محبتِ رسولﷺ اورعمل کے پانچ محاذ
محمد عبد اللہ جاوید
ماہ ربیع الاول کی آمد کے موقع سے رسول اکرمﷺ سے محبت کا اظہار یوں تو عام طور پرمحسوس کیا جاتا ہے‘ لیکن ساتھ ہی اس دوران منعقد ہونے والی مختلف سرگرمیاںسوچنے پر آمادہ کرتی ہیں کہ فی الوقعی محبت رسولﷺ سے متعلق ہماری موجودہ صورت حال کا کیا عالم ہے؟ اس موقع سے بعض پہلوؤں سے جائزہ مفید ہوگا۔جائزہ یہ معلوم کرنے کے لئے کہ یہ اظہار محبت‘کس حدتک ایمان بالرسولﷺ اور اس کے تقاضوں کے دائرہ میں شمار کی جاسکتی ہے؟ اور وہ کس حد تک ان طریقوں سے مطابقت رکھتی ہے جن کے ذریعہ ہمارے اسلاف اور بزرگان دین نے آپؐ سے محبت کا اظہار فرمایا تھا؟یہ خود احتسابی کا عمل اس لئے ضروری ہے کہ اللہ کے رسولﷺ پر ایمان اپنی کیفیات اور اثرات کے لحاظ سے بخوبی معلوم کیا جاسکتاہے۔احتساب کے لئے تین پہلو بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔
پہلا یہ کہ کس حد تک ہماری خواہشات اور جذبات‘ رسول اللہﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے تابع ہیں؟دراصل یہی وہ معیار ہے جس کو آپﷺ نے ایمان کی کسوٹی قرار دیا(1)۔ اسی کسوٹی میں وہ محبت بھی شامل ہے‘ جو اللہ سے شدید محبت کے حوالے سے رسالت مآبﷺ سے بھی ہوتی ہے۔ یعنی محبت رسولﷺ کا اظہار‘ اتباع شریعت ہی سے ہونا چاہئے۔اگر معاملہ ایسا نہ ہو توسرے سے ایمان ہی معتبر نہیں۔
دوسرا پہلورسول اللہ ﷺ سے حضرات صحابہ کرامؓ کی محبت و عقیدت کی نوعیت سے تعلق رکھتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے حضرات صحابہ کرامؓ ٹوٹ کر محبت فرمایا کرتے تھے۔ یہ محبت ان کے پختہ ایمان اور قول و عمل کی یکسانیت میں ڈھل گئی تھی۔ ان کا برجستہ اور برملا کہنا فداہ امی وابی(میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان) اسی محبت کے عملی تقاضوں کی تکمیل کا نقطہ عروج تھا۔یعنی حضرات صحابہ کرامؓ نے آپؐ کی محبت کو‘قرآن سنت پر عمل کا اہم ترین تقاضہ اور ذریعہ سمجھ لیا تھا۔چنانچہ ان برگزیدہ ہستیوں نے صرف بروقت عمل صالح انجام دینے کا التزام نہیں فرمایا بلکہ ان کے عمل میں استقلال اور مسابقت بھی نمایاں تھی‘جبکہ تاخیر اور سستی وکاہلی کا کوئی عمل دخل ہی نہیں تھا۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ سے ان کی محبت اور اسکے مطابق سنتوں پر عمل سے عقیدت مندانہ جذبات نقطہ عروج پر پہنچے تھے جو ان کی زبانوں سے فداہ امی وابی کے الفاظ سے ظاہر ہوتے تھے۔یوں سمجھ لیں کہ یہ زبان سے ادا ہونے والے صرف چند الفاظ نہیں بلکہ قول و عمل کی یکسانیت اورزندگی کے تمام انفرادی و اجتماعی معاملات میں محبت رسولﷺ کو اپنی خواہشات‘جذبات اور تمام تر مفادات پر ترجیح دینے کا بامعنی اعلان تھے۔
تیسراپہلو اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ رسول اللہ کی زندگی میں ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے(2)۔اللہ کے رسولﷺ کی زندگی ہر زمانے کے لئے راہنما ہے‘آپﷺ کی سیرت کے تمام پہلوؤں کااحاطہ‘آپؐ کے ہرعمل اور ادا کی حفاظت‘صبح بیدار ہونے سے لے کر رات سونے تک کے اعمال کیلئے آپؐ کی واضح راہنمائی اور پھر یہ تاکید کہ ہرحال سنت کی پیروی لازم ہے‘ دراصل ایک ایسا پیمانہ ہے جو دو اور دو چار کی طرح واضح کرتا ہے کہ فی الواقعی ہمارا ایمان کس معیارکا ہے؟ اس کی کیفیات اور اثرات کا کیا حال ہے؟ اور ہم نے محبت رسولﷺ کوکس حد تک اپنے تمام انفرادی واجتماعی معاملات پر نچھاور کردیا ہے؟
ان تین پہلوؤں سے ہماری خود احتسابی کا عمل ظاہر بات ہے بڑا حوصلہ افزا تو نہیں ہوگا‘ ہماری انفرادی اور اجتماعی حیثیت اور معاشرہ میں مقام‘ بخوبی ظاہر کرتا ہے کہ بقول علامہ اقبال:
کی محمدﷺ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں – یہ جہاں چیز ہے کہ لوح وقلم تیرے ہیں….
کے پیش نظر ہمارا کیا حال ہے؟جہاں تو دور کی بات ہے آج امت اپنے اپنے مقام پر مذہبی اور تہذیبی شناخت کیلئے سرگرداں نظرآرہی ہے۔
لیکن اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی یہ مہلت زندگی‘جواں عزائم اور بلند حوصلوں کی ترجمان بن سکتی ہے۔پھر سے محبت فاتح عالم کی تاریخ دہرائی جاسکتی ہے۔اللہ کے رسولﷺ کی محبت سے سرشار‘ انفرادی و اجتماعی زندگی گزارنے کا سلیقہ‘انشاء اللہ کھوئے ہوئےوقار کی بازیافت اور معاشرہ میں پرُ عظمت وجود ممکن کرسکتاہے۔اس ضمن میں پانچ محاذ ایسے ہیں جن پر ہر فرد ملت کو سنت رسولﷺ کی روشنی میں کھرا کھرا اترنے کی شعوری اور بلاتاخیر کوشش کرنی چاہے۔ان محاذوں پر انفرادی توجہ کے علاوہ اجتماعی توجہ‘ انفرادی کوششوں کا نقطہ عروج معلوم ہو‘نہ زیادہ انحصار انفرادیت پر ہو اور نہ ہی تمام تراقدامات‘ اجتماعی حیثیت کے مرہون منت ہوکر رہ جائیں۔ان پانچ محاذوں کا مختصر خلاصہ پیش ہے:
(۱) پہلا محاذ‘ذاتی اور خاندانی زندگی: رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کی آئینہ دار ہو۔ اللہ کے رسولﷺ کی بعثت کا مقصد مکارم اخلاق کی تکمیل تھا۔لہذا ذاتی اور خاندانی زندگی‘ یہ وہ پہلا محاذ ہونا چاہئے جہاں رسول اللہﷺ کے مکارم اخلاق والے اس مشن کی تکمیل کا ہر فرد بیڑا اٹھائے۔ذاتی زندگی میں رسول اللہ ﷺ کی نصیحتوں کایہ اثر ہو کہ وہ سراپا رحمت بن جائے۔ اپنی زبان اور نگاہوں کی حفاظت اور دل قابو میں رکھے۔ شخصی کمزوریوں سے اپنی زندگی محفوظ رکھنے کیلئے ان اخلاقی اقدار کی سختی سے پابندی کرے۔نہ چغلی نہ غیبت‘ نہ بہتان اورنہ لایعنی گفتگو۔
لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ چار مسلمان کی مختصر محفل بھی غیبت اور لایعنی گفتگو سے خالی نہیں رہتی بلکہ وہ محفل ہی نہیں سمجھی جاتی جس میں ان برائیوں پر آپسی گفتگو نہ ہو۔رسول اللہﷺ کی تعلیمات میں ڈھل جانے والے مسلمان کی خاص پہچان اور امتیازی خصوصیت تو یہ ہوگی کہ اسکی زبان پر قابو‘نگاہیں پاک اور اس کا سینہ دوسروں کے رازوں کا مرکز ہوگا‘لوگ اس کو بھی صادق اور امین کے نام سے جانتے ہوں گے۔وہ سب کیلئے راحت سکون وجان ہوگا(3)۔
جہاں تک خاندانی زندگی کا تعلق ہے‘اگر کوئی مسلمان صرف یہ طے کرلے کہ میں اپنے والدین اور بیوی بچوں اور افراد خاندان کے ساتھ ویسا ہی رہوں گا جیسا کہ رسول اللہﷺ نے ہدایت و نصیحت فرمائی ہے(4) تو گھروں اور خاندانوں میں غیر معمولی انقلاب آجائے گا۔نہ والدین کو اپنے نافران بچوں کا ڈر ہوگا‘نہ بچے والدین کی بے لوث خدمت سے جی چرائیں گے۔ نہ بیوی شوہر سے اور نہ شوہر بیوی سے اکتاہٹ محسوس کرے گا‘ اور نہ ہی بچوں کی تعلیم وتربیت سے والدین بیگانہ ہوں گے۔نہ شادی بیا ہ میں غلط رسم و رواج کا چلن ہوگااور نہ ہی ساس بہو کے جھگڑے اور ٹوٹتے بکھرتے رشتوں کی بہتات ہوگی۔
رہی افراد خاندان کی بات‘ان کے ساتھ حسن سلوک کیلئے بہترین اخلاق کے پہلو کا ہی اطلاق ہوگا جو اوپرگھروالوں کے سلسلہ میں بیان کیا گیاہے۔مزید یہ کہ رسول اللہﷺکایہ ارشاد محرک بنے گا کہ بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کا کفارہ‘ افراد خاندان کے ساتھ حسن سلوک کے سوا کچھ اورنہیں (5)۔اور یہ کہ بہترین صدقہ وہ ہے جو ایسے غریب رشتہ دار پر خرچ کیا جائے جو دشمنی پر اتر آیا ہو(6)۔ اگر ان تعلیمات کی روشنی میں افراد خاندان کے ساتھ روابط وتعلقات بنائے رکھیں تو نتیجتاً وہ تمام معاشرتی مسائل کا حل بڑی یکسوئی سے ممکن ہے جو آج ہمیں ناقابل حل محسوس ہوتے ہیں چاہے وہ غربا کی خبرگیری ہو‘بیواؤں اور مسکینوں کی ضروریات کی تکمیل ہو‘ بن بیاہی لڑکیوں کی شادی ہو یا کمزور اور بے معنی آپسی رشتہ داریاں‘نہ معاشرہ میں در در بھٹکتی ملت کی لاچار و مجبور مائیں اور بہنیں نظر آئیں گی اور نہ ہی کوئی ایسا شخص نظر آئے گا جواپنی حاجتوں کیلئے ہاتھ پھلائے پھر رہا ہے۔انشااللہ ان سب کے لئے اللہ اوراسکے رسول ﷺ کی ہدایات قابل عمل حل پیش کریں گی اور افراد خاندان آپس میں شیر وشکر کی طرح زندگی بسر کرنے پر آمادہ ہوجائیں گے۔
(۲) انسانوں سے ہمدردی اور ان کی خدمت: یہ دوسرا محاذ ہے جس پر افراد امت کو پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ افروز ہونا چاہئے۔ اللہ کے رسولﷺ نے سارے انسانوں کوجس حیات بخش پیغام سے سکون وراحت بہم پہنچائی تھی کہ وہ یہ تھا کہ میں اس شخص کا ساتھی اور غم خوار ہوں جس کا کوئی یارومددگار نہیں (7)۔بات واضح ہے جس امت کا مقصد ہی انسانوں کی فلاح وبہبود ہو تو اس کا کامیاب وکامران ہونا اسی حد تک ممکن رہتا ہے جس حدتک وہ اپنے قوت استعداد اور استطاعت کے لحاظ سے انسانوں کی خدمت میں مصروف رہتی ہے۔جس قدر امت کی توجہ انسانی خدمت سے ہٹے گی اسی قدر ناکامیاں اور رسوایاں اس کے حصہ میں آئیں گی۔ رسول اللہﷺ کے اسوہ حسنہ کا یہ انسانیت نواز پہلو زور دارمحرک ہے۔اور آپؐ کے ایسے ارشادات بھی جن میں مسلمان کے اچھے ہونے کاایک معیار انسانوں کیلئے اچھا ہونا قرار دیا گیا(8) اور خلق خدا کی خدمت کرنے والوں کو محبوب الہی بتایا گیا (9)۔ انسانوں کی اسی خدمت کا نتیجہ وہ کام ہوتا ہے جس کے ذریعہ انہیں ان کے خالق کا تعارف کرایا جاتا ہے اور دین اسلام ہی کے ذریعہ دنیا وآخرت میں حقیقی کامیابی حاصل کرنے کو یقینی بتایا جاتا ہے جسے ہم عرف عام میں دعوت اسلام کہتے ہیں۔ جذبہ دعوت‘خدمت انسان ہی کا ایک پہلوہے۔ایک خدمت سے مادی ضروریات کی تکمیل کی جاتی ہے اور دوسرے جذبہ خدمت سے انسانوں کو آخرت کی کامیابی سے ہمکنار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس پہلو سے انسانوں کی بے لوث خدمت کیلئے امت کے افراد‘ مرد بھی‘خواتین بھی‘نوجوان بھی اور طلبہ بھی یکسو ہوں۔اس میدان میں امت کی نمائندگی نہ ہونے کا کھلا ثبوت وہ غلط فہمیاں اور اعتراضات ہیں جو اسلام اورمسلمانوں کے سلسلہ میں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر پھیلائی جارہی ہیں اور ان کا خاصہ اثر آج کے حالات پرمحسوس ہورہا ہے۔ معاشرہ‘کسی بھی گروہ کے اسی امیج کو قبول کرتا ہے جو اسکے سامنے باربار‘الگ الگ پیرائے میں پیش ہوتا رہتا ہے۔چونکہ ہم معاشرتی میدان میں انسانوں کی بے لوث خدمت کے حوالے سے دیگر اقوام سے بہت پیچھے ہیں لہذامعاشرہ نے فی الحال ہمارا وہ امیج قبول کرنا شروع کردیا ہے جو باطل طاقتیں پیش کررہی ہیں۔ورنہ آپ دیکھ لیں مکہ معظمہ کے گئے گزرے حالات میں بھی اہل ایمان کے اخلاق وکردار پر انگشت نمائی نہیں کی گئی جبکہ اسلامی عقائد سے متعلق جابجا اعتراضات کئے جاتے تھے۔
(۳) امت کے نشاۃ ثانیہ کی منصوبہ بندی: یہ تیسرا محاذ ہے جس پر اسوہ رسولﷺ کی روشنی میں توجہ کرنی چاہئے۔ امت مسلمہ کی حیثیت فی الوقت ایک سوالیہ نشان سی معلوم ہوتی ہے چاہے وہ خارجی نقطہ نظر سے ہو یا داخلی۔خارجی نقطہ نظر سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام پاکی کا درس دیتا ہے لیکن مسلم محلوں اور اداروں سے پاکی وصفائی غائب ہے۔اور یہ بھی کہ جس دین نے علم کی اس قدر اہمیت وفضیلت بتائی‘ اسی کے ماننے والے علم و تحقیق کے میدان میں پیچھے نظرآتےہیں۔پھر غیر منظم اور بے حسی کے عالم میں گزربسر کرنے والوں میں اکثر ہمارا شمار کیا جاتا ہے‘چاہے وہ مسلم مخالف قوانین کے سلسلہ میں منظم آواز بلند کرنے کی بات ہو یا مسلمانوں کی بہتری کیلئے جاری کی جانے والی اسکیموں سے استفادہ کا معاملہ ہو‘ ہردوصورت میں ہمیں غیر موثر اور غیر فعال سمجھا جاتا ہے۔جبکہ داخلی نقطہ نظر سے بھی وہی متضاد کیفیات دوسرے قالب میں ڈھلی نظر آتی ہیں۔چاہے اتحاد واتفاق کی بات ہو‘ یا کسی ادارہ یا اجتماعی نظم کو شورائیت اور اجتماعی قیادت کے تصور کی کی بنیاد پرچلانے کا معاملہ ہو۔اگر کہیں شوارئیت کا لحاظ کیابھی گیا ہو تو اسے اس قدر بوجھل بناکر رکھ دیا کہ ترقی نام کو نہیں یا پھر شورائیت کے ہوتے ہوئے عدم توجہی اور شخصی اجارہ داری کا بول بالا ہے۔بہرحال ان داخلی وخارجی مسائل کاامت کی موجودہ صورت حال پر بڑا نمایاں اثر محسوس کیا جاسکتا ہے چاہے معاشرتی یا معاشی پہلو سے ہویا پھر سیاسی اورثقافتی اعتبارات سے۔
امت کے احیاء اوراسکے نشاۃ ثانیہ کیلئے رسول اللہﷺ کی وہ تعلیمات بلاتاخیرعمل کی متقاضی ہیں جو امت کے اندر اللہ اور اسکے رسولﷺ کی محبت کے حوالے سے خیرخواہی کے بے پناہ جذبات دلوں میں وددیت کردیتی ہیں اور ہر فرد کو عمل کا پیکر بنادیتی ہیں (10)۔اس ضمن میں اللہ کے رسولﷺ کی ان تعلیمات پر منصوبہ بندعمل درآمد ہونا چاہئے جن میں اتحاد‘ آپسی محبت والفت‘ جذبہ خیرخواہی‘ امانت ودیانت‘ عدل وانصاف کیلئے تگ ودو کو ایمان کے لازمی تقاضے بتایا گیا ہے اور جن میں سے کسی کے بھی سلسلہ میں بے احتیاطی سخت وعید کی موجب بن جاتی ہے(11)۔آپﷺ کی ان سب نصیحتوں کا ابھرا ہوا پہلو یہی ہے کہ امت کے احیاء کیلئے نیکیوں کا حکم اور برائیوں سے روکنے کا کام ہر مسلمان کا کام بن جائے اور ہرحال اور ہرسطح پر انجام پاتا رہے۔ورنہ رسول اللہﷺنے وعید سنائی ہے کہ دعائیں مانگی جائیں گی لیکن وہ قبول نہیں ہوں گی(12)۔
(۴) نازک حالات میں رسول اللہﷺ کی راہنمائی: حالات جب نازسازگارہوں اور راہنمائی کی شدید ضرورت محسوس ہو تو جنگ احد کا وہ واقعہ یاد آتا ہے جب کہ مقابل میں دشمن تعداد میں زیادہ‘ وسائل سے لیس اور غر وتکبر سے حق کو نیچا کرنے کی ٹھان بیٹھے تھے۔ جبکہ دوسری جانب مسلمان بے سروسامانی کے عالم اور تعداد میں ان سے کہیں کم تھے۔ اس نازک صورت حال میں رسول اللہﷺ نے ایک جانب تو اپنے اصحابؓ سے یہ فرمایا کہ تم کہو کہ اللہ ہمارا مولی ہے‘ ساتھی اور مددگار ہے مدمقابل گروہ کا کوئی نہیں۔یعنی عزم وحوصلہ اور بے پناہ جوش وجذبہ کی اصل وجہ یہ احساس ہے کہ اللہ ساتھ ہے۔اوردوسری جانب آپﷺ نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا کہ اے اللہ تو ہماری اندرونی حالت چھپا دے اور اس کو امن میں تبدیل فرمادے۔یعنی دشمن کی موجود طاقت وقوت اور زعم میں اسوقت اضافہ ہوتا ہے جب وہ مخالف سمت میں ڈراور خوف کا ماحول محسوس کرتا ہے۔اسلئے رب سےالتجا کی گئی کہ حالت خوف دشمن پر عیاں نہ ہو۔
وہ قوم جوابتر صورت حال سے ابھر کر زمانہ کی زمام کار سنبھال لے اس کی یہی شان ہوتی ہے جو اسوہ رسول اللہﷺ سے ظاہر ہے۔حالات بگاڑنے والوں کے زور سے بڑھ کر حالات جس کے قابو میں ہیں اس پر توکل اور داخلی کمزوریوں کے باوجود فتح وکامرانی کا مکمل یقین‘عزت وسربلندی کا سبب بنتا ہے۔
ہمارے ملک کے موجودہ حالات‘ سابقہ حالات سے کئی لحاظ سے الگ معلوم ہوتے ہیں۔بہرحال یہ چاہا جارہا ہے کہ ہم مدافعانہ طرز عمل اختیار کریں اور اپنے حقیقی مسائل پر آواز اٹھانے کیلئے اتفاق واتحاد کا مظاہرہ نہ کریں۔یوں تو ملک میں کئی اقوام بستی ہیں لیکن جس طرح کا یکطرفہ اور متعصبانہ رویہ ہم سے روارکھا جارہا ہے وہ بالکل واضح ہے۔ممکن ہے کہ آنے والے حالات میں اور بھی کئی ایسے اقدامات اور فیصلے ہوں جن سے بحیثیت مسلمان کے ہمیں سخت تکلیف ہو۔
اس پس منظر میں اللہ کے رسولﷺکے اسوہ سے جواں عزائم اور آہنی ارادووں کے وہ جذبات لے کر میدان عمل میں برسرکار رہنا چاہئے جو مخالف کی اسکیمیں ہر طرح سے ناکام کردیتے ہیں۔جن کاذکر اوپر کے واقعہ میں کیا گیا۔کہ ہر حال اللہ کی حمد وثناء اور کبریائی بیان کی جائے‘اسی کی تائید ونصرت کے بھروسہ مومنانہ شان سے زندگی بسرکی جائے۔لوگوں سے مقابلہ مال ودولت اور عزت وجاہ کے توسط سے نہیں بلکہ ہشاش بشاش چہروں اور دل موہ لینے والے اخلاق سے کرنے میں امت کے ایک ایک فرد کو تیار کیاجائے (13)۔
رسول اللہﷺ کے اسوہ حسنہ سے یہ بات بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس امت کو انسانوں کی فلاح و بہبود کیلئے دنیا میں بھیجا ہے اسکی ترقی وخوشحالی‘ انسانی خدمت کے راستہ ہی سے ممکن ہوسکتی ہے۔یعنی انسانوں کے حقوق ادا کرنے کی بے لوث کوشش ہمیں اس اہل بنادے گی کہ اپنے رب سے جو چاہیں طلب کریں (14)۔یہاں انسانی حقوق کی پاسداری کے حوالے سے یہ بات بھی لازم آتی ہے کہ مروجہ قوانین کا بھرپور لحاظ رکھا جائے۔جس قدر ملک سے محبت کا ثبوت مروجہ قوانین کی پاسداری سے دیا جائے گا اسی قدرحرکت و عمل کے جذبات بڑھیں گے اور ہماری شخصیات بھی لوگوں کی توجہات کی مرکز و محور بن جائیں گی۔
نازک حالات میں اللہ کے رسولﷺ کا اسوہ یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ رب کریم سے مضبوط تعلق استوار رہے۔اس سے اس تمنا کا اظہار ہو کہ مشکل سے مشکل حالات میں صراط مستقیم سے قدم ہٹنے نہ پائیں‘ اس رب کے در کے علاوہ کسی اور کے در کا خیال تک نہ آئے۔حالات کا صحیح فہم وشعور نصیب ہو‘ ایسا شعور کہ ان حالات کو ایمان اور بصیرت کی نگاہ سے دیکھنے اور سمجھنے میں مدد مل سکے۔نہ حالات سے زیادہ مرعوب ہوں اور نہ ہی بالکل بے خوف اور بے نیاز بلکہ اعتدال کے ساتھ حالات کی بہتری کے لئے مصروف عمل ہوں۔مطمح نظر بس یہ ہو کہ رب کی جانب سے ہرچھوٹے بڑے کام کی توفیق ملے اور ہر عمل سے وہ راضی اور خوش ہوجائے(15) ۔ نازک حالات میں فاتح بن کر ابھرنے کااس نبوی منہج سے بہتر اور موثر لائحہ عمل اور کیا ہوسکتا ہے؟
(۵) وطن عزیز میں سیرت رسولﷺ کا تعارف: وطن عزیز میں شخصیت پرستی کا غالب پہلو یہ ہے کہ اس کو خدا کا درجہ باآسانی دیا جاتاہے۔چونکہ برادران وطن کی اکثریت شرک میں مبتلا ہے اس لئے خدائی میں اضافہ یا کمی ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔جب چاہیں کسی کو بھی اور کہیں بھی خدا کا درجہ دینے میں وہ تامل نہیں برتتے۔لیکن ان کے اس طرز عمل سے واضح ہوجاتا ہے کہ اگر کسی شخصیت کی اچھائیاں انہیں معلوم کرائی جائیں تو وہ دیر سویرہی سہی اس کو اپنانے میں تاخیر نہیں کریں گے۔اس پس منظر میں ہمیں وطن عزیز میں اللہ کے رسولﷺ کے تعارف کا ایک واضح نقشہ کار وضع کرنا چاہئے۔ہر سطح پر اس کی کوشش ہو۔ہر فرد اور جماعت‘ اپنے فہم و فراست کی بنیاد پر تعارف سیرت رسولﷺ کا منصوبہ تشکیل دے اور اسے نافذکرنےمیں اپنے تمام تر وسائل جھونک دے۔حکمت اورموعظت کے ذریعہ واضح کیا جائے کہ فرد‘ گھر‘خاندان اور معاشرہ سے متعلق اللہ کے رسولﷺ کی تعلیمات کس قدر فطری اور قابل عمل ہیں؟آپ ﷺ کے دنیائے انسانیت پر کیسے غیر معمولی احسانات ہیں؟مخلوط سماج میں امن و آشتی اور بہتری کے لئے آپ ﷺ کس قسم کے اصول پیش فرمائے ہیں؟غرض حسب ذیل امور کے پیش نظر انفرادی و اجتماعی سرگرمیاں انجام دینا‘ امت اسلامیہ ہند کی مشترکہ جدوجہد کا حصہ ہو:
آپؐ کے اخلاق قرآن کریم کی تعلیمات کا عملی نمونہ – اہل مکہ کا آپؐ کے اعلیٰ اخلاق کا اعتراف‘ صادق و امین کا لقب۔ آپؐ کی گھریلو زندگی – خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق آپؐ کی تعلیمات – آپؐ اور صحابیاتؓ کی تربیت – مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان مشترک پروگرام‘حلف الفضول کی روشنی میں – مکہ معظمہ میں آپؐ اور صحابہ کرامؓ کی رواداری – مکہ معظمہ میں امن کی بحالی کے لئے آپؐ کی کوششیں – ظلم و ناانصافی کے ازالہ سے متعلق آپؐ کے اقدامات – ہجرت جیسے نازک موقع پر لوگوں کی امانتوں کی ادائیگی – قیدیوں‘ مجرموں سے آپؐ کاحسن سلوک – ہجرت کے بعد مدینہ اور اطراف کی آبادیوں سے امن معاہدات – رسول اکرمﷺ اور مثالی حکمرانی – ملک کی ترقی کا اصول:خیر خواہ عوام سے ملک کی خوشحالی ممکن (خطبہ حجۃ الوداع)۔ سیرت رسولﷺ کے دیگر محاذوں پرتوجہ
محبت رسولﷺ کے تقاضوں کے پیش نظر بحیثیت مسلمان ان پانچ محاذوں پر توجہ دیتے ہوئے انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں صالح انقلاب لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ بلکہ ان پہلوؤں سے متعلق سیرت رسولﷺ اور سیرت صحابہ کرامؓ کا منصوبند اور تحقیقی ومعروضی مطالعہ ہونا چاہئے۔ اس ملک میں ہماری اجتماعی جدوجہد کا مرکز ومحورسیرت رسولﷺ کے مختلف پہلوؤں پر بحث وتحقیق ہو، کوششیں ایسی منظم جوبلاآخریہاں کے علمی وفکری محاذوں اور تہذیب اور ثقافتی میدانوں کی امام بن جائے۔
حوالہ جات:
(1) لایوٴمن أحدکم حتٰی یکون ھواہ تبعَا لما جئت بہ (مشکواة(۔
تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش میرے لائے ہوئے ( دین ) کے تابع نہ ہو۔
(2) لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (سورۃ الاحزاب:21)۔
یقینا تمھارے لیے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے، اس کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔
(3) خیرکم من یرجی خیرہ یومن شرہ…. (ترمذی)۔
تم میں سب سے اچھے وہ ہیں جن سے ہمیشہ خیر کی توقع کی جائے اور ہر طرح کے شر سے امان میسر آئے۔
(4) خیر کم خیرکم لاھلہ واناخیر کم لاھلی (ترمذی)۔
تم میں سب سے بہتر وہ ہے، جو اپنے گھر والوں کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لئےتم سب سے بہتر ہوں۔
(5) مِنَ الذُّنُوبِ مَالاَ یکَفَّرُہٗ اِلاَّ السَّعی عَلٰی العَیالِ (طبرانی)۔
بہت سے گناہ ایسے ہیں کہ جن کا کفارہ بس اہل وعیال کیلئے جدوجہد ہی سے ادا ہوسکتا ہے۔
(6) سئل عن الصّدقات ایھا افضل؟قال رسول اللہﷺعلی ذی الّرحم الکاشح ( ترغیب)۔
صدقات میں سے افضل صدقہ سے متعلق پوچھا گیا؟ رسول اللہﷺنے فرمایاوہ صدقہ جو آدمی اپنے غریب رشتہ دار کو دیتاہے جبکہ وہ اس سے دشمنی کرتا ہو۔
(7) اَنَا وَلِیٌّ مَن لَّا وَلِیَّ لَہٗ – میں اس شخص کا سرپرست اورساتھی ہوں جس کا کوئی سرپرست نہیں۔(مشکوۃ)
(8) جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ , أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إلى اللهِ؟ , وَأَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إلى اللهِ؟ فَقَالَ: ” أَحَبُّ النَّاسِ إلى اللهِ , أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ يَكْشِفُ عَنْهُ كُرْبَةً، أَوْ يَقْضِي عَنْهُ دَيْنًا، أَوْ يَطْرُدُ عَنْهُ جُوعًا، (التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب)۔
ایک شخص نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا، اے اللہ کے رسولﷺ ، اللہ کی نگاہ میں محبوب ترین کون ہے؟ اور کون سے اعمال اللہ کو زیادہ پسند ہیں؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک محبوب ترین وہ ہے، جو لوگوں کو زیادہ فائدہ پہنچائےیا مشکل دور کرے یا قرض ادا کرے اور بھوک مٹائے۔
(9) اَلْخَلْقُ کُلُّہُمْ عِیَالُ اللّٰہِ فَأحَبُّ الْخَلْقِ عِنْدَ اللّٰہِ مَنْ اَحْسَنَ الٰی عِیَالِہ( بیہقی)۔
ساری کی ساری مخلوق الله کی عیال (خاندان) ہے، لہذاالله کو سب سے زیادہ پسندیدہ وہ مخلوق ہے جو اس کے عیال (خاندان) کے ساتھ حسن سلوک کرے۔
(10) مثل الموٴمنین فی توادھم و تراحمہم و تعاطفہم کمثل الجسد، اذا اشتکی عضو تداعی لہ سائر جسدہ بالسہر والحمی۔(بخاری)۔
ایمان والوں کی آپس کی محبت، رحم دلی اور شفقت کی مثال ایک انسانی جسم جیسی ہے کہ اگر جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے تو (وہ تکلیف صرف اُسی حصہ میں منحصر نہیں رہتی، بلکہ اُس سے) پورَا جسم متاثر ہوتا ہے، پورا جسم جاگتا ہے اور بخار و بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
(11) قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ مَن نَّظَرَ اِلٰی اَخِیہِ نَظرَۃً یخِیفُہٗ اَخَافَہُ اللّٰہُ یومَ القِیامَۃِ (ابوداؤد)۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا جو اپنے بھائی کو ڈرانے اور دھمکانے والی نظر سے دیکھے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ڈرائے گا۔
(12) وَالَّذِی نَفسِی بِیدِہٖ لَتَامُرُنَّ بِالمَعرُوفِ وَلَتَنھَوُنَّ عَنِ المُنکَرِ اَو لیُؤشِکَنَّ اللّٰہُ اَن یبعَثَ عَلَیکُم عَذَاباً مِّن عِندِہٖ ثُمَّ لَتَدعُنَّہٗ وَلاَ یستَجَابُ لَکُم (ترمذی) ۔
قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تم ضرور نیک کاموں کا حکم کرنا اور برے کاموں سے منع کرتے رہنا ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنے پاس سے عذاب بھیج دے گا۔پھر تم اس سے دعا کرو گے تو تمہاری دعا قبول نہیں کی جائے گی۔
(13) إِنَّكُمْ لا تَسَعُونَ النَّاسَ بِأَمْوَالِكُمْ وَلَكِنْ يَسَعُهُمْ مِنْكُمْ بَسْطُ الْوَجْهِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ (مسلم)۔
تم لوگوں سے مال ومتاع میں آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرو بلکہ تم اپنے ہشاش بشاش چہروں اور بہترین اخلاق سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔
(14) رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ تم میرے بعد عنقریب ناپسندیدہ امراء اورانکے اثرات دیکھو گے۔یعنی نہ حکمراں ٹھیک ہوں گے اور نہ ہی ان کی وجہ سے حالات سازگار نظر آئیں گے۔لوگوں نے عرض کیا اگر ہم میں سے جو شخص ایسا زمانہ پائے تو کیا کرے؟آپؐ نے فرمایا:
اَدُّوا الحَقَّ الَّذِی عَلَیکُم وَ سَلُوا اللّٰہَ الَّذِی لَکُم ( مسند احمد)۔یعنی اپنے اوپر واجب ذمہ داریاں ادا کرتے رہواور اپنے حقوق اللہ تعالیٰ سے مانگو۔
(15) اللّٰھُمَّ خُذبِیدَنَا فِی المَضَاءِیق وَاکشِف لَنَا وُجُوہَ الحَقَائق ووَفِّقنَالِمَاتُحِبُّ وَتَرضَی (الدارمی)۔
اے اللہ مشکل حالات میں توہمارے ہاتھ تھام لے۔ہم پرحالات کی صحیح عکاسی فرما۔اور ایسے کام کرنے کی توفیق دے جن سے توخوش اور راضی ہوتا ہے۔