عورتیں مسجد جاسکتی ہیں
محمد رضی الاسلام ندوی
چند ایام قبل ہندوستانی سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے کہا ہے کہ وہ پونہ کے مسلم جوڑے کی اس درخواست کا جواب داخل کرے جس میں کہا گیا ہے کہ مسلم خواتین کو مسجدوں میں داخلہ کی اجازت دی جائے ۔ تین رکنی بنچ نے ، جو چیف جسٹس رنجن گوگئی ، جسٹس بوبڈے اور جسٹس عبد النظیر پر مشتمل ہے ، مرکزی حکومت کے ساتھ وزارت اقلیتی امور ، سینٹرل وقف کونسل اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کو بھی جواب دینے کے لیے نوٹس جاری کیا ہے اور اس کیس کی سماعت کے لیے 5 نومبر کی تاریخ متعین کی ہے ۔ درخواست گزاروں نے اس مسئلے کو صنفی مساوات سے جوڑا ہے اور بنیادی حقوق سے متعلق دستورِ ہند کی دفعات12، 15، 21 اور 25 کا حوالہ دیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے اس درخواست کو 16 اپریل 2019 کو اس پس منظر میں قبول کیا تھا کہ کیرلا کے سابری مالا مندر میں دس برس سے پچاس برس تک کی لڑکیوں اور خواتین کو مندر میں جانے کی اجازت نہیں تھی ، بالآخر خواتین کے زبردست احتجاج اور سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد انھیں اجازت مل سکی ۔ چنانچہ پونہ کے مسلمان جوڑے نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ اسی طرح مسلم خواتین کے مسجدوں میں داخلے پر عائد پابندی کو اٹھایا جائے اور انھیں بھی مسجد جاکر عبادت کرنے کا حق دیا جائے ۔
عبادت گاہوں میں خواتین کے داخلے سے متعلق دوسرے مذاہب کا کیا موقف ہے؟ اس سے بحث کرنے کا یہ موقع نہیں ہے ، لیکن اسلام کا ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ اسلام نے دینی و شرعی اعتبار سے خواتین کے مسجد میں داخلے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے ۔ اس سلسلے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا صریح فرمان ہے : ” تمھاری عورتیں جب مسجد جانے کے لیے تم سے اجازت چاہیں تو انھیں اس سے نہ روکو ۔ “ ( مسلم : 442 )
عہد نبوی میں بھی بعض لوگ خواتین کا گھر سے باہر نکلنا ، خواہ نماز کے لیے ہو ، پسند نہیں کرتے تھے ، لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے اس صریح ارشاد کی وجہ سے انھیں روکنے کی ہمّت نہیں ہوتی تھی ۔ انہی میں سے ایک حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ انھیں خواتین کا نکلنا پسند نہ تھا ، لیکن ان کی زوجہ حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا برابر مسجد جاتی تھیں ۔ کسی نے ان سے کہا کہ جب آپ کو اپنے شوہر کا عندیہ معلوم ہے تو آپ ان کی خواہش پر عمل کیوں نہیں کرتیں؟ انھوں نے پوچھنے والے سے الٹا سوال کردیا : پھر وہ مجھے روک کیوں نہیں دیتے؟ پوچھنے والے نے کہا : اللہ کے رسول کی صریح اجازت کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرتے ۔ ( بخاری : 900 ) چنانچہ حضرت عاتکہ ؓبرابر مسجد جاتی رہیں ۔ وہ اس نماز کے موقع پر بھی مسجد میں موجود تھیں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا ۔
ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہی حدیث سنائی تو ان کے بیٹے نے کہا کہ ہم تو اپنی خواتین کو مسجد نہیں جانے دیں گے ۔ حضرت ابن عمرؓ نے اس کو انتہائی سخت اور درشت انداز میں ڈانٹا کہ میں تجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا حکم سنا رہا ہوں اور تو اس سے سرتابی کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ ( مسلم : 442 )
بد قسمتی سے بعد کی صدیوں میں خواتین کے مساجد میں جانے کی ہمّت شکنی کی گئی اور وہاں انھیں ادائیگی نماز کی سہولیات نہیں فراہم کی گئیں ، جس کی بنا پر مساجد میں ان کی حاضری کم سے کم ہوتی گئی ، یہاں تک کہ بالکل ختم ہوگئی ۔ اب عام طور پر خواتین مساجد نہیں جاتیں _ اگر کوئی خاتون جانا چاہے تو وہاں اس کے لیے نظم نہیں ہوتا ۔ کوئی خاتون اس کا مطالبہ کرے تو اسے ایسی نظروں سے دیکھا جاتا ہے جیسے اس نے کسی ناجائز چیز کا مطالبہ کردیا ہو اور اسے آزاد خیال اور باغی سمجھا جاتا ہے ۔
خواتین کو مساجد سے روکنے کے لیے متعدد عذر تراشے گئے ۔ ان کی عزّت و عصمت کے تحفّظ کی بات کہی گئی ، فسادِ زمانہ کی دلیل دی گئی ، ان کی وجہ سے مساجد کی پاکیزگی اور تقدّس میں خلل پڑنے کے اندیشے ظاہر کیے گئے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ سب کم زور توجیہات ہیں ۔ اسی طرح انہیں مسجد سے دور رکھنے کے لیے نصوص کی غلط تاویلات کی گئیں ، مثلاًکہا گیا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے عورتوں کا گھروں میں نماز پڑھنا افضل قرار دیا ہے ، اس لیے انھیں مسجدوں میں نہیں جانا چاہیے ۔ لیکن یہ بات چھپائی گئی کہ انہی احادیث میں عورتوں کو مسجدوں میں جانے کی اجازت دی گئی ہے اورمردوں کو تاکیداً حکم دیا گیا ہے کہ وہ انہیں اس سے نہ روکیں ۔ پھر یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ کسی کام کے افضل اور کسی کام کے غیر افضل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غیر افضل پر عمل ناپسندیدہ ہے ، اس سے روکا جائے گا ۔
انسانی طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں ۔ دین میں افضل اور غیر افضل سب پر عمل کی آزادی دی گئی ہے ۔ پہلی صف میں نماز پڑھنا افضل ہے ، لیکن بعد کی صفوں میں بھی شامل رہ کر نماز پڑھی جا سکتی ہے ۔ تکبیر تحریمہ کے وقت نماز میں شامل ہونا افضل ہے ، لیکن بعد میں شامل ہونے والوں کی بھی نماز ہوجائے گی ۔ اسی طرح کہا گیا کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا ہے کہ اگر اللہ کے رسول ﷺ عورتوں کے بعد کے حالات دیکھ لیتے تو انھیں مسجد جانے سے منع کردیتے ۔ اس کو عورتوں کے مسجد جانے کی ممانعت کے لیے بہت بڑی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ، حالاں کہ تاریخ سے ثابت نہیں کہ اس بنیاد پر خود حضرت عائشہ ؓنے کبھی صراحت سے عورتوں کو مسجد جانے سے روکا ہو۔
ایک رائے یہ ظاہر کی گئی ہے کہ عورتوں کے لیے نماز کی سہولت صرف ہائے وے یا بازار کی مسجدوں میں فراہم کی جائے ، تاکہ کسی ضرورت سے گھر سے باہر جانے والی عورتوں کی نماز قضا نہ ہو ۔ یہ رائے بھی درست نہیں معلوم ہوتی ۔ جب اللہ کے رسولﷺ کا صریح حکم ہے کہ عورتوں کو مسجدوں میں جانے سے نہ روکا جائے تو اس کا اطلاق تمام مساجد پر ہوتا ہے ، محلوں کی مساجد پر بھی ۔ اس حکم پر عمل کا تقاضا ہے کہ ہر مسجد میں ایسی سہولیات فراہم کی جائیں کہ جو عورت بھی مسجد جانا چاہے ، جا سکے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو مسجد جانے کی اجازت دی ہے اور مردوں کو حکم دیا ہے کہ وہ انھیں نہ روکیں ، اس لیے کسی کے لیے جائز نہیں ، خواہ وہ کوئی بھی ہو ، کہ وہ انھیں اس حق سے محروم کرے ۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہر مسئلے کو قرآن و سنت اور ابتدائی صدیوں کے تعامل کی روشنی میں دیکھا جائے اور اس کا حل پیش کیا جائے ۔ بعد کی صدیوں میں فقہی تصلّبات کی وجہ سے جو سختیاں اختیار کی گئی ہیں اور غیر ضروری احتیاط کو روا رکھا گیا ہے اسے دین کا جز نہ سمجھا جائے ۔ خاص طور سے مساجد میں خواتین کے داخلہ کے مسئلے کو اسی اعتبار سے دیکھا جائے ۔ مساجد عبادت کے مقامات اور روحانیت کے مراکز ہیں ۔ وہاں مسلم سماج کے افراد کو تربیت و تزکیہ ، روحانیت کے ارتقا اور دینی تعلیم کے مواقع حاصل ہوتے ہیں ۔ مسلم خواتین بھی اسلامی سماج کا حصہ ہیں ۔ انھیں بھی تربیت و تزکیہ کے ان مراکز سے استفادہ کرنے کے مواقع فراہم کیے جانے چاہئیں ۔ نئی مساجد کو اس طرح تعمیر کیا جائے کہ ان میں خواتین کے لیے مخصوص گوشہ ہو ۔ آمادگی ہو تو قدیم مساجد میں بھی بہ آسانی ان کے لیے گوشے مخصوص کیے جاسکتے ہیں ۔ ہمیں مساجد میں آنے کی خواہش مند خواتین کو روکنے کے بجائے ان کی تربیت کی تدابیر اختیار کرنی چاہییں ۔ ہم ان کو بتائیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے جہاں خواتین کے لیے مسجد میں آنے کی اجازت دی ہے ، وہیں اس کے آداب بھی بیان کیے ہیں ۔ آپؐ نے مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط سے سختی سے منع کیا ہے ، مسجد سے باہر بھی اور مسجد کے اندر بھی ۔ آپؐ نے عورتوں کے لیے مسجد کا ایک دروازہ خاص کردیا تھا ۔ آپؐ نے خوش بو لگاکر اور زیب و زینت اختیار کرکے عورتوں کے گھر سے نکلنے کو منع کیا ہے ۔
عورتوں کو مسجدوں میں جانے سے روکنا مسلم معاشرہ کے دورِ زوال کی نشانی ہے ۔ عہدِ نبوی ہی میں نہیں ، بلکہ صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین اور بعد کے ادوار میں صدیوں تک خواتین نہ صرف مساجد میں عبادت کے لیے جاتی تھیں ، بلکہ درس و تدریس کی مجلسیں بھی آراستہ کرتی تھیں ۔ مسجد حرام ، مسجد نبوی ، مسجد اقصٰی ، مسجد اموی اور دیگر مساجد میں ان کے حلقے قائم تھے ، جن میں محرم اور غیر محرم کی تفریق کے بغیر ہزاروں طلبہ ان سے فیض اٹھاتے تھے ۔ بعد کے ادوار میں اندیشے حاوی کرلیے گئے ۔ یہ بحثیں کی جانے لگیں کہ عورت کا مکمل وجود پردہ ہے ، اس کی آواز پردہ ہے ، اس کا گھر سے باہر نکلنا فتنے کا باعث ہے ۔ چنانچہ اسے گھر کی چہار دیواری میں قید کردیا گیا ۔
موجودہ دور کا تقاضا ہے کہ نہ صرف مساجد میں حاضری کے معاملے میں ، بلکہ زندگی کے دیگر معاملات میں ، خواتین کو اسلام نے جو حقوق دیے ہیں ، ہم شرحِ صدر کے ساتھ انہیں وہ حقوق دینے پر آمادہ ہوجائیں ۔ مسلمان خواتین کو اپنا حریف بنانے کے بجائے حلیف بنائیں ۔ انھیں ورغلانے اور دین سے برگشتہ کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہے ۔ ہمیں ان سازشوں کو ناکام بنانا ہے اور حکمت اور دانائی کے ساتھ ان کا توڑ کرنا ہے ۔ اگر امّت کے باشعور طبقے اور خاص طور پر طبقۂ علماء اور دینی تنظیموں کے سربراہوں نے ہوشیاری کا مظاہرہ نہ کیا تو انھیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ مسلم عورتوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ انھیں اندیشہ ہائے دور دراز سے پَرے ہوکر وہ تمام حقوق دیے جائیں جو انھیں اسلام کی ابتدائی صدیوں میں حاصل تھے ۔
امید ہے کہ اس کیس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمے داران دانش مندی کا ثبوت دیں گے ۔ وہ یہ موقف پیش کریں گے کہ اسلام نے مسجدوں میں داخلہ کے سلسلے میں صنفی تفریق کو روا نہیں رکھا ہے ۔ مرد اور عورت دونوں مسجد کے آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے وہاں عبادت کے لیے جا سکتے ہیں ۔