بے باک اور دو ٹوک: حق کسی کا مرہون منت نہیں۔۔۔
سید عبدالاحد سہیل، حیدرآباد
کیا بےباک و دوٹوک بات کہی کہ “حق کسی کا مرہون منت نہیں کہ کوئی اس کو مان کردے۔ حق اپنے میں آپ کامل ہےاسے کسی کی مدد کی چنداں ضرورت نہیں۔”
اگر لوگ اس کو مانتے ہیں تو وہ دور دور انسانی کا سنہری دور کہلانے کے قابل ہوتاہے ورنہ کتنی بھی آنکھوں کو خیرہ کرنے والی ماڈرن ٹیکنالوجی سے لیث ہونےکے باوجود وہ دور تاریک ترین دور کہلاتاہے۔
جس میں حق ثابت ہونےکےباوجود حق کو ماننے سے پہلو تہی کرنے کی وجہ سے اس کا وبال اس ناروا ظلم وناانصافی کا خمیازہ بھگتنا پڑتاہے۔ قوم کے اندر خود انصاف وعدلیہ کی اہمیت وقدر وقیمت ختم ہوجاتی ہے اور ملک خود بخود انارکی کے طرف چلاجاتاہے۔
عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومتوں سے بھی بالاتر ہوکر بغیر کسی باہری دباؤ کے حق وانصاف کو ہر ایک کےلیے برابر قائم کرے۔۔ورنہ زمین پر حق وانصاف کی کرسی سے ہی انصاف سے مغائر باتیں ہوں تو پھر زمین فساد فی الارض کا نمونہ بن جاتی ہے۔
لوگوں میں عدلیہ کی عزت و وقار ختم ہوجاتاہے۔اور مجرم دندناتے پھرتے ہیں اور ایک دن خود جو ناحق کےلیے شورمچارہےتھے انہی کےلیےوبال جان بن جاتے ہیں۔
جیسے ابھی عوام کا یو۔پی کے پولیس پر ہاتھ اٹھانا اور ایسے ہزاروں واقعات میں روزافزوں اضافہ ہورہاہے۔۔ملک کے سنجیدہ وذمہ دار ہونےکی حیثیت سے صرف یہی مسئلہ نہیں بلکہ ہر ناانصافی پر ملک گیر سطح پر یا جس حیثیت سے ہوسکتاہو اپنی آواز کو اٹھاتے رہنا چاہیے۔
اسلام بنیادی حقوق کا چیمپین رہاہے لیکن آج امت مسلمہ صرف ملی مسائل تک محدود رہ گئے ۔
خود ہم نے اپنے آپ کو محدود کرلیا تو حال یہ ہوا کہ جو دوسروں کے حقوق دلاتاتھا اب اسی کے حقوق کے لالے پڑگئے۔۔اسلام کی سچی روح کے ساتھ ہر ایک کے حقوق کےلیے ہمیں آواز بزور اٹھاناچاہیے جس سے دوسرے سیکٹرس سماج کے ان سے بھی ہمیں اپنے حقوق کی جب بات آئےگی ان سے تعاون مل سکتاہے ۔۔اور حق کی بازیافت آسانی سے ہوسکتی ہے۔