ریاستوں سےمہاراشٹرا

ممبئی حج ہاؤس میں جماعتِ اسلامی ممبئی اور اے پی سی آرکی جانب سے ورکشاپ

ممبئی: ساجد محمود شیخ، جماعتِ اسلامی ممبئی کے بموجب جماعتِ اسلامی ممبئی نے اے پی سی آر اور دیگر تنظیموں کے تعاون سے این آر سی جیسے حساس موضوع پر حج ہاؤس میں ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ یہ ورکشاپ اُن سماجی کارکنان اور تنظیموں کے ذمہ داروں کے لئے رکھا گیا تھا جو سماج میں این آر سی کے پیشِ نظر  دستاویزات کی تیاری میں لوگوں کی مدد کرنے کے خواہشمند ہیں ۔ پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآنِ مجید سے ہوا ۔ افتتاحی کلمات ادا کرتے ہوئے جماعتِ اسلامی ممبئی کے صدر عبدلحسیب بھاٹکر نے کہا آج این آر سی کو لے کر لوگ تشویشات میں مبتلا ہیں۔ یہ مسئلہ گھبرانے کا سمجھنے کا ہے۔ این آر سی کیا ہے۔ اِس میں کون سے دستاویزات ضروری ہیں یہ سمجھنے کے لئے یہ پروگرام رکھا گیا ہے۔

ماہرِ قانون ایڈووکیٹ سعید اختر صاحب نے کہاکہ قانون  کو سمجھنے کی ضرورت ہے قانون سے دور بھاگنا نہیں چاہئے آج ہم اُس دور میں جی رہے ہیں جہاں خوف کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے ۔این آر سی کا مسئلہ ایک ہوّا بنا ہوا ہے مگر اِس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے البتہ ہم کو دستاویزات کی تیاری پر دھیان دینا چاہیے۔ اور سب سے اہم دستاویز  پیدائش کا سرٹیفیکیٹ ہے کیونکہ آئین کی رو سے جو شخص ہندوستان میں پیدا وہ ہندوستان کا شہری ہے ۔

انہوں نے بتایا کہ ناموں میں فرق سے مسائل کھڑے ہوتے ہیں اسلئے ہمیں دستاویزات پر ناموں کو درست کروانے کی ضرورت ہے جس کے لئے ہم گورنمنٹ گزٹ کا سہارا لے سکتے ہیں ۔ یہ کام زیادہ ضروری ہے کیونکہ ناموں میں فرق سے دستاویزات غیر اہم یوجاتے ہیں اِس کے علاوہ انہوں نےمشورہ دیا کہ میرج رجسٹریشن کرواتے وقت اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت رجسٹریشن نہ کرواتے ہوئے اسلامک میرج ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کروائیے۔ انہوں نے نصیحت کی کہ ہمیں سرکاری محکموں سے ملے ہوئے سارے دستاویزات سنبھال کر رکھنے کی ضرورت ہے۔

آسام سے آئے ہوئے آسام مائناریٹی اسٹوڈنٹس کے ذمے دار اور  این آر سی کے ماہر جناب شکیل صاحب نے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب وہاں این آر سی کا کام شروع ہوا تو لوگوں میں  معلومات کی کمی تھی ۔کیا دستاویزات درکار ہیں ۔ فارم کیسے بھرنا ہے ۔ جس کی وجہ سے لوگوں کو تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ہم نہیں چاہتے کہ جو پریشانیاں ہم جھیل چکے ہیں اُن کا سامنا ہندوستان کے دوسرے شہریوں کو  کرنا پڑے ۔ اسلئے ہمارا مشورہ ہیکہ ابھی سے دستاویز کی تیاری پر دھیان دینا شروع کر دیں۔

آسام سے آئے ہوئے اُسی تنظیم کے ذمہ دارجنہوں نے این آر سی کے سلسلے میں وہاں کے لوگوں کی بہت مدد کی اور عوام کے حق کی لڑائی لڑی  ایڈووکیٹ عزیز الرحمٰن نے این آر سی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آسام کا مسئلہ مختلف نوعیت کا تھا ۔ 1950 میں نہرو لیاقت معاہدہ کے تحت 1950سے 1958 تک دونوں ممالک کے لوگ یہاں سے وہاں آتے جاتے رہتے تھے ۔ جس کی وجہ سے مقامی لوگوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ہندوستانی شہری کی پہچان کے لئے شہریت کا رجسٹر بنایا جائے ۔ پھر 1970 تک بڑے پیمانے پر مہاجرین کا آنے کا سلسلہ جاری رہا ۔ اِسلئے آسام میں 1950 تک ریاست میں رہنے والے شہریوں کو بنیاد بناکر این آر سی بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ مگر یہ بات ہندوستان کے دیگر علاقوں کے لوگوں کے لئے لاگو نہیں ہوتی ہے ۔

ہندوستان میں شہریت کی بنیاد آئین کی رو سے پانچ باتوں پر ہے اول پیدائش ،دوّم آباء واجداد کی شہریت کی بنیاد بنایا جائے گا سوّم یونین ٹریٹی کے ہندوستان میں الحاق جیسے گوا اور سکم  چہارم 1948 سے پہلے آباد ہندوستانی اور پانچواں کسے غیر ملکی کے ذریعے حکومت کو شہریت حاصل کرنے کی درخواست۔  آسام کے برخلاف ملک کے  دیگر حصّوں کے لوگوں کو اپنی شہریت ثابت کرنے کیلئے جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ خود سرکاری ملازمین گھر گھر جاکر لوگوں کا سروے کریں گے البتہ لوگوں کو اپنے بنیادی دستاویز تیار رکھنا چاہیے۔

 انہوں نے کہا کہ ملک کے دیگر حصوں کے لئے ابھی تک این آر سی کا کوئی خاکہ سامنے نہیں آیا ہے صرف بیان بازی ہورہی ہے ۔ اسلئے کسی قسم کی قیاس آرائیوں کے بجائے ہم لوگوں کو دستاویزات کی تیاری پر زور دینا چاہیے ۔ انہوں نے نشاندھی کرتے ہوئے کہا کہ پیدائش سرٹیفیکیٹ کے علاوہ انتخابی فہرست میں نام کا ریکارڈ،ہر قسم کے لائسنس، پاسپورٹ، تعلیمی قابلیت کے اسناد،راشن کارڈ اہمیت کے حامل ہیں۔

ایڈووکیٹ خوشنود انور نے بنیادی دستاویزات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری اداروں سے ملنے والے سارے دستاویزات پبلک ڈاکومنٹس کہلاتے ہیں جن کو حکومت بھی نظر انداز نہیں کر سکتی ہے ۔ اِس موقع پر ممبئی شہر کے کونے کونے سے آئے ہوئے مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ذمہ دار سماجی کارکنان نے اپنے تجربات بیان کئے اور اِس کام کے لئے متحد ہونے پر زور دیا۔ ورکشاپ کی نظامت ایڈووکیٹ شہود انور نے بحسن وخوبی انجام دی۔ آخر میں جماعتِ اسلامی ممبئی کے سیکرٹری جناب ہمایوں صاحب نے رسمِ شکریہ ادا کی۔ ورکشاپ میں سو سے زائد سماجی کارکنان نے شرکت کی اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک اہم ورکشاپ کے انعقاد پر منتظمین  اقدام کو سراہا۔                                                                    

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!