہ سے مشرقی ہندوستان کے ہندوؤں میں تحریک اٹھی بجائے فارسی رسم الخط کے اسے دیوناگری رسم الخط میں لکھا جائے، اسکی وجہ ہندوستانی کی جگہ لے لی اور زبانوں مین تقسیم ہوگئی اردو برائے مسلم ،اردو برائے ہندی برائے ہندو، اور اس تقسیم نے ہندوستان کو منقسم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اردو دراصل ہندی سے نکلی ہے جس میں مختلف ماہرین و محقق کے مختلف قول ہیں۔ یہ بھارت کی سرکاری زبان ہے بہار، دہلی، جھارکھنڈ، جموں و کشمیر، اتر پردیش، مغربی بنگال تلنگانہ، ریاستوں کی سرکاری زبان ہیں۔ اردو اور ہندی کے رسم الخط مختلف ہے، اردو نستعلیق رسم الخط کے ساتھ اور ہندی دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ اردو لفظ ترک زبان کے لفظ اوردو (لشکر) سے نکلا ہے، وسطی ایشیاء کے افغان ترک فارسی متکلم بادشاہوں نے فارسی زبان کو اس خط میں متعارف کروایا اس میں سلطان محمود غزنوی کا نام قابل ذکر ہے دلی کے ترک افغان سلطنت سے سب سے فارسی کو شمالی ہندوستان کے دفتری زبان قرار دیا، انکی پیروی کرتے ہوئے مغلوں نے بھی اٹھارویں صدی تک ای حالت میں رکھا، یون فارسی زبان نے صدیوں جنوبی ایشیا میں قدم جمائے رکھے۔ حافظ محمود شیرانی کے نزدیک اردو محمود غزنوی کے حملہ ہندوستان کے ادوار میں پنجاب میں پیدا ہوئی۔ لفظ اردو کو شاعر غلام ہمدانی مصحفی نے 1780 کے آس پاس سب سے پہلے استعمال کیا اس زبان کے مختلف نام تھے۔ جس میں ہندوی ،ریختہ دہلوی، اور پھر یہ اردو ہوئی لیکن آج بھی ہندوستان میں اسے تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

گاندھی جی کو فخر تھا کہ اردو ہندوستان میں پیدا ہوئیں، مولوی عبدالحق کو بابائے اردو کے لقب سے نوازا گیا۔ ہند و پاک دونوں ملکوں میں اردو کو کافی عروج ملا ہے۔ اردو کی ایک خاصیت یہ بھی کہ جو انپڑھ ہو اسکے لیے بھی اردو زبان دل کے سکون و راحت کا باعث بنتی ہے۔ اردو زبان کا‌میدان وسیع ہے۔ جس میں اردو جاننے والے اور اردو ادب سے محبت رکھنے والوں نے بڑے خوبصورت احساسات و جزبات کو اُردو کے زریعے سے پیش کیا ہے۔ شاعری کے زریعے ، مثنوی کے زریعے، افسانوں، کہانیوں، ناولوں، کے زریعے اپنے اندر قابلیت کا مظاہرہ کیا ہے اور اس کے زریعے پیغام بھی دینے کی کوشش کی ہے۔ مادری زبان ہی وہ زبان ہوتی ہے، جس میں انسان اپنے جزبات و احساسات کو بہتر انداز میں پیش کر سکتا ہے۔ اردو سے ہماری تہذیب و ثقافت سے وابستہ ہے۔ اسی زبان کی حفاظت کرنا تہذیب و ثقافت کی حفاظت کرنے کے مترادف ہے۔ اگر زبان کی حفاظت نہیں کی جاسکی تو ہمارے تہذیب کو ہم سے چھین لیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی قوم کی اپن زبان میں ہی بہتر انداز میں تربیت و رہنمائی کی جاسکتی ہے۔

یوں تو ہر طرف مسلمانوں کو تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے ملک عزیز میں بھی ہر آئے دن نئے نئے شوشے چھوڑے جاتے ہیں اور مسلمانوں کو خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ ملک میں زافرانی عناصر اپنے گندے ناپاک عزائم کو لے کر بر سر اقتدار ہے۔ آج انکی تعصب پرستی سے اردو زبان بھی محفوظ نہیں دیکھائی دیتی ہے۔ جس طرح انگریزوں نے فارسی کو ختم کرنے کیلے اردو کو بڑھاوا دیا تھا اور اسکے نتیجے میں ہندؤں نے اردو کو دو زبانوں مین تقسیم کردیا کہ ہندی ہندؤں کی اور اردو مسلمانوں کی زبان ہے جبکہ زبان تو تہذیب پر منحصر ہے۔ جہاں ایک ملک میں مختلف مذاھب کے لوگ بستے ہے ساتھ میں رہتے ہو اور ایک دوسرے کے ساتھ انکے لین دین ہو تو ایسی جگہ پر زبان کو تعصب کا نشانہ بنانا غلط بات ہے، ہاں یہ بات ہے ہماری مادری زبان ہےتو یہ ہم اس زبان کا استعمال کرتے ہیں لیکن اس زبان کو مذہب میں طولنا غلط ہے کہ وہ زبان تو کبھی خود ہوکر اپنے ہندو مسلم ہونے کا اعلان تو نہیں کرتی ہے وہ تو کئی بار تبدیل ہوکر اردو ہوئی ہے جس میں ہندی بھی ہے فارسی بھی ہے عربی بھی ہے ترکی بھی۔ لیکن آج اسے تعصب کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ نئی دہلی میں ریختہ کے تحت 13سے 15 دسمبر کو ہونے جارہے پروگرام جشن ریختہ کے بینر میں اردو کی جگہ جو ہندوستانی کا لفظ کا استعمال کیا گیا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ ریختہ اردو کا ایک بہت اچھا پلیٹ فارم ہے بہت بڑی ویب سائٹ ہے اور اس میں کافی بڑے بڑے اردو داں اصحاب موجود ہے۔ انہیں اس بات پر غور و فکر کرنا چاہیے کہ اردو کو اردو ہی رہنے دو یہ زبان اپنے اندر عشق و محبت کا وسیع سمندر لیے ہوئے ہیں اسے تبدیل یا تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اقبال اشہر نے خوب کہا ہے۔

کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ
میں نے تو کبھی خود کو مسلمان نہیں جانا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!